فوجی انقلاب کے3 سال بعد جنرل پرویز مشرف نے 10 اکتوبر 2002ء کو انتخابات کا انعقادکیا۔
ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (قائداعظم) نےسائیکل کے نشان پر سب سے زیادہ 118نشستیں حاصل کیں، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (پی پی پی) نے تیر کے نشان پر انتخاب لڑتے ہوئے 81 سیٹیں جیتیں جبکہ ایم ایم اے (متحدہ مجلس عمل پاکستان) نے کتاب پر 60 نشستیں اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے شیر کے انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لیا اور صرف 19 سیٹیں ہی حاصل کرسکی۔
2002ءکے انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 7کروڑ 18لاکھ 66ہزار 278 تھی، جن میں سے 3کروڑ 12ہزار 407افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ 7 لاکھ 75 ہزار 720 ووٹ مسترد ہوئے، ٹرن آؤٹ 41اعشاریہ 8 فیصد رہا۔
الیکشن میں جنر ل پرویز مشرف کی حمایت یافتہ مسلم لیگ ق نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں مگر وہ حکومت سازی کے لئے کافی نہ تھیں جس پر ق لیگ نے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سے الگ ہونے والے پی پی پیٹریاٹ و دیگر کی مدد سے حکومت سازی کی اور میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم منتخب ہوگئے۔23 نومبر 2002ء پر مسند اقتدار سنبھالنے والے ظفراللہ جمالی 26جون 2004 ء تک وزارت عظمیٰ پر فائز رہے۔
10دسمبر 2000ء میں مسلم لیگ کے سربراہ میاں نوازشریف کو خاندان سمیت جلا وطن کر دیا گیااور 2002 ء کے ا لیکشن میں نواز شریف جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔
جنرل پرویز مشرف نے نسبتاً اچھی شہرت کے ساتھ آغاز کیا تھا، تاہم ان کے دور حکومت میں ہونے والے واقعات خاص طور سے اکبر بگٹی کا قتل، لال مسجد آپریشن، بینظیر کا قتل اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی برطرفی جیسے اقدامات نے ان کی شہرت کو نقصان پہنچایا۔
صدر مملکت اورچیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویزمشرف نے3 نومبر 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی، جس کے بعد انہوں نے 28نومبر 2007ء میں لگ بھگ سوانوسال چیف رہنے کے بعد آرمی کی کمانڈ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے کرکے اپنی وردی اتار دی اور سویلین صدر بننے کی تیاری شروع کردی۔ بعد ازاں 8 جنوری 2008ء کو انتخابات کا اعلان کر دیا گیا۔