• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی پیسنٹھ سالہ تاریخ میں خفیہ ایجنسیوں کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اب سے کچھ برس قبل تک ان پر کسی بھی قسم کی تنقید کو غداری اور ملک دشمنی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ اصغر خا ن کیس کا فیصلہ ہوجانے کے بعد اب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ پاکستان کی سیاست اور ماضی میں ہونے والے انتخابات پرخفیہ ایجنسیاں اثر انداز ہوئیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ ایجنسیوں کے اس کردار کو سب سے پہلے کس نے بے نقاب کیا؟ اس کے عوض اس پر ملک دشمنی الزامات عائد بھی ہوتے رہے۔
70ءکی دہائی کے آ خر میں جس سیاسی جماعت نے عروس البلاد کراچی میں جنم لیا،اس نے سب سے پہلے اس بات کا اعلان کیا کہ جب تک سیاست سے خفیہ ایجنسیوں کا کردار ختم نہیں ہوتا، اس وقت تک پاکستان ترقی نہیں کرسکتا۔ اس تناظر میں اگر ہم گزشتہ روز عرفان صدیقی کے مضمون ”اصغر خان کیس اور پی پی پی“ اور طارق بٹ کے مضمون ”1530ملین کہاں ہیں؟“ کا جائزہ لیں تو محسوس ایسا ہوتا ہے کہ انہوں نے جس فیصلے کا ذکر کیا ہے اور جن ناموں کا اپنے مضامین میں ذکرکیا، وہ بغیر کسی تحقیق کے کیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اس وقت فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ ، انٹرسروسز انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل اسد درانی اور صدر غلام اسحاق خان کو اس بات کا ذمہ دار قرار دیا ہے کہ انہوں نے ایک سیاسی اتحاد ترتیب دے کر انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی اور ان لوگوں نے خفیہ فنڈ سے رقوم حاصل کرنے کا اعتراف بھی کیا۔ جو رقم اسد درانی کو ملی وہ انہوں نے چند مخصوص اشخاص کے ذریعے تقسیم کرنے کا دعویٰ کیا جبکہ رقم تقسیم کرنے والوں نے تمام لوگوں کو رقم دی، ماسوائے ایک کے ۔ گو کہ تمام افراد ماسوائے سیدہ عابدہ حسین کے سب رقم لینے سے انکاری ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے اس مقدمے میں کسی کو سزا نہیں دی ہے بلکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کو اس بات کی ذمہ داری دی ہے کہ وہ اس معاملے کی تفصیلی تحقیقات کرے اور ایک ایک روپیہ مع سود واپس لے۔
عرفان صدیقی نے اپنے مضمون میں اسد درانی اور یونس حبیب کے بیان حلفی میں تضاد کا ذکر کیا ہے اور یہی وہ تضاد ہے جو بنیادی طور پر رقم دینے والے اور تقسیم کرنے والے کے درمیان موجود ہے اور اس قضیئے کا حل وفاقی تحقیقاتی ادارے کو تلاش کرنا ہوگا۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران تمام نجی ٹیلی ویژن پر یہ تمام کردار جو اصغر خان کیس سے جڑے ہوئے ہیں، آئے اور انہوں نے اپنے اپنے تئیں اس واقعے کی تفصیلات سے عوام کو آگاہ کیا۔ صدر غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ تو اس کے بنیادی کردار تھے اور جن لوگوں کو انہوں نے استعمال کیا ان میں سب سے بڑا مہرہ اسد درانی کو کہا جا سکتا ہے۔ ان تین افراد کے علاوہ جتنے لوگ بھی رقم تقسیم کرنے پر مامور کئے گئے ان میں یونس حبیب، برگیڈیئر امتیاز جیسے نام بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ وہ رقم لے کر متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے پاس گئے لیکن انہوں نے رقم لینے سے انکار کیا۔
یہاں وہ تضاد ایک بار پھر زیر غور آئے گا جو اسد درانی اور یونس حبیب کے مابین تھا لہٰذا ان معاملات پر ہرزہ سرائی کرنے سے قبل وفاقی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کا انتظار کیاجائے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص جو اپنی سیاسی جدوجہد کے آغاز سے ہی اس عمل کے خلاف ہو اور وہ اس کا حصہ بن جائے۔ اس تالاب میں سب سے پہلا پتھر پھینکنے والا شخص ہی الطاف حسین ہے، باقی تمام لوگ کبھی نہ کبھی سیاسی طور پر خفیہ ایجنسیوں کے محتاج رہے اور ان کے کاندھوں پر بیٹھ کر اقتدار کے ایوانوں میں آئے۔ رہی بات ایوان صدر میں موجود شخص کی سیاسی حیثیت کی، تو یہ بات طے ہے کہ صدر ایک سیاسی عمل کے ذریعے منصب صدارت پر پہنچتا ہے لیکن دنیا بھر میں یہ منصب سیاسی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر متنازع بھی ہوتا ہے اور شاید اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ صدر تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کا پابند ہوتا ہے اور وہ ریاست کا سربراہ ہوتا ہے لہٰذا اس ضمن میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر اس کی روح اور متن کے مطابق عمل ہونا چاہئے، اس ضمن میں سردار فاروق احمد خان لغاری کا وہ بیان بھی یاد آرہا ہے جب انہوں نے منصب صدارت سنبھالتے وقت اپنی سیاسی جماعت کی بنیادی رکنیت سے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ گو اس کی کوئی آئینی ضرورت نہ تھی لیکن اخلاقی طور پر ایسا کرنا ضروری تھا۔
سندھ کے گورنر نے بھی منصب سنبھالتے وقت اپنی جماعت سے وابستگی ختم کی اور بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دیا لیکن سیاسی ملاقاتیں صدر اور گورنر کر سکتے ہیں اور اپنی سیاسی جماعت کے معاملات چلانے سے انہیں اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ سیاسی سرگرمیاں اس منصب کے شایان شان نہیں۔ صدر آئینی طور پر مجلس شوریٰ کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ مملکت کا سربراہ ہوتا ہے۔ اسی طرح گورنر بھی آئینی طور پر صوبے میں وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے اور یہ دونوں عہدے وفاق کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
تازہ ترین