• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 پہلا سوال جو میرے سامنے ہے ،یہی ہے کہ آخر جمہوریت ہے کیا؟ایک خیال ہے، جمہوریت ایک ایسے طرز حکومت کی بنیاد فراہم کرنے کا نام ہے جس میں ریاستی وسائل ایک فرد یا مخصوص گروہ کی دسترس میں رہنے کے بجائے پورے معاشرے کی مرضی کے مطابق استعمال ہوتے ہیں اور شراکت کے احساس کے تحت ریاستی امور چلائے جاتے ہیں۔ جب یہی سوال ماضی میں امریکہ کے ایک صدر ابراہم لنکن سے پوچھا گیا تھا تو اس نے ترت کہہ دیا تھا:

’’ عوام کے لیے عوام کی مرضی سے عوام کی حکومت ‘‘ ۔۔

پہلی نظر میں یہ بات سادہ اور دوٹوک ہے یعنی عوامی شعور کے مطابق ایک نظام حکومت تشکیل دیا جائے جس کا محور و مرکز عام آدمی کی فلاح ہو۔مگر یہ بات اتنی سادہ اور دوٹوک نہیں ہے ۔ پاکستان جیسے ملک میں تو یہ مسئلہ اور بھی گھمبیر ہو جاتا ہے۔ کیا جمہور کی رائے وہی ہوتی ہے جو بیلٹ باکس کے ڈبوں میں سے نکلنے والی پرچیوں کو گن کر مدون کی جاتی ہے ؟ اگر آپ کہتے ہیں ہاں ، تو میرا پوچھنا یہ ہوگا کہ:

کیا وہ لوگ جمہور کا حصہ نہیں تھے جو اس سارے عمل کو ہکا بکا دیکھتے رہے مگر اپنا ووٹ ڈالنے کے بجائے اس ہنگامے سے الگ رہنے کو ترجیح دی ؟۔اس کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے،

٭:ہمارے ہاں دہشت گردی کے واقعات کا سلسلہ اس انتخاب کے آتے ہی شروع ہو چکا ہے اور ایک خوف کی فضا انہیں مجبور کر رہی ہے کہ وہ گھر میں رہیں ۔

٭: مخالف امیدوار یا پارٹی اتنی طاقتور ہے اور ،انہیں دھمکیوں سے گھروں میں محصور رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

٭: وہ اس سارے عمل سے ہی مایوس ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جمہوری نظام کا یہ سارا ہنگامہ ایک ڈرامہ ہے ، جس میں اُن کی پرچی ، ردی کے ایک ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ۔ وغیرہ وغیرہ ان لوگوں کی رائے کی بابت کیا کہا جائے گا جو الیکشن میں حصہ لینے والی پارٹیوں اور رہنمائوں سے اپنے شعور کی سطح پر مطمئن نہیں ہیں۔ اور چوں کہ وہ ووٹ کو قومی امانت سمجھتے ہیں ،اسے کاسٹ نہ کرنا ایک جرم ، اِس لیے الیکشن والے روز باہر نکلتے ہیں، پولنگ اسٹیشن پہنچتے ہیں اورکسی ایک امیدوار یا پارٹی کو ووٹ دے آتے ہیں ۔ ممکن ہے ،یہاں ’’ قدرے کم برائی کے انتخاب‘‘ کی مجبوری اُن کے پیش نظر رہی ہو، مگر ایک بات بہرحال طے شدہ ہے کہ یہ فیصلہ عین مین ان کے شعورکی تظہیر نہیں ہے ۔

یہ بھی سمجھا جاتا رہا ہے اور بجا طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری عمل پرہمیشہ تشویشناک حد تک کئی غیر جمہوری عوامل اثر انداز ہوتے ہیں جو مستقبل کا منظر نامہ الیکشن سے پہلے ہی اپنے حق میں ڈھال لیا کرتے ہیں ۔ الیکشن ۲۰۱۸ء میں ’’انجینئرڈ الیکشن‘‘ کی اصطلاح کچھ زیادہ تواتر سے سننے میں آئی ہے جس سے ’’عوام کی مرضی سے عوام کی حکومت‘‘ والا بنیادی تصور ہی گدلا گیا ہے ۔

عوامی شعور اور جمہور کی رائے کو’’ اکثریت کی رائے‘‘ (جو ووٹ ڈالنے کی شرح اور تناسب کو سامنے رکھیں تو اکثریت کی رائے بھی نہیں رہتی) سے بدل لینے کے لیے متذکرہ بالا عامل کے علاوہ کئی دیگر غیر جمہوری اقدامات بھی کام کر رہے ہیں۔

جمہور کے شعور کو مات دینے اور پورے جمہوری نظام کو گندے جوہڑ میں تبدیل کر دینے والا ایک سبب وسیع پیمانے پر مالی بدعنوانیاں بھی ہیں ۔ ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت تک کا سفر ایک شخص ایک ووٹ کی بنیاد پر درست یوں ممکن نہیں ہوپاتا کہ اس نظام میں موزوں ترین شخص پر اسمبلی کے دروازے کھل ہی نہیں سکتے ۔ سیاسی پارٹیاں کرپشن کے فروغ کا سب سے بڑا ادارہ بن گئی ہیں ۔ عمومی طور پر یہ سمجھا جانے لگا ہے کہ جس کسی نے غیر معروف ذرائع سے جتنا زیادہ پیسہ کمایا ہوگا وہ اس ناجائز پیسے کے استعمال سے قوی اداروں میں رسوخ پاکر اپنے اردگرد اپنے حمایتی جمع کرکے ایک پریشر گروپ بنا پائے گا ۔ کسی جماعت کے اندر ان پریشر گروپس کی بہت اہمیت ہوتی ہے اوریہ رفتہ رفتہ پارٹی کی قیادت ہتھیا کر اسے ایک موروثی جماعت بنا لیتے ہیں ۔ جمہوری عمل سے جمہور کی بے دخلی کا سبب بے پناہ دولت کا اندھا دھند استعمال ہی ہے ،لہٰذا یہ اصول کہ’’ جمہور کی حکومت جمہور کے ذریعے‘‘ لگ بھگ باطل ہو جاتا ہے ۔ جو شخص بہت زیادہ پیسہ لگا کر اسمبلیوں میں پہنچتا ہے ،یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ وہاں پہنچ کر کرپشن نہیں کرے گا یہی سبب ہے کہ ایک ترقیاتی اور فلاحی پالیسی کو خود کار نظام کے تحت کام کرنے کے لیے اداروں کو مستحکم کرنے کی بجائے سیاست دان ہنگامی بنادوں پر بظاہر عوامی مفاد کے منصوبے بناتے ہیں لیکن ان کی ترجیحات میں ملک کے سرمائے کو لوٹ کھسوٹ کے ذریعے ملک سے باہر منتقل کرنا ہوتا ہے۔ ملکی دولت کے بیرون ملک غیر قانونی انتقال کا ذکر ہوا تو کسی منچلے کالکھا ہوا ایک واقعہ یاد آگیا جو کسی دلچسپ افسانے سے کم نہیں ہے ۔جی چاہتا ہے آگے بڑھنے سے پہلے وہی مقتبس کر دیتا ہوں ۔’’ کہتے ہیںایک یہودی نے روس چھوڑکراسرئیل میں رہائش اختیار کرنا چاہی اور روس سے نکل کھڑا تو ائر پورٹ پر اُسے دَھر لیا گیا کہ اُس کے سامان سے لینن کا ایک مجسمہ بر آمد ہوا ؛ ایک سنہرا مجسمہ ۔ انسپکٹر نے پوچھا: یہ کیا ہے؟یہودی نے کہا: ’’سر آپ نے غلط سوال کیا۔ آپ کوپوچھنا چاہیے یہ کون ہے؟اور میرا جواب ہے کہ یہ محترم لینن صاحب ہیں جنہوں نے اشتراکیت کے ذریعے روسی قوم کی خدمت کی۔ میں ان کا بہت بڑا فین ہوں اس لیے پردیس میں یاد گار کے طور پر ان کا مجسمہ اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں۔‘‘ انسپکٹر، لینن سے اس کی محبت پربڑا متاثر ہوا اور کہا:’’ٹھیک ہے لے جائو۔‘‘ وہ لینن کے سنہری مجسمے سمیت روس سے نکلا اور تل ابیب ائر پورٹ پرجا اُترا۔ یہاں پھرحسب قوائد اس کے سامان کی تلاشی ہوئی تو وہی سنہری مجسمہ بر آمد ہوگیا۔ انسپکٹر نے اسے ایک طرف بٹھا لیا ۔ باقی مسافروں سے فارغ ہو کر اس کی طرف آیااورلینن کے مجسمے کو ہاتھ میں لہراتے ہوئے پوچھا:’’ یہ کیا ہے؟‘‘یہودی بڑا کایاں تھا ،کہنے لگا’’صاحب، آپ کا سوال درست نہیں ہے، آپ کوپوچھنا چاہیے، یہ کون ہے؟۔صاحب یہ انسانیت کاایک بہت بڑا مجرم ،لینن ہے۔ یہی وہ بدبخت اور پاگل شخص ہے جس کی نفرت نے مجھے روس چھوڑنے پر مجبورکردیا ہے۔ میں اس کا مجسمہ اپنے ساتھ اُٹھالایا ہوں تاکہ اپنی نفرت کو ہر دم تازہ رکھ سکوں اور صبح و شام اس پر لعنت بھیج سکوں۔‘‘ اسرائیلی انسپکٹرکی حیرت سے آنکھیں کھل گئیں ۔ اس نے لینن کا مجسمہ واپس یہودی مسافر کے ہاتھ میں تھمایا اوراحترام سے کہا:’’اے محترم شخص آپ تشریف لے جا سکتے ہیں‘‘۔ پھروہ یہودی اپنی کالونی پہنچا اور اپنے گھر میں مجسمہ ایک کونے میں سجا کر رکھ دیا ۔اس کے احباب بخیریت سے اسرئیل پہنچنے پر اس سے ملنے آئے ، اس کے ایک بہت قریبی رشتہ دار کی نظر لینن کے مجسمے پر پڑی تو پوچھا :’’ یہ کون ہے؟‘‘ یہودی نے قہقہہ لگایا اور کہا :’’برخوردار تمہارا سوال غلط ہے تمہیں کہنا چاہیے تھا کہ یہ کیا ہے؟۔۔۔ پیارے یہ دس کلو سونا ہے اسے محبت اور نفرت سے ہی یہاں منتقل کیا جاسکتا تھا لہٰذا میں نے اس کا مجسمہ بنوالیا تھا۔ ‘‘ سیاست دانوں کے ہاں بھی قومی دولت کی بیرون ملک غیر قانونی ترسیل کے لگ بھگ ایسے ہی حیلے ملتے ہیں؛ نفرت اور محبت کے حیلے ۔ ذاتی شان و شوکت اور اثاثوں میں اضافہ کے اس قبیح رجحان اورحرام خوری کے مکارانہ حیلوں نے عام آدمی سے اس کا جمہوری حق چھین رکھا ہے ۔

ایک ادیب کی حیثیت سے میرے نزدیک ایک عام آدمی کا آزادی سے اپنے ووٹ کا استعمال اہمیت رکھتا ہے۔ یہ آزادی اسے اپنی رائے کے اظہار کے ہر ہر مرحلے پر ہونی چاہیے ۔ وہ جو کسی نے کہا تھا کہ کسی ریاست میں تشدد اور دہشت سے رائے کی آزادی سلب کرنے سے کہیں یہ بات زیادہ خطرناک ہے کہ سماج میں ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں کہ افراد اپنا یہ حق استعمال کرناکار لایعنی سمجھ کر چھوڑ دیں۔سن ۲۰۰۰ء میں امن کا نوبل انعام پانے والے ’’Kim Dae Jung ‘‘نے کہا تھا :

’’میرا ایمان ہے کہ جمہوریت ہی وہ اصل قدر ہے جو انسانی عظمتوں کے لیے کام کرتی ہے اور ہمیشہ اقتصادی ترقی اور سماجی انصاف کا راستہ فراہم کرتی ہے ‘‘۔ اور یہ کہ’’ جمہوریت کے بغیر کسی ریاست کے اجتماعی وسائل بارور ہو سکتے ہیں نہ معاشی میدان میں مقابلے کی سکت پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی ملکی ترقی کا پہیہ رواں دواں ہو سکتا ہے۔‘‘ میں کم ڈے ینگ کے خیالات سے پوری طرح متفق ہوں، تاہم سمجھتا ہوں کہ ان اہداف کو اس وقت تک حاصل نہیں کیا جاسکتا جب تک جمہوریت صحیح معنوں میں جمہوریت نہیں ہو گی ۔میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ محض مختلف حربوں سے بٹوری اور ہتھیائی گئی اکثریتی حمایت سے تشکیل دیا گیا ’’جمہوری نظام‘‘ جمہوریت کی اصل روح سے تہی ہوتا ہے اور اس میں جمہور کا شعور اور شراکت کا حق معطل رہتا ہے ۔ ایسے میں پریشر گروپس کھمبیوں کی طرح اُگ آتے ہیں اور اپنے مفادات کے لیے ان طاقتوں کے آلہ کار ہو جاتے ہیں جو پورے نظام کو کٹھ پتلیوں کا تماشا بنا سکتے ہیں ۔ یہ الیکشن تو جیسے تیسے ہو جائے گا مگر مناسب ہو گا کہ اس پورے نظام ازسر نو دیکھ لیا جائے اور ایسے اقدامات کیے جائیں کہ مستقبل میں جمہور کو حکومت کی تشکیل میں عملی طور پر شریک کیا جا سکے ۔

٭: اس حقیقت کوتسلیم کرتے ہوئے کہ پاکستان بننے میں مذہب کا بہت اہم کردار ہے اور تحریک پاکستان کے پیچھے دو قومی نظریہ کام کر رہا تھا، یہ سمجھنا ہوگا وہ تحریک جس کے پیچھے دوقومی نظر یہ کام کر رہا تھا، اس کا 14 اگست 1947 کو خوشگوار اور کامیاب انجام ہو چکاہے اور مسلمانوں کو ایک آزاد وطن پاکستان مل چکاہے ۔ اب پاکستانی قوم کو اس فضا سے نکل آنا ہوگا جس میں مختلف نظریات کے حاملین کااپنی الگ مذہبی شناخت پراصرار انہیں فاصلے پر لے جاتا ہے۔اب پاکستانی ایک قوم اسی صورت میں بن سکتے ہیں کہ یہاں وطن ایک اہم عنصر کے طور پر کام کرے۔ یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ان ہی کی مرضی چلنی ہے کہ جمہوریت کا یہی تقاضا ہے۔تاہم میں سمجھتا ہوں کہ یہاں ایسی جماعتوں کی کوئی گنجائش نہ تھی، جو مذہبی بنیادوں پر تعصبات کو ہوا دیتی ہی، نہ ہی ایسی جماعتوں کی گنجائش ہے جو پاکستان کی مذہبی شناخت کو ہی ختم کرنا چاہتی ہیں۔ ایسے اقدامات کی عملی ضرورت ہے کہ مذہبی منافرت کے اس عمل کو روک دیا جائے۔ موجودہ صورت حال میں جو شدت پسندی اور عدم رواداری ہے اس کی وجہ ایسی جماعتیں اور ان کے عسکری ونگز ہیں، جو خود اپنی مرضی سے مذہب اور تصور پاکستان کی تشریح کرتے اور زور زبردستی لوگوں کے ذہنوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں فکری انتشاراور آپا دھاپی کی یہی وجوہات ہیں، جن پر قابو پانے کے لیے مسئلے کی بنیادوں کو سمجھنا ہوگا۔ مجھے یہاں آصف فرخی کا ایک افسانہ یاد آتا ہے’’بن کے۔۔۔‘‘،جی یہ وہ نعرہ تھا، جو تحریک پاکستان میں لگایا گیا تھا۔ ’’بن کے رہے گا پاکستان‘‘، اور افسانے میں بتایا گیا ہے کہ، ابھی تک ہم اس نعرے کی باز گشت سن رہے ہیں، پاکستان بن گیا مگر بن ہی نہیں چکتا۔ تو صاحب، اس فضا سے نکلیں گے تو حقیقی جمہوری عمل کا آغاز ہوگا۔

٭:ہر ادارے کو سمجھنا چاہیے کہ وہ ریاستی نظام میں ایک اکائی ہے کل نہیں۔لہٰذا ہر ادارے کو اپنے دائرہ عمل کی طرف لوٹنا ہوگا اور اپنی آئینی حدود کے اندر رہ کرسب اداروں کو مستحکم بنانا ہوگا ۔ یہ جاننا چاہیے کہ ادارے مستحکم ہوں گے تو ملک بھی مستحکم ہوگا ۔اپنی حدود سے تجاوز کرنے والوں کو سختی سے روک دینے کے لیے مزید قانونی بنیادیں فراہم کرنا پڑیں تو اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ جمہوریت ، جو ملکی وسائل ہتھیانے کا وسیلہ بنی ہوئی ہے اسے پاک صاف کرنے کے لیے سب اداروں کا مستحکم اور مستعد ہونا بہت اہم ہے ۔ اسی عمل سے وسائل کے عوامی فلاحی منصوبوں پر منصفانہ استعمال کو ممکن بنایا جاسکتا ہے اور جمہور میں ان کے حقوق کے تحفظ، اور ان کی پورے نظام میں شراکت کے احساس کو بیدار کرکے ریاست کے ہر طبقے کو جمہوری عمل سے وابستہ کیا جاسکتا ہے ۔ اسی سے خود بخود احتساب کا ایسا چوکس نظام وجود میں آ جائے گا ، جو محض مخصوص دنوں میں بیدار ہو کر احتساب کو تماشا بنانے کی بجائے مستقل کام کرکے اپنی اخلاقیات وضع کرے گا۔ جی ایسی اخلاقیات ، جن کی پابندی لائق فخر سمجھی جائے گی اور اس کا ترک کیا جانا لائق تعزیر۔

٭:سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاست کو بے پناہ سرمائے کے انوسٹمنٹ والی سرگرمی بننے سے روک دیا جائے اور اس کے دروازے اس طبقے پر کھول دے جائیں جن کے معاشی وسائل محدود اور معلوم ہیں لیکن وہ خدمت کے جذبے سے معمور ہیں ۔ اس باب میں بھی آئینی ترامیم کرکے بے پناہ سرمائے کے استعمال کو روک دینا ہوگا ۔ جمہوریت کے عمل کو سیاسی جماعتوں کے اندر بھی یقینی بنانے کے لیے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرانا ہوگا ۔ عین الیکشن کے زمانے میں پارٹیاں بدلنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کے لیے ایسا قانون بنایا جاسکتا ہے کہ کسی جماعت کا رکن جب تک کسی پارٹی کا تین سے پانچ سال تک باقاعدہ رکن نہ رہے اسے پارٹی ٹکٹ نہ دیا جائے، تاہم اس بات کا احتمال بھی ہے کہ وہ فرد آزاد امیدوار بن کر اس طرح کے قانون کو غچہ دے لے ۔ ایسے میں آزاد امیدواروں کے لیے بھی شرط ہونی چاہیے کہ وہ پچھلے تین سال کسی پارٹی کے رکن نہ رہے ہوں ۔

٭:انتخابی سرگرمیوں کے لیے ، فرقے، علاقے اور زبان کے تعصب کی بنیاد پر قائم جماعتوں کو سیاسی عمل سے الگ کرنا ہوگا۔یہ جماعتیں ملک میں انتشار کا سبب ہو رہی ہیں سیاسی استحکام کے عمل میں ہر بار رخنے ڈال دیتی ہیں ۔

آخر میں ایک اور بات، اگرچہ کچھ ادیبوں اور بہ طور خاص ترقی پسندوں کے ہاں سیاسی پارٹیوں سے وابستگی میں کوئی عیب نہیں مگر میں اپنے تئیں سمجھتا ہوں کہ ایک ادیب کو سیاسی کا رکن نہیں ہونا چاہیے کہ کسی جماعت سے وابستہ ہو کر یاباقاعدہ سیاسی کارکن ہو کر اس کی ترجیحات کا علاقہ بدل جائے گا اور وہ اس پارٹی کا ترجمان ہو کر اپنی فکری آزادی بھی کھو بیٹھے گا، جو ایک ادیب کے ہاں تخلیقی عمل کی محافظ اور شخصیت کا امتیاز ہوا کرتی ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ادب کا تخلیقی عمل بہت دھیما اور صبر آزما ہوتاہے جب کہ سیاسی عمل اشتعال دلانے والا اور مخالف پر حملہ آور ہو جانے سے عبارت ہے ۔ ادب کی تخلیق سے زبان کا ایک معیار بنتا ہے اور پہلے سے بنے ہوئے معیاروں کو ایک روایت کی صورت احترام دیا جاتا ہے ، جب کہ حالیہ انتخابی مہم میں دیکھا گیا ہے کہ یہی زبان، سیاست دانوں کا سب سے زیادہ نشانہ ہوئی ہے اور اس کا ناس مارا جانا لگ بھگ ہر پارٹی میں اور ہر کہیں جس طرح ایک فریضہ سمجھ لیا گیا ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ الیکشن کمشن نے گھٹیا زبان استعمال کرنے پر جن قومی رہنمائوں کو نوٹسسز جاری کیے ہیں ان میں ایک پارٹی کا سربراہ، ایک دینی جماعت کا سربراہ اور قومی اسمبلی کاا سپیکر بھی شامل ہے ۔ ایک تخلیق کار ایک ایسی مہم کا حصہ کیسے ہو سکتا ہے جس میں زبان کے اس سطح پر بگاڑ جائز ہو۔ تاہم میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی ادیب سیاسی عمل سے اپنی دلچسپیوں کو کاٹ کرقلم تھامے الگ تھلگ بیٹھ بھی نہیں سکتا ۔

یاد رہے جمہوریت کوئی ایسا مکمل نظام نہیں ہے جس کا ماڈل عین مین ہم کہیں سے اٹھائیں اور اپنے ہاں نافذ کر لیں تو وہ ٹھیک ٹھیک نتائج بھی دینے لگے۔ اسے ہمیں اپنے زمینی حقائق کے مطابق ترتیب دینا ہوتا ہے ، یوں کہ جمہور کی رائے کی آزادی کی راہیں کسی بھی صورت میں مسدود نہ ہوں۔ اگر ایسا نہیں ہوپایا اور الیکشن سے پہلے حسب منشا نتائج کے حصول کے لیے انجینئرنگ کا عمل شروع ہوگیاہے تو کیا اس نے سارا عمل ہی مشکوک نہیں بنا دیا؟۔ اس سب خرابی کے باوجود امید توڑنا نہیں چاہتا اور جمہوری عمل سے وابستہ رہنا چاہتا ہوں تو اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔امید کی جانی چاہیے کہ بہت جلد جمہوریت میں غیر جمہوری عوامل کی مداخلت کو روک دیا جائے گا اگر ایسا ہو جاتا ہے تو سلطانی جمہور کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے ہوگا ۔وہی سلطانی جمہور کا خواب، جس کی بابت اقبال نے فرمایا تھا:

سلطانی ء جمہور کا آتا ہے زمانہ

جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو

جس نقش کہن کو اقبال مٹادینے کی بات کر رہے ہیں اس میں ایک بالا دست طبقے کی وسائل اور سیاسی عمل پر اجارہ داری کا تسلسل ہے ۔اقبال نے غریبوں کو جگانے اور کاخ امرا کے درو دیوار ہلانے پر اکسایا تو اس لیے کہ اس کے بغیر سیاسی عمل کی تطہیر ممکن ہی نہیں ہے۔

تازہ ترین