اس صدی میں جو اقوام ترقی کرکے چوتھے صنعتی انقلاب کا حصہ بننا چاہتی ہیں ۔ انہیں اپنی ترقیاتی پالیسیوں کومضبوط علم پر مبنی معیشت سے منسلک لازمی کرنا ہوگا ۔ اس کے لیے قومی وسائل کو تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کے مطابق راغب کرنا ہوگا، تاکہ ایک ایسا ماحول قائم ہو جہاں نئی تحقیق کوتجارتی عمل اور مصنوعات میں منتقل کیا جا سکے ۔ قومی ترقیاتی منصوبوں میں سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی ( Education, Science, Technology, and Innovation, ESTI )کومدغم کرنے کے لئےکئی شعبوں مثلاً تعلیم، تحقیق، صنعت اور ان سے وابستہ دیگر شعبہ جات کے درمیان ایک منظم سلسلہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ایک متحرک ’’ایسٹی ‘‘پالیسی اور حکمت عملی جو ہماری ضروریات کے لئے موزوں ترین ہو اس کے لئے تیاری کی ضرورت ہےاور جو پائیدار ترقی کے اہداف کے مطابق بھی ہو۔2005 اور 2006 میں پاکستان کے لیے ایک مربوط منصوبہ بنایا تھا، جس کے نتیجے میں 13 اہم شعبوں پر مشتمل320 صفحاتی دستاویز تیا ر کی گئی تھی، جسے کابینہ نے اگست 2007 ء میں منظور بھی کر لیا تھا۔ تاہم کچھ وجوہات کی بناء پر اس پر عمل در آمد نہیںہوسکا۔
نجی شعبے تحقیق وترقی،پیداواراور اعلٰی تکنیکی مصنوعات کی برآمد میں ایک بہت ہی اہم کردار ادا کرتےہیں ۔ نجی شعبوں کو ایک اہم جز بنانے کے لیے حکومت کوبہت سی مراعات متعارف کرانے کی ضرورت ہے، جس سےان کےا عمال میں سہولت میسر ہوگی ۔ اس طرح کی مراعات کے شاندار اثرات کی ایک مثالIT کی صنعت ہے،اس کے لیے 2001 ء میں 15 سالہ ٹیکس کا اہتمام کیا گیا تھا ۔اس کے نتیجے میں آئی ٹی کے کاروبار میں 120 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا تھا ۔یعنی 2001 ء میں 3 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر 3.2 کھرب ڈالر سالانہ تک پہنچ گیا تھا ۔معیاری تحقیق کے لیے صنعت کی جازبی صلاحیت کوابھارنے کے لیے مالی مدد فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔ صنعتوں کے لئے گرانٹس بھی موجود ہونی چاہئیں ،تاکہ ان سے تحقیقی ادارے سہولیات کی تعمیر اور جدید ترین آلات بھی حاصل کرسکیں۔طب شعبے میں بھی کچھ حیرت انگیزایجادات ہورہی ہیں ،جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سائنس وصحت کے میدان میںکس تیزی سے ترقی ہورہی ہیں ۔
طب کے شعبے میں کچھ حیرت انگیز ایجادات مثال کے طور پر یہاں پیش ہیں جن سے ظاہر ہو تا ہے کہ سائنس وصحت کے میدان میں کس تیزی سے ترقی ہو رہی ہے۔ اسٹیم سیلز بھی اس شعبے میں اہم کردار ادا کررہےہیں ۔اس میں ہونے والی پیش رفت کی وجہ سے دل کے مریضوں کے لیے ایک نئی اُمید پیدا ہوئی ہے کہ ان کے ذریعے دل کی مختلف بافتوں کو پیداکیا جا سکتا ہے۔اس کی مدد سے دل کے خلیوں کے علاج کے طریقہ کار کی آزمائش امریکا، جرمنی، برطانیہ، کوریا اور برازیل میں جاری ہے۔ ان میں سے اکثر اسٹیم سیلزکو خود مریض کی ہڈیوں کے گودے(Bone marrow)سے حاصل کیا گیا ہے۔ بوسٹن کے میساچوسٹس جنرل اسپتال میں اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ کس طرح Multipotent خلیات کے ذخیرے میں سے اسٹیم سیلز دل کی مختلف بافتوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ مستقبل میں اسٹیم سیلز کو ناکارہ دلوں کے علاج کے لئے استعمال کیا جا سکے گا۔علاوہ ازیں اس کے ذریعے چند سالوں میں دوائوں کی شکل بھی تبدیل ہونے کی توقع ہے۔ اسٹیم سیلز کو دل، گردے اور دوسرے اقسام کے خلیوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ،جس سے خراب اعضا کی مرمت کا مسئلہ حل ہونے کی بھی توقع ہے۔ ابتدا میں ان کو صرف جنینی Embryonic خلیات سے بنایا جا سکتا تھا، جس سے تحقیق کا یہ میدان متنازعہ ہو گیا تھا، مگر اب ان کو جسم کے مختلف اعضا مثلاً ہڈی کے گودے اور جلد وغیرہ کے خلیات سے بھی بنایا جا سکتا ہے۔ یعنی ایسے خلیات بھی بنائے گئے ہیں جو اسٹیم سیلز سے مطابقت رکھتے ہیںاور انہیں بعض متحرک اجزاء کے ذریعے دوسرے مختلف خلیات میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ جنینی اسٹیم سیلز کو اب خون کے سرخ ذرات میں تیار کرکے استعمال کیاجارہا ہے ،تاکہ اس کو خون کی منتقلی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ یہ طریقہ کار Advanced Cell Technology کے ذریعے وضع کیا گیا ہے۔ اس سے کافی عرصہ قبل سرخ خون تیار کرنے والی خود کار مشین بنائی گئی تھی جو کہ بین الاقوامی طور پر خون کی منتقلی کی صلاحیت رکھتی تھی۔اس وقت ہم ادویات سازی کے میدان میں ایک انقلاب کے آغاز پر کھڑے ہیں۔کینیڈا میں جامعہ میک ماسٹر (MacMaster)کے سائنس دانوں نے ایک اہم دریافت کی ہے۔ انہوں نے جلد کے خلیات کو براہ راست خون میں تبدیل کرنے کا طریقہ دریافت کیا ہے۔ Michael DeGroote School of Medicine کے سائنٹیفک ڈائریکٹر میک بھاٹیا اور ان کے ساتھی دو سال کی کوشش کے بعد بالآخر اس میں کامیاب ہو گئے۔اس دریافت کے بعد مریض کا خون خود اس کی جلد سے بڑے پیمانے پر تیار کیا جا سکے گا ۔
برازیل کے سائنس دانوں نے بالآخر اسٹیم سیلز سے ذیابطیس کا علاج دریافت کر لیا ہے۔ Dr. Julio Voltarelli کی سربراہی میں ایک ٹیم نے ذیابطیس کی ایک قسم کے 15مریضوں کے خون سے اسٹیم سیل نکالا۔ابتدا میں ان15 مریضوں کے کمزور مدافعتی نظام کو جان بوجھ کر دوا کے ذریعے تباہ کیاگیا ،تا کہ ان ضرررساں خلیات کو نکالا جا سکے جو لبلبے پر حملہ کرتے ہیں۔ بعدازاں ان مریضوں میں اسٹیم سیلز انجکشن کے ذریعے داخل کیے گئے۔ یہ کام2007ء میں کیا گیا تھا لیکن اُس وقت اس کام کو متنازعہ سمجھا جارہا تھا، مگر اب اس کو دوبارہ سند تصدیق حاصل ہو گئی ہے۔ پاکستان میں اسٹیم سیلز کی تحقیق دو اداروں میں شروع ہونے والی ہے ان میں سے ایک سینٹر آف ایکسیلنس ان مالیکیولر بائیولوجی جامعہ پنجاب لاہور اور دوسرا ڈاکٹر پنجوانی سینٹر آف مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ (انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بایولوجیکل سائنسز)جامعہ کراچی ہے۔
اسٹیم سیلز تحقیق کے میدان میں دل، گردوں اور دوسری بیماریوں کے علاج کے لیے نئے راستے کھل رہے ہیں، اب دیگر ممالک میں اسٹیم سیلز کو سرطان کے علاج کے لیے گارڈ میزائل کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ڈوارٹے کیلیفورنیا میں قائم Research Institute Duarte Beckmann میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے دماغ کے سرطان کے مرض میں مبتلا چوہے کے دماغ میں جینیاتی طور پر ترمیم شدہ اسٹیم سیلز انجکشن کے ذریعے داخل کئے اور پھر چوہے کوسرطان کے خلاف کام کرنے والی دوائیں دی گئیں ۔ یہ دیکھنے میں آیا کہ جس چوہے کا پہلے اسٹیم سیل سے علاج کیا گیا تھا اس کی رسولی کے حجم میں بغیر علاج شدہ کے مقابلے میں70 فی صدکمی ہو گئی۔
اسٹیم سیلز سرطان کے خلیات کے قریب جگہ بنا لیتے ہیں۔ ماہرین یہ توقع کررہے ہیں کہ سرطان کی دوائوں اور اسٹیم سیلز کے ملاپ کے ذریعے علاج کر کے نہ صرف اصل رسولی پر حملہ کیا جاسکتا ہے بلکہ اس کے ذریعے ان خلیات کی ثانوی نشوونما کو بھی روکا جا سکتا ہے، اس طریقے پر عمل کر کےسرطان کے واحد خلیے کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس تصور کو استعمال کرتے ہوئے انسانوں پر تجربات جلد ہی شروع کیے جائیں گے۔ادویات کے میدان میں ایک نیا اُبھرتا ہوا میدان اسٹیم سیل کا استعمال ہے ،جس کو اعضا کی مرمت کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔
انسانوں میں استعمال کیے جانے والے اسٹیم سیلز کی دو اقسام ہیں۔ جنینی اسٹیم سیل اور بالغ اسٹیم سیل۔ اسٹیم سیل دوسرے خلیات کے ساتھ مل کر جسم میں ٹوٹی ہوئی بافتوں (ٹشوز) کی مرمت کا کام بھی کرتے ہیں ،کیوں کہ ان کے اندر جسم کے مختلف دوسرے خلیات میں تبدیل ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے ان خلیات کی کلچر کے ذریعے نمو کر کے ان کو مختلف دوسرے خلیات مثلاً اعصابی، جلدی یا آنتوں کے خلیات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
اسٹیم سیل کے حوالے سے ایک حالیہ پیش رفت میں یہ معلوم ہوا ہے کہ مختلف دواؤں کے استعمال سے ہڈی کے گودے سے مختلف اقسام کے اسٹیم سیلز کے اخراج کے عمل کوبذریعہ دخول (induction)پیدا کیا جا سکتا ہے۔ چناں چہ مریض کے لیے مختلف دہندگان(Donors) سے حاصل کردہ اسٹیم سیلز (اس صورت میں مریض کا جسم وہ اسٹیم سیل قبول کرنے سے انکار بھی کر سکتا ہے) استعمال کرنے کے بجائے مریض کا اپنا اسٹیم سیل اس کی ہڈی کے گودے سے خارج کردیا جائے تواس کے ذریعے مخصوص بافتوں (ٹشوز) کی مرمت اور پیدائش نو (Regeneration) میں مدد مل سکتی ہے۔ مریض کے اپنے اسٹیم سیل کو منتخب انداز سے خارج کرنے کی صلاحیت اس تیزی سے ترقی پذیر میدان کی انتہائی اہم پیش رفت ہے۔ یہ کام امیپریل کالج لندن کی پروفیسر سارا رینکن اور ان کے ساتھیوں نے انجام دیا ہے۔ اس پیش رفت سے دل کے ٹوٹے پھوٹے ٹشوز (بافتوں) کی مرمت اور ٹوٹی ہوئی ہڈیوں اور جوڑوں کی مرمت کے عمل کو تیز کرنے اور ان کے علاج میں مدد مل سکے گی۔