• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن 2018ء کی پولنگ کے دوران آئندہ پانچ برسوں کی ملکی قیادت کے چنائو کیلئے عوام کی آراء ووٹوں میں ڈھل چکی ہیں اور ان سطور کی اشاعت کے وقت تک ووٹوں کی گنتی کے نتائج آنا شروع ہو چکے ہونگے۔ یہ انتخابات ایسے حالات میں منعقد ہوئے جب اندرون ملک بعض غیر معمولی پیش رفتوں کے باعث ان کے التواء کی سرگوشیاں سننے میں آرہی تھیں اور بیرون ملک بعض حلقوں کی خواہشات ایسی پیش گوئیوں کا روپ دھار رہی تھیں جن سے مذکورہ انتخابات کے منعقد ہونے کے بارے میں ہی خدشات پیدا ہوتے تھے۔ وطن عزیز کی تمام قابل ذکر سیاسی پارٹیاں اس نکتہ پر ہم آہنگ نظر آئیں کہ انتخابات بروقت منعقد ہونے چاہئیں۔ سپریم کورٹ کی طرف سے یہ عزم بار بار دہرایا گیا کہ الیکشن 2018ء مقررہ وقت پر ہونگے۔ آرمی چیف کی طرف سے بھی واضح کیا گیا کہ اس باب میں کثیر جہتی سیکورٹی اقدامات کرلئے گئے ہیں۔ نگراں حکومت کا بھی کہنا تھا کہ انتخابات کسی صورت ملتوی نہیں ہونگے۔ چنانچہ جب انتخابی سرگرمیاں شروع ہونے کے بعد دہشت گردی کے کئی واقعات نے پوری قوم کو ہلا ڈالا اور صوبائی اسمبلیوں کے تین امیدوار بیرسٹر ہارون بلور (اے این پی) سراج رئیسانی (بی اے پی) اور اکرام اللہ گنڈا پور (پی ٹی آئی) اپنی اپنی انتخابی مہم کے دوران مختلف مقامات پر خود کش بم حملوں کے نتیجے میں شہید ہوئے تو بروقت انتخابات کے انعقاد کے بارے میں قوم کا عزم کمزور ہونے کی بجائے مزید پختہ ہوگیا۔ دہشت گردی جن وارداتوں کا ذکر کیا گیا ان کے نتیجے میں تقریباً دو سو افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیدوار اکرم درانی کو دو بار نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی اور پی ٹی آئی کے اسد عمر کی ریلی پر بھی فائرنگ کی گئی۔ ان واقعات سے یہ واضح ہے کہ پاکستان دشمن قوتیں وطن عزیز میں عام انتخابات سبوتاژ کرنے کے طے شدہ منصوبے پر کام کررہی ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے بیان کے بموجب ان واقعات کی کڑیاں بیرون ملک سے مل رہی ہیں۔ ان باتوں کو ذہن میں رکھا جائے تو بدھ 25جولائی کو کوئٹہ کے قریب تعمیر نو پولنگ اسٹیشن پر دھماکے میں 7پولیس اہلکاروں سمیت 32افراد کے نذر اجل ہونے کا پس منظر بھی سمجھ میں آجاتا ہے۔ کراچی، ملتان اور ڈیرہ غازی خان سمیت ملک کے مختلف حصوں سے سیکورٹی اداروں نے جو درجنوں دہشت گرد ٹھوس شواہد کیساتھ گرفتار کئے انکے بیانات بھی واضح کررہے ہیں کہ پاکستان دشمن قوتیں اس ملک کو ترقی کرتا اور یہاں جمہوری نظام و اقدار کو مستحکم ہوتے نہیں دیکھنا چاہتیں۔ اے این پی کے رہنما اسفند یار ولی جب اپنی پارٹی کےکارکنوں کو یہ تلقین کررہے تھے کہ (خدانخواستہ) خود اے این پی کے سربراہ کے ساتھ کوئی سانحہ ہو جانے کی صورت میں بھی انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنایا جائے تو انکا مقصد یہی تھا کہ پاکستان کو مضبوط بنانے کے لئے ہمیں اپنے جمہوری نظام کی سمت بہرصورت درست رکھنا ہوگی۔ ان سب باتوں کو تفصیل سے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستانی قوم نے الیکشن 2018ء میں نئی قیادت کا ہی چنائو نہیں کیا، ہر قیمت پر جمہوری اقدار کے استحکام کا فیصلہ بھی دیدیا ہے۔ عوام نے ووٹوں کے ذریعے اپنی تقدیر جن لوگوں کے حوالے کی ان سے ملکی دفاع، ترقی اور خوشحالی کی امیدیں وابستہ ہیں۔ یہ مقاصد تعلیم و ہنر کے فروغ صحت عامہ کی بہتری، گڈ گورننس کے چلن اور کرپشن کے خاتمے سے ہی حاصل ہوں گے۔ الیکشن 2018ء ماضی کے الیکشنوں سے کسی قدر مختلف فضا میں منعقد ہوئے ہیں۔ کئی مقبول شخصیات کے پس زنداں چلے جانے سمیت فضا میں پائی جانے والی کشیدگی اور موسم کے بدلتے تیوروں کے باوجود انتخابات کے بروقت انعقاد کا کریڈٹ الیکشن کمیشن اور تمام متعلقہ اداروں کو جاتا ہے۔ تاہم اس نظام کو مثالی بنانے کے لئے ہمارے سیاستدانوں کو ایسے طریقوں پر سوچ بچار ضرور کرنی چاہئے جن کی موجودگی میں امیدواروں اور پارٹیوں کے درمیان امتیازی سلوک کا شائبہ بھی نہ ہو ۔

تازہ ترین