• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے عوام آج اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے جا رہے ہیں یہ وہ حق ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جدوجہد سے حاصل ہوا کہ 1970سے قبل پاکستان میں ایک فرد ایک ووٹ کا نظام رائج نہ تھا ،یوں بھٹو صاحب نے رعایا کو عوام اور عوام کو طاقت کا سرچشمہ بنایا۔ در حقیقت جب جب پاکستا ن میں سیاسی میدان سجتا ہے اور حاکموں کی حاکمیت عوام کی رائے کے مرہون منت ہوتی ہے تب تب ہر ووٹ کی پرچی پر لگنے والا ہر ٹھپہ یہی نعرہ بلند کرتا ہے کہ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ‘‘1970کی انتخابی مہم میں پہلی دفعہ سیاسی جماعتوں نے منشورکی بنیاد پر حصہ لیا اور پاکستان میں سماج کو سیاسی تحرک ملا اس کے نتائج کو یحییٰ خان نے قبول نہ کیا نتیجتاًملک دو لخت ہو گیا اگر سیاسی قوتوں کو موقع دیا جاتا تو پاکستان بھی متحد رہتا اور جمہوریت کو فروغ ملتا۔مشرف کے بعد کے دس سال کی سب سے بڑی کامیابی دو اسمبلیوں اور حکومتوں کا اپنی مدت پوری کرنا ہے اور تیسری منتخب حکومت بنانے کے لئے آج عوام اپنا فیصلہ سنائیں گے۔ 25جولائی 2018 کو ہونے والے انتخابات کی انتخابی مہم مجموعی طور پر نفرت،شر ،الزام تراشی، تشدد، بدزبانی بلکہ غلیظ زبان کے استعمال سے یرغمال اورایک طرف ’’نوری نت برانڈ ‘‘پیٹ پھاڑ دوں گا، گھسیٹوں گا لٹکا دوں گا جیسے انتقامی اور پر تشدد نعروں کے نرغے میں ہیں اور دہائیوں تک ووٹ کی تذلیل کرنے کے بعد نعرہ پر فریب، ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ ہے۔دوسری طرف ’’مولا جٹ برانڈ ‘‘نے ملک میںپرانے لاڈلے کی انتقام و خون کی نام نہاد سیاست کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ ملک کی تمام حکومتوں میں شریک بے ضمیروں کا نیلام گھر لے کر عوام الناس کو تبدیلی کی نوید سنائی جا رہی ہے۔پرانے لاڈلے سے نمٹنے کے لئے انوکھا لاڈلہ تخلیق کیا گیا ہے۔ جو ہر مخالف کو ہر طریقے اور حربے سے میدان سے باہر کرنا چاہتا ہے۔اس مایوس کن صورتحال میں ایک آواز نے پاکستان کے باشعور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے ہاتھ میں اپنا منشور اور اُمید لے کر عوام تک پہنچا ہے۔ وہ عوام کے پرجوش اجتماعات میں بتاتا رہا کہ کیسے پیپلز پارٹی نے روزگار دے کر،کسانوں کو خوش حال کرکے اور لوگوں کو بیرون ملک بھیج کر روٹی کپڑ ااور مکان کے وعدے کو آگے بڑھایا کیسے اُس کی بے نظیر ماں نے ایک جمہوری پاکستان کے لئے قربانیاں دیں۔ ہر غم و الم سہنے کے باوجود وہ انتقام کی بات نہیں کرتا وہ اپنے بدترین مخالفین کے برے وقت پر خوشیاں نہیں مناتا بلکہ ناانصافی کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا عزم کرتا ہے وہ عوام کو اُمید دلاتا ہے کہ اس کے باوجود کہ میری ماں اس دہشت گردی کا شکار ہوئی پاکستان کی ساری مائیں میری مائیں ہیں اور میں اُنکے جگر گوشوں کو اس عفریت سے بچائوں گا۔ NAPاورNACTAکی تشکیل نواُس کا ایجنڈہ ہے۔آج کی سیاست کے تمام کھلاڑی اپنا آخری انتخاب لڑ رہے ہیں اور بلاول بھٹو زرداری اپنا پہلا الیکشن لڑ رہا ہے۔ پاکستان کے سب سے نو جوان رہنما کی نظر 60فیصد نوجوانوں کا مستقبل سنوارنے پر ہے۔ وہ تعلیم کے بجٹ کو مجموعی پیداوارکے 5%تک لانا چاہتا ہے۔ نصاب میں اصلاحات، تعلیم میں جدت کے ذریعے وہ نوجوان کو فیصلہ سازی میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ نوجوان پاکستان پروگرام کے تحت تعلیم یافتہ اہل نوجوانوں کے لئے انٹرن شپ پروگرام متعارف کروانے کی طرف گامزن ہے۔نیشنل والنٹیئر موومنٹ کے تحت وہ سارے صوبوں کے نوجوانوں کو اُخوت کی لڑی میں پرونا چاہتا ہے۔ بلاول بھٹو عوام کے سامنے ایسی معیشت کی تعمیر نو کی بات کرتا ہے جہاں ریاست اپنے وسائل کا رخ مفلوک الحال طبقات کی طرف موڑے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں نئی جان ڈالنا اور اس کی توسیع، بے نظیر کارڈ، تخفیف غربت کا پروگرام اور بہت سے دوسرے پروگراموں کے ذریعہ معاشی مساوات کا نظام قائم کرنا ، مزدوروں اور کسانوں کیلئے اپنی روایات کے مطابق انقلابی پروگرام بلاول بھٹو کی ترجیح ہے۔ بلاول بھٹو اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے مسائل حل کرنے کیلئے آگے بڑھ رہا ہے۔ اُس کی نظر پاکستان کے مسائل پر ہے۔ آبی ذخائر کی ضرورت کے علاوہ وہ تجارت، صنعت کی تشکیل نو اور توانائی کے شعبہ میں بہتری کے ساتھ ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کا واضح منشور رکھتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے منشور میں ریاست کے زیر ملکیت اداروں کی بحالی کیلئے جامع مشاورت پر مبنی طے شدہ معیار پر پیپلزریفارم پروگرام شامل ہے۔ ٹیکس کاری میں اصلاحات اور مالیاتی و کریڈٹ کے نظام کو سینٹرل بینک کے ذریعہ مضبوط بنانا اور سول سروس میں جامع اصلاحات بلاول بھٹو کے منشور کا حصہ ہیں۔ جمہوریت کے استحکام کے لئے بلاول بھٹولاڈلوں کی تصادم کی پالیسی کے برخلاف عوام اور اداروں کے درمیان تعلقات کی ہم آہنگی کا داعی ہے اور سچائی و مفاہمت کا کمیشن بنانے کا خواہشمند ۔ اپنے سیاسی تماشے اور مخالفین کو راہ سے ہٹانے کی بجائے وہ بلا امتیاز اور شفاف احتساب کا قائل ہے۔ خواتین کے حقوق ہوں، اقلیتوں کا استحصال ہو، معذوروں سے عدم توجہتی برتی جائے یا بچوں کے حقوق کا معاملہ ہو بلاول بھٹو سے زیادہ دلیر اور توانا آواز ان معاملات میں کوئی اور نہیں ہو سکتی، لہٰذابنیادی حقوق کے نفاذ کے لئے بلاول بھٹو پر عزم ہیں۔
گزرے پانچ سالوں میں جب بغیر وزیر خارجہ کے ہماری ریاست کو گنگ کردیا گیا تو بلاول ہی واحد رہنما تھا جو خارجہ پالیسی کی بہتری کیلئے آواز اُٹھاتا رہا اپنی انتخابی مہم کے دوران بلاول بھٹو نے دنیا میں اپنا جائز مقام لینے کیلئے متحرک جامع اور دور اندایش خارجہ پالیسی کی بات کی ہے۔ اور اپنے منشور پر اس میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ آئیں نفرت کی آوازوں کو چھوڑ کر محبت کے پیغام کا ساتھ دیں اور نا امیدی کے اندھیروں سے نکلنے کے لئے بلاول سے اُمید سحر کی بات سنیں۔
جگر دریدہ ہوں چاکِ جگر کی بات سنو
الم رسیدہ ہوں دامانِ تر کی بات سنو
شکستہ پا ہوں ملالِ سفر کی بات سنو
سحر کی بات اُمیدِ سحر کی بات سنو
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین