• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں ملک اور قوم کی قسمت بدل دوں گا

’’نعرے بہت لگے، بہت سے سبز باغ دکھائے گئے، مگر عوام کی قسمت نہیں بدلی پاکستان میں سیاسی وعدوں اور انتخابی منشور کی تاریخ پر ایک نظر‘‘

’’ووٹ مانگنے والی سیاسی جماعتیوں کو چاہیےکہ وہ ووٹرز کو عزت دیں،اس کا مناسب طریقہ یہ ہے کہ حق رائے دہی کادرست استعمال کرنےکے لیے انہیں پہلےتفصیل کےساتھ اپنا منشور مہیاکریںجس کی بنیادپروہ فیصلہ کرسکیں کہ کون سی جماعت ہےجو ملک و قوم کی قسمت بدل سکتی ہے۔ ماضی میں سیاسی جماعتیں انتخابات کا موسم شروع ہونےسےقبل ہی اپنامنشور جاری کردیاکرتی تھیں۔ جو فیصلہ سازی کیلئےعوام کی رہنمائی کرتاتھا، مگر موجودہ سیاسی منظر نامہ ماضی کی نسبت مختلف ہے۔اس مرتبہ انتخابی مہیم کےدوران سیاسی جماعتوں نے منشورسے زیادہ مخالفین کی کردارکشی پرتوجہ دی۔‘‘

’’وہ عام وعدے جو کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے کے لیے اب تک کرتی آئی ہیں، جن میں معیاری اور یکساں تعلیمی نظام مہیا کرنا، غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے اشیاء خرد و نوش پر سبسڈی دینا، سستی رہائش فراہم کرنا، صحت کے لیے بہترین سہولتیں مہیا کرنا، نوجوانوں کو ملازمت کے نئے مواقعے فراہم کرنا، لوڈ شیڈنگ ختم کرنا، ملک میں امن و امان کی فضا قائم کرنا، ملک و قوم کو مضبوط و مستحکم بنانا، ملک کے قرضے ادا کرنا شامل ہیں۔ مگر اقتدار ملنے کے بعد یہ تمام وعدے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔‘‘

آج 25 جولائی 2018 ء ہے، ملک کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے، آج عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے فیصلہ کیا جائے گا کہ آئندہ پانچ برس کون سی جماعت حکومت قائم کرسکے گی۔ کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوگیا ہے، بس اب کچھ ہی دیر میں بڑا فیصلہ آجائے گا۔ لیکن ٹھہریئے کیا آپ نے اپنا قیمتی ووٹ دینے سے قبل سیاسی جماعتوں کے منشور کو جاننے کی کوشش کی ہے؟ کیا آپ منشور کی اہمیت سے واقف ہیں؟ اور کیا آپ جانتے ہیں کہ منشور کے بارے میں مکمل جانکاری ہونا کسی بھی عام شہری بالخصوص ووٹر کے لیے کتنا ضروری ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو ابھی بھی کچھ وقت باقی ہے۔ ہم آپ کو منشور کی اہمیت اور ملک کی چند بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور سے آگاہ کرتے ہیں، جن کی بنیاد پر وہ 1970 سے اب تک تقریباً پچھلے پچاس برسوں سے ووٹ حاصل کر رہی ہیں۔

جمہوری معاشروں میں سیاسی جماعتوں کا منشور انتخابی مہم کا انتہائی اہم حصہ سمجھا جاتا ہے، یہ ایک ایسی دستاویز ہے، جس میں سیاسی جماعتیں نہ صرف ملک کو درپیش مسائل پر اپنا نقطہ نظر بیان کرتی ہیں بلکہ ان کے حل کے لئے حکمت عملی بھی ترتیب دیتی ہیں کہ، کس طرح وہ اگلے پانچ برسوں میں ملک و قوم کی بہتری کے لیے اقدامات کریں گی۔ دوسری جانب یہ عوام کا فرض ہے کہ وہ منشور کو سمجھیں کہ سیاسی جماعتیں ان سے کیا وعدے کررہی ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ نہ سیاسی جماعتیں منشور کو وہ اہمیت دیتی ہیں، جو اسے ملنی چاہیے اور نہ ہی عوام۔ منشور اصل میں انتخابی وعدوں کی شائع شدہ صورت ہوتا ہے، جس میں جماعتیں اپنے عزائم، سوچ اور وژن کا اظہار کرتی ہیں، اس کے ساتھ یہ بھی بتاتی ہیں کہ اقتدار ملنے کی صورت میں ان کے اہداف اور محرکات کیا رہیں گے۔ منشور کسی بھی سیاسی جماعت کے احتساب کا بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اصولی طور پر سیاسی جماعتوں کا منشور اتنا جامع ہونا چاہئے کہ اس میں نہ صرف عوام سے کئے گئے وعدے شامل ہوں بلکہ ان کی تکمیل کے حوالے سے حکمت عملی بھی واضح ہو۔ منشور کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ الیکشن کمیشن کسی بھی سیاسی جماعت کو اس وقت تک انتخابات میں حصّہ لینے نہیں دیتا جب تک وہ تحریری طور پر اپنا منشور جمع نہ کروا دیں۔ یعنی کوئی بھی جماعت منشور کے بغیر نہ تو انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے اور نہ ہی ملک پر حکمرانی کرسکتی۔

یوں تو ہر عام و خاص اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں محض اس لئے سیاست کے میدان میں اترتی ہیں کہ وہ ملک و قوم کی خدمت کرسکیں۔ اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی بات کریں تو وہاں کسی بھی سیاسی جماعت کی مقبولیت اور کام یابی میں اس کے انتخابی منشور کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ انتخابات سے کئی ماہ قبل ہی سیاسی جماعتیں اپنے منشور کا اعلان کر دیتی ہیں کہ جب وہ منتخب ہو کر اقتدار میں آئیں گی تو کس طرح عوام کی خدمت کریں گی اور انہیں کون کون سی سہولیتں فراہم کریں گی۔ عوام کی بڑی تعداد بھی اسی جماعت کو ووٹ دیتی ہے جو نہ صرف ان کا ہر طرح سے خیال رکھے بلکہ ملک کو معاشی و اقتصادی طور پر بھی مستحکم و مضبوط بنائے۔ مگر افسوس ہمارے ملک میں منشور کو اہمیت نہیں دی جاتی، اسے محض ایک رسمی کارروائی اور دلفریب انتخابی نعروں سے مزین کتابچہ سمجھا جاتا ہے، نہ ہی اس کی بنیاد پر جماعتیں ووٹ مانگتی ہیں اور نہ ووٹر اس کی بنیاد پر کسی کو ووٹ دیتا ہے، بلکہ سیاسی جماعتیں منشور سے زیادہ دلفریب نعروں، جلسے جلوسوں میں جوش خطابت کے دوران کیئے جانے والے زبانی وعدوں اور ان میں بانٹے جانے والی ایک پلیٹ بریانی اور کولڈ ڈرنگ کے ذریعے عوام کا مینڈیٹ خریدنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کے ووٹرز ابھی اس قدر باشعور نہیں ہوئے کہ وہ جماعتی منشور کی اہمیت کو سمجھیں اور کسی بھی سیاسی جماعت کو اس کے منشور اور پروگرام سے متاثر ہوکر قبول یا مسترد کرکے ووٹ کا استعمال کریں۔

اگر ہم ملک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو 1947ء سے 1958ء کے دوران انتخابات قومی سطح کے بجائے صوبائی سطح پر مختلف صورتوں میں ضرورت کے تحت کروائے گئے، جس کے باعث کسی قسم کی انتخابی مہم کا انعقاد نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت نے اپنا منشور پیش کیا، نہ ہی اس دور میں وہ انتخابی گہماگہمی دیکھنے کو ملی جو موجودہ دور میں ملتی ہے۔ 1965ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات ایوب خان کی زیر نگرانی بی ڈی سسٹم کے تحت ہوئے تھے۔ یہ انتخابات نہ صرف مارشل لاء کے دور میں ہوئے بلکہ ان سے منتخب ہونے والی ایوب خان کی حکومت بھی بعدازاں 1969ء میں مارشل لاء کی نذر ہوگئی۔ اگر 1970ء میں ہونے والے انتخابات کو ملکی تاریخ میں ہونے والے پہلے عام انتخابات کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، ان انتخابات کے حوالے سے سیاسی مبصرین کی رائے بھی یہی ہے۔

1970ء کے تاریخی انتخابات سے چند ماہ قبل ہی انتخابی دوڑ میں شامل تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور پیش کر دیئےتھے ، جن کی بنیادوں پر وہ جلسے جلوسوں میں عوام سے ووٹ کی اپیل کرتے دکھائی دیئے۔ اگر منشور کی بنیاد پر کسی جماعت کو کامیابی ملی ہے تو وہ ان انتخابات میں سر فہرست رہنے والی پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ پی پی پی کا اُس وقت ایک ایسا منشور تھا، جو 70ء کی دہائی سے آج تک نمایاں حیثیت رکھتا ہے، بلاشبہ ان انتخابات کے دوران پیش کیے جانے والے اکثر سیاسی پارٹیوں کے منشور اعلیٰ معیار کے تھے۔ جو حیثیت پی پی پی کے منشور کو حاصل ہوئی وہ آج تک کسی اور کو نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ ماہرین آج بھی اس منشور کو خطے میں لکھے گئے تمام منشوروں میں سب سے بہترین منشور کے طورپر گردانتے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو جو اپنی سیاسی فہم و فراست کے لیے جانے جاتے تھے۔ انہوں نے چند زیرک دانشوروں کی مدد سے اس منشور کو مرتب کیا تھا، جن میں مایہ ناز مارکسی نظریہ دان جے اے رحیم، سوشلسٹ و ماہر اقتصادیات ڈاکٹر مبشر حسن، اسلامی سوشلسٹ کے نظریہ ساز حنیف رامے اور شیخ محمد راشد شامل تھے۔ ان کا مرتب کیا گیا منشور ’’روٹی، کپڑا اور مکان مانگ رہا ہے ہر انسان‘‘ طویل اور مربوط تھا، جو دانشورانہ معیار کے ساتھ لکھا گیا تھا، جس میں ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ کرتے ہوئے عوام پر دھاک جما دی کہ ان کی جماعت عوام کی ضرورتوں سے بخوبی واقف ہے، نیز یہ خطے کی معاشی اور سیاسی تاریخ اور اس کے ساتھ جو حالات پیپلزپارٹی کی تخلیق کا باعث بنے، ان کا منظم انداز میں جائزہ لیتے ہوئے پاکستان میں جمہوریت اور سوشلزم کے لیے پختہ کیس پیش کرتا تھا کہ ان کی پارٹی نے بڑی اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی اصلاحات لانے کے لیے کس طرح سے منصوبہ بندی کی ہے تا کہ ایک مضبوط، جمہوری اور ترقی پسند پاکستان اُبھرسکے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے تو انہوں نے بیشتر وعدوں کو عملی جامہ پہنایا، بھٹو کے دورِ اقتدار، 1973 ء میں پیر پگاڑا نے پی ایم ایل کنوینشن اور پی ایم ایل کونسل کو ملا کر پی ایم ایل فنکشنل پارٹی کی بنیاد رکھی۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ وہ اپنی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر 1977ء کے انتخابات میں کامیاب ہوجائے گی۔ ساتھ ہی پارٹی منشوروں کے معیار میں ڈرامائی انداز میں تبدیلی دیکھنے کو ملی، اس نے الیکشن مہم میں مختلف اداروں کی نیشنلائزشین، زرعی شعبہ جات اور مز دوروں کے لئے اصلاحات، بھارت سے پاکستان کے ایک لاکھ قیدیوں کی رہائی، لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کرنے اور مسلمان ممالک کے ساتھ بہتر روابط کانعرہ لگایا اور ایک بار پھر جولائی 1977ء میں پرانا منشور نئے انداز میں پیش کیا گیا، جس سے عوام زیادہ متاثر نہ ہوئے، اس کے بارے میں ایشین سروے کی ایک تحریر میں مورخ لارینس زیرنگ لکھتے ہیں کہ، ’’ 1977ء میں پیپلز پارٹی کا منشور اپنے 1970ء کے منشور کی محض ایک غیر متاثر کن نقل تھا جبکہ حزب اختلاف کے اتحاد کا منشور پیپلز پارٹی کی حکومت پر شدید تنقید کے علاوہ کچھ نہیں تھا‘‘۔ اس کے بر عکس 9 جماعتوں کے اتحاد پاکستان جمہوری اتحاد اور پاکستان مسلم لیگ فنکشنل نے ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد بھٹو کی پالیسیوں کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ان کے دور اقتدار میں قومی تحویل میں لی گئی صنعتوں اور تعلیمی اداروں کی حالت ابتر تھی۔ ایک موقف یہ بھی تھا کہ بھٹو نے اپنے دور حکومت میں مخالفین اور عام لوگوں کے اظہار رائے اور پریس پر پابندی لگائی۔ اس میں صنعت کاروں اور تاجر برادری نے ان کا خوب بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا ان کی بھر پور حمایت کی۔ ان کا مقصد بھٹو کو اقتدار سے ہٹانا تھا۔ بعدازاں انتخابات پی پی پی نے قومی اسمبلی میں 151 نشستیں اور قومی اتحاد نے 38 نشستیں جیتیں۔ اپوزیشن نے الیکشن نتائج کو رد کیا اور بھٹو کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا، بعدازاں تحریک نظام مصطفی کی شکل اختیار کی۔ دونوں پارٹیوں میں کشیدگی بڑھی تو 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے آئین معطل کرکے مارشل لاء نافذ کردیا۔ بھٹو کو قتل کیس میں پھانسی دی گئی، تو مسلم لیگ (ق) نے پی پی پی کے ساتھ مل کر مارشل لاء کے خلاف مہم چلائی اور اقتدار میں آنے کے بعد مارشل لاء کو ہٹانے اور میڈیا کو آزاد کرنے کا وعدہ کیا، مگر 1985ء میں جنرل ضیاالحق کے زیر نگرانی غیر جماعتی انتخابات منعقد کئے گئے۔ ان انتخابات میں ہر فرد کا اپنا نعرہ، اپنا منشور تھا۔ ان میں جو کامیاب ہوئے وہ محض اپنے ہی حلقے تک محدود رہے۔ نواز شریف پنجاب اور غوث علی شاہ سندھ کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے جب کہ محمد خان جونیجو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ان کی پارٹی کا منشور ضیاالحق سے نجات اور اکانومی کی بہتری تھا۔ یہ پارٹی ملک میں اسلام کا نفاذ اور افغان جنگ سے نجات چاہتی تھی۔ جب وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے آتے ہی سب سے پہلے مارشل لاء ہٹا کر جمہوری حکومت بحال کی اور میڈیا کی آزادی کے لیے مختلف اقدامات کیے، بعدازاں انہوں نے پانچ نکاتی پروگرام پیش کیا۔ جس کے تحت پورے ملک میں تعلیم، صحت، روڈ، راستے، نکاسی کے انتظامات، میٹھے پینے کے لیے پانی کی ترقیاتی اسکیمیں شروع کیں اور بے گھر لوگوں کے لیے مکان بناکر نہایت سستے اور آسان قسطوں پہ مہیا کرنے کا پروگرام شروع کروایا۔ ساتھ ہی ملک کے بڑے اور دور دراز گاؤں میں بجلی پہنچانے کے لیے ولیج الیکٹریفکیشن پروگرام کے تحت بجلی مہیا کی۔ اس کے علاوہ کئی اسپتالوں، اسکولوں کی عمارتیں بنوائیں اور نئی روشنی اسکول قائم کروائے۔

1988ء کے انتخابات کا جب وقت آیا تب تک مسلم لیگ مختلف ڈھڑوں میں تقسیم ہوچکی تھی، اسی میں سے ایک گروہ محمد خان جونیجو، نواز شریف اور فدا محمد خان کا بھی تھا جسے پاکستان مسلم لیگ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اور تصور کیا جاتا تھا کہ یہ جماعت تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی مسلم لیگ (کی جاں نشین) کی کڑی ہے۔ چوں کہ 1985ء کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے تھے اس لیے پاکستان مسلم لیگ بطور جماعت زیادہ سرگرم نظر نہیں آئی۔ مگر 1988ء کے انتخابات کے موقع پر مسلم لیگ نے اسلامی جمہوریہ الائنس کے ساتھ اتحاد کرکے رائٹ ونگ الائنس کا حصہ بن گئی۔ اس نے انتخابی مہم کے دوران عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کرتے ہوئے یقین دہانی کروائی کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی جماعت ملک و قوم کی ترقی، ملکی معیشت کی بحالی اور اس کے استحکام کے لیے اقدامات کریں گے۔ دوسری جانب بھٹو کی پھانسی نے عوام کے جذبات پر گہرا اثر چھوڑا۔ انتخابات وقت پر ہوئے اور پیپلز پارٹی کو اقتدار مل گیا۔ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں، لیکن جلد ہی صدر اسحاق نے پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور انہیں کرپشن کے الزام میں وزارت عظمی سے ہٹا کر بے نظیر کو ملک بدر کردیا گیا۔ آئی جے آئی اتحاد نے 1990 کے انتخابات میں فتح حاصل کی۔ نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ پارٹی کا ایک گروپ جونیجو کی سابقہ بے لوث خدمات کے نتیجے میں انہیں وزیر اعظم بنانا چاہتا تھا۔ یہ دھڑا 1993 میں مسلم لیگ سے علیحدہ ہو گیا۔ بچی کھچی پارٹی کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کا نام دیا گیا۔ ن لیگ ضیاء مشن کو جاری رکھنا چاہتی تھی۔ مگر اس حکومت پر بھی کرپشن کے الزامات لگے ، اس سے قبل کہ وہ عوام کی خاطر خواہ خدمت کرتے حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ 1997 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے سابقہ منشور کی بنیاد پر ایک بار پھر حکمران جماعت بن گئی اور مگر اس بار بھی انہیں عوام کی خدمت کا موقع نہ مل سکا اور 1999 میں جنرل مشرف نے حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں جلاوطن کر دیا۔

میں ملک اور قوم کی قسمت بدل دوں گا

2002ء میں ریفرنڈم کے ذریعے جنرل پرویز مشرف ملک کے صد بن گئے، انہوں نے اسی سال عام انتخابات کروائے مگر ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے سربراہ (چیئرمین) کرپشن کیسز میں جلا وطنی کی سزا کاٹ رہے تھے، دیگر چھوٹی بڑی جماعتوں نے 2002ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا مگر کوئی بھی جماعت عوام کو خاص متاثر نہ کرسکی، اس طرح ایک بار پھر جنرل پرویز مشرف ملک کے صد بن گئے۔ ان کے دستور میں ملک کے قرضے اُتارنا، ملک میں جمہوری حکومت کا قیام اور ملک کی معیشت کو استحکام دینا تھا۔ مشرف کے دور اقتدار کے اختتام پر ان کا دعویٰ تھا کہ، انہوں نے اپنے منشور میں شامل کئی وعدوں کو پورا کیا، ان کے دور میں ’اصل‘ جمہوریت کا نظام قائم ہوا، معیشت میں بہتری آئی اور دنیا میں پاکستان کا وقار بلند ہوا۔ دوسری جانب قوم بھی ان کی خدمات سے کافی حد تک مطمئن تھی، جب کہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے ان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے دسمبر 2001ء میں، اپنے بیان میں کہا کہ، صدر پرویز مشرف نے ملکی ڈھانچے میں بروقت اصلاحات متعارف کروائی، جن میں نجکاری، ٹیکس کے نظام پر نظرِثانی، بنکاری کے نظام کی تشکیلِ نَو اور ملک میں بدعنوانی کی روک تھام کی منصوبہ بندی شامل تھی۔ مگر بعض حلقوں کے مطابق، ان کے وردی میں رہتے ہوئے، ’’اصل جمہوری نظام کے قیام کا دعویٰ صرف دعویٰ ہی معلوم ہوا‘‘۔ یہ ہی وجہ تھی کہ تمام تر خدمات کے باوجود بھی عوام کو اب بھی اصل جمہوری نظام کی تلاش تھی۔

2008ء میں ہونے والے انتخابات، گزشتہ تمام انتخابات سے مختلف اس لیے بھی تھے کہ اس وقت تک میڈیا آزاد ہو چکا تھا۔ اب عوام کو ہر پل کی خبر بغیر کسی سینسر شپ کے موصول ہو رہی تھی۔ لیکن ان انتخابات میں بھی عوام نے ووٹ دیتے وقت کسی سیاسی جماعت کے منشور کو مدِ نظر رکھنے کی بجائے ذاتی پسندگی و نا پسندگی کو مدنظر رکھا گیا۔ ان انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف ایک مضبوط جماعت کے طور پر میدان میں اتری، اس نے اپنے منشور میں خاندانی اور باری باری کی سیاست کے خلاف نعرہ بلند کیا، انٹر پارٹی الیکشن، دفاعی بجٹ کا استدلال، اداروں کو مضبوط بنانے، سماجی معاشی ترقی، کشمیر تنازع کا حل اور قومی ہم آہنگی کے لیے اقدام کریں گے، مگر بے نظیر کے قتل کے بعد ملک میں ایمرجنسی کی صورتحال میں شفاف الیکشن نہ ہونے کے خدشے کے باعث پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے 2008ء کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا، بعدازاں 2013 ء میں پی ٹی آئی اسی منشور کے ساتھ نیا پاکستان، انصاف، امن اور خوشحالی کے کا وعدہ کرتے ہوئے ایک بار پھر میدان میں اتری اور بھاری اکثریت میں ووٹ حاصل کر کے ملک کی دوسری بڑی جماعت بن کر اُبھری اور حزب اختلاف میں جگہ بنالی۔

جب کہ 2008ء میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی جمہوریت بہترین انتقام کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ذوالفقا علی بھٹو کے منشور روٹی، کپڑا، مکان مانگ رہا ہے ہر انسان کے ساتھ ساتھ پانچ E یعنی ایمپلائمنٹ، ایجوکیشن، انرجی، انوائرمنٹ اور ایکویٹی کو بھی اپنے منشور میں شامل کیا اور قوم سے وعدہ کیا کہ اقتدار میں آنے کے بعد ملک کو در پیش چیلنجز، جن میں دہشت گردی، مسئلہ کشمیر تنازع، صحت اور مہنگائی شامل ہیں، کا ڈٹ کر سامنا کریں گے اور قوم کو ریلف فراہم کریں گے۔ دوسری جانب ن لیگ نے اپنی انتخابی مہم میں قوم کو یقین دہانی کروائی کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد نے پانچ D یعنی ڈیموکریسی، ڈیولپمنٹ، ڈیولوشن، ڈائیورسٹی اور ڈیفنس کے حوالے سے کام کریں گے، مگر عوام نے انہیں موقع نہ دیا اور پیپلز پارٹی حکومت قائم کرنے میں کام یاب ہوگئی۔ اقتدار میں آنے سے قبل پیپلز پارٹی نے وعدے تو کئی کیے مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔ 2013ء میں جب ان کا دور اقتدار ختم ہوا تو ملکی قرضے 2008ء کی نسبت دوگنا ہو چکے تھے۔ نوجوانوں کی کثیر تعداد بے روزگار جب کہ لوڈشیڈینگ کا دورانیہ شہری علاقہ جات میں بارہ اور دیہی علاقوں میں سولہ سے بیس گھنٹوں تک جاپہنچا تھا۔

عوام نے حکمران جماعت سے ناامید ہو کر 2013ء کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کو ایک موقع دیا، جو مضبوط معیشت، مضبوط پاکستان اور ہم بدلیں گے پاکستان کے منشور کے ساتھ 2013 ء کے انتخابات میں کھڑی ہوئی تھی۔ مگر ان پر بھی ’’وعدہ کرو جو پورا نہ کرو‘‘ والی مثال صادق آتی ہے۔ ن لیگ نے 2013 کے انتخابات سے قبل اپنے منشور، جلسوں اور انتخابی مہم میں بارہاں بجلی کی لوڈ شیڈنگ چند ماہ میں ختم کرنے، چھوٹے بڑے شہروں کے درمیاں موٹر وے تعمیر کرنے، گرین لائن، اورنج لائن، میٹروبس سروس منصوبوں کے حوالے سے کئی وعدے کیے۔ ان کی حکومت نے پہلی بار ملک کی تاریخ میں آئنی مدت مکمل کی، مگر اس کے باجود بھی تمام وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ نیز شہباز شریف نے 2018 کے انتخابات کے حوالے سے انتخابی مہم چلتے ہوئے اپنے ایک خطاب میں یہاں تک کہہ دیا کہ، ’’لوڈشیڈنگ کی ذمہ دار ان کی حکومت نہیں بلکہ عبوری حکومت ہے‘‘۔ ن لیگ نے گزشتہ عام انتخابات میں عوام کوغربت، بیروزگاری، دہشتگردی اور جرائم کے خاتمے کی نوید بھی سنائی تھی۔ لیکن پانچ سال گزرنے کے باوجود عوام اِنہی مسائل اور مشکلات سے دوچارہیں، جن سے وہ 2013ء میں دوچار تھے۔ انہیں کوئی ریلیف نہیں ملا۔ یہ حقیقت ہے کہ حکمرانوں کا تعلق پنجاب، سندھ، کے پی کے یا بلوچستان سے ہو، وہ بیشتر انتخابی وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ شدید گرمی کے باوجود بعض جگہوں پر لوڈ شیڈنگ تاحال جاری ہے۔ بیروزگاری کے باعث نوجوانوں کی بڑی تعداد جرائم کی دلدل میں پھنس رہی ہے، البتہ 2013ء کے مقابلے میں دہشتگردی میں قدرے کمی آئی، جس کا کریڈٹ سیاسی حکومتوں کے ساتھ ساتھ پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی جاتا ہے، تاہم کراچی جیسے شہر میں اسٹریٹ کرائم، چوری، قتل وغارت گری کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، گوکہ اس میں وہ شدت نہیں جس کا سامنا شہر قائد کے باسیوں کو ماضی میں رہا ہے۔ اور جہاں تک میٹرو بس سروس کی بات ہے، تو لاہور، راولپنڈی اسلام آباد اور ملتان میں میٹرو بس سروس کا آغاز ہو چکا ہے۔ جب کہ کراچی اور پشاور میں یہ منصوبہ تاحال زیر تعمیر ہے۔

2018 کے عام انتخابات سے قبل تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم بھر پور انداز میں چلائی، مگر ڈیڑھ ماہ قبل تک کسی نے بھی اپنا منشور پیش کرنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ تاہم انتخابات سے تقریباً ایک ماہ قبل ایم ایم اے وہ پہلی جماعت تھی، جس نے اپنا منشور پیش کیا، جب کہ بیس روز قبل پیپلز پارٹی نے اپنا دسواں منشور پیش کیا۔ یہ منشور بھی ان کے پرانے منشور سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے منشور میں ملک کو مضبوط و مستحکم بنانے، تعلیم و صحت پر خصوصی توجہ دینے،نوجوانوں کو فعال شہری بنانے کے لیے ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام دینے، ملک کو پُر امن اور محفوظ ترین جگہ بنانے،غذائی مصنوعات کے ساتھ ساتھ کاشتکاروں کو بھی سبسڈی دینے، مستحقین کو بے نظیرکارڈ دینے، غریب مریضوں کو ہیلتھ کارڈ دینے، ’اپنی گلیاں اپنے گھر پروگرام‘ کے تحت سستی رہائش دینے، ٹیکسٹائل ٹیکس فری اور پانی کا مسئلہ حل کرنے کے وعدے کئےہیں۔ بھوک مٹاؤ پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم بھوک مٹاؤ پروگرام گزشتہ 40 سال سے جاری و ساری ہے لیکن عوام کو کسی قسم کا ریلف نہ مل سکا۔ گزشتہ دس برس سے سندھ میں مسلسل اقتدار میں رہنے کے باوجود تھر کے علاقے میں غذائی قلت پر قابو نہ پاسکے، سیکڑوں بچے قلت خوراک سے جاں بحق ہوگئے ہیں۔پی پی پی نے گزشتہ انتخابات کی طرح اس بار بھی اپنی انتخابی مہم میں تعلیم اور صحت پر خصوصی توجہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ مگر سندھ میں طویل عرصے سے حکمرانی کے باوجود بھی صوبے کے بیشتر سرکاری اسپتالوں میں صحت کی ناکافی سہولیات ہیں، مریض کسمپرسی کا شکار ہیں۔ تعلیم کی صورتحال بھی انتہائی خراب ہے۔ سندھ کے بیشتر تعلیمی ادارے ویران پڑے ہوئے ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مستحیقن افراد کو دیئے جانے والے بے نظیر کارڈ سے منسلک اکاؤنٹس میں رقم کی منتقیلی ابتداً بروقت ہوتی رہی مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا رقم کی ادائیگی کا سلسلہ بھی رُک گیا۔

سابق حکمراں جماعت ن لیگ کو جب عدالتی فیصلوں سے کچھ فرست ملی تو انہوں نے بھی انتخابات سے دو ہفتے قبل اپنے منشور کا اعلان کراچی سے انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے کیا۔ جس میں انہوں نے کراچی کے چار بڑے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں حل کرنے کا وعدہ کیا کہ اقتدار میں آتے ہی، سب سے پہلے 6 ماہ میں شہر سے کچرا اُٹھائیں گے۔ شہریوں کو صاف پانی مہیا کریں گے، ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو حل کرتے ہوئے میٹرو بس اور اورینج ٹرین سروس کا آغاز کریں گے اور شہر کے انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنائیں گے۔ اس کے علاوہ ملک کے تمام بڑے شہروں میں یونیورسٹیاں تعمیر کریں گے اور فنی تعلیم کو فروغ دیں گے، ملازمت کے نئے مواقعے فراہم کریں گے، عوام کو صاف شفاف پانی مہیا کریں گے، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، اور سستا گھر اسکیم بھی ان کے وعدوں میں شامل ہے۔ نیز انہوں نے اپنے نئے دستور میں یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ، معاشی ترقی کے لیے 9 اسپیشل اکنامک زونز بنائیں گے، جن میں سی پیک، زراعت، پاور جنریشن، آئی ٹی، ماہی گیری وغیرہ شامل ہیں۔ آئندہ پندرہ برسوں میں برآمدات میں پندرہ فیصد اضافہ کریں گے، ٹیرف کی مشکلات کو ختم کریں گے، جی ڈی پی کی شرح سات فیصد سالانہ پر لانے کو کوشش کریں گے، جی ڈی پی کے 22 سے 25 فیصد کے برابر سرمایہ کاری ہوگی، جب کہ بجٹ خسارہ کُل جی ڈی پی کے 4 فیصد تک ہوگا۔ کاروباری قرضوں تک سب کو رسائی ہوگی۔ مالیاتی تعیلم دی جائے گی تاکہ بچت میں اضافہ کیا جاسکے۔ گھر خریدنے کے لیے آسان اقساط پر قرضے دیئے جائیں گے۔ سرکای محکموں کو سالانہ بنیادوں پر ہونے والے نقصانات کو ختم کیا جائے گا۔ جب کہ 2030 تک ملک سے غربت کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ پانچ ایکڑ اسکیم کے تحت لاکھوں مالیت کی وہ زمینیں جو بے کار اور بنجر پڑی ہوئیں ہیں کاشتکاروں کو مہیا کی جائیں گی۔ کارپوریٹ ٹیکس کو 3900 ارب سے 7800 تک بڑھا دیا جائے گا۔ اب ایک نظر ن لیگ کی کارکردگی پر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 2008 میں ’’قرض اُتارو ملک سنوارو‘‘، گزشتہ انتخابات میں ’’مضبوط معیشت، مضبوط پاکستان اور خوددار، خوش حال، خود مختار پاکستان‘‘اور 25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں ’’ووٹ کو عزت دو، خدمت کو عزت دو‘‘ جیسے نعروں کے ہمراہ انتخابات میں حصہ لینے اور خدمت کی بنیاد پر ووٹ مانگنے والی اس جماعت کے دور اقتدار (2013ء سے 2018ء) میں ملکی قرضوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ 2017ء کے اختتام پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق سرکاری ادارے بھی قرضوں کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ پی آئی اے کے ذمہ 124 ارب، پاکستان اسٹیل ملز 43 ارب جبکہ دیگر سرکاری ادارے 574 ارب روپے کے مقروض ہیں۔ کشکول توڑ نے کی دعویدار حکومت نے قرضوں کے انبار لگا دیے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق 30 ستمبر 2017ء تک پاکستان کے ذمہ مجموعی قرضہ اور واجبات 25820 ارب روپے تک پہنچ گئے۔ اس دوران اندرونی قرضے 15375 ارب جبکہ بیرونی قرضہ 8586 ارب روپے تک جاپہنچے۔ سال 2013ء میں جب مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی تو اس وقت مجموعی طور پر پاکستان 14318 ارب روپے کا مقروض تھا۔ یوں گزشتہ چار برسوں کے دوران قرضوں میں ساڑھے گیارہ ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس وقت ہر پاکستانی ایک لاکھ 35 ہزار روپے کا قرض دار ہے۔

میں ملک اور قوم کی قسمت بدل دوں گا

ملک کی موجودہ دوسری بڑی اور گزشتہ انتخابات میں کے پی کے سے کامیاب ہو کر اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعت تحریک انصاف کے منشور پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اس نے اپنے صوبے میں کافی حد تک منشور پر عمل کیا ہے۔ کے پی کے میں اب انصاف فراہم کرنے والے ادارے یعنی پولیس کو غیر سیاسی کر دیا ہے، ساتھ ہی صحت و تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر کسی صورت یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے منشور پر مکمل طور پر عمل کر دیا۔ پی ٹی آئی نے بڑے وعدے کیے ہیں، جن پر تاحال عمل ہوتا نظر نہیں آیا۔ تعلیم عام نہیں ہو سکی، صحت کی سہولیات بھی گاؤں دیہات میں ناقض ہیں، 2018 ء کے انتخابات کے لیے پیش کیا گیا منشور بھی ماضی کے منشور سے ملتا جلتا ہے، مگر اس بار جن نکات کا اضافہ کیا گیا ہے ان میں سیاسی و انتظامی حکومت، بلا تفریق احتساب، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی،فوری انصاف کی فراہمی، روزگار کے مواقعے اور سستے گھر فراہم کرنا، پانی کے مسائل حل کرنے کے لیے بھاشا دیا میر ڈیم اور مہمند ڈیم کے علاوہ دیگرآبی ذخیروں کی تعمیر، کرپشن کا خاتمہ، پولیس کو غیر سیاسی بنانا، ملک کو مدینہ کی ریاست بنانا، نیب اور ایف آئی اے سمیت تمام اداروں کو مضبوط و مستحکم کرنے کے علاوہ ملک سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے لیے خصوصی ٹاسک فورس بنانا بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تمام جائیدادوں کو شناختی کارڈ سے منسلک کرنا، سرکاری محکمے میں مشکوک سرگرمیوں کی شکایت کے لیے ہیلپ لائنیں قائم کرنا، میڈیا کی آزادی، پیسے کے استعمال میں بہتری کے لیے ای پروکیورمنٹ سسٹم کا نفاذ، میگا سٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کے آغاز کا بھی وعدہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ، دو دہائیوں سے مسلسل مس مینجمنٹ کا شکار رہنے والے ملکے کے معشی حب، شہر کراچی کو ترقی یافتہ شہر میں بدل دیا جائے گا۔ اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ مہیا کیا جائے گا۔ اور میٹرنٹی ہیلتھ پروگرام، انکم سپورٹ پروگرام اور گرین گروتھ پروگرام بھی شروع کیا جائے گا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ بلند و بانگ دعوے، وعدے کرنے والی سیاسی جماعتیں اقتدار ملنے پر کس حد تک اپنے وعدے پورے کرتی ہیں۔ جب تک سیاسی جماعتیں کسی منشور کی پابند نہیں ہوں گی اور ووٹرز سیاسی جماعتوں کے منشور کو وقعت دینا شروع نہیں کریں گے، مبصرین جب تک اس ضرورت کو اجاگر نہیں کریں گے اس وقت تک روایتی طرزِ سیاست پر لڑے گئے انتخابات کا نتیجہ روایتی ہی برآمد ہوگا۔ جس سے اصلاح اور تبدیلی کی توقعات کی وابستگی عبث ہوگی۔

تازہ ترین