• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی ڈالر کے مقابلے میںپاکستانی روپے کی بے قدری کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا،تازہ اطلاعات کے مطابق رواں ہفتے کے پہلے کاروباری روز اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 131روپے تک جاپہنچی، گزشتہ کچھ عرصے سے روپیہ اپنی قدر کھوتارہا تھا لیکن گزشتہ دنوں ڈالر کی قدر میں یکایک اضافے نے قومی کرنسی کو بری طرح پچھاڑ دیاہے، کرنسی ڈیلرزکا کہنا ہے کہ ڈالر کی طلب میں اچانک اضافہ ہونے سے اس کی طلب بھی بے تحاشا بڑھ گئی ہے اور لوگوں کی بڑی تعدادوافر مقدار میں ڈالر خرید کر محفوظ سرمایہ کاری کررہی ہے، دوسری طرف معاشی ماہرین ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کی نئی لہر کے خدشے کا اظہار کررہے ہیں جس سے پاکستان کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ ملکی درآمدات و برآمدات کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان روزمرہ کی اشیائے خوردونوش، تیل، پٹرولیم مصنوعات، خوراک، زرعی اشیا، کوکنگ آئل، مشینری، الیکٹرونکس کا سامان سمیت کم و بیش ہر شعبہ زندگی سے متعلق مختلف اجناس درآمد کر رہا ہے جبکہ برآمدات کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، روپے کی قدر میں کمی نے یکایک نہ صرف امپورٹڈ مصنوعات کی قیمت بڑھا دی ہے بلکہ ملکی قرضوںمیں بھی اضافہ کردیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی بے قدری کی وجوہات جاننے کیلئے بہت ضروری ہے کہ تاریخ کے آئینہ میں جھانکا جائے، میں نے اس مناسبت سے جب ریسرچ شروع کی تو کچھ دلچسپ تاریخی حقائق میرے سامنے آئے، کہا جاتا ہے کہ عالمی تاریخ کے گزشتہ دو ہزار سالوں میںسے اٹھارہ سو سال ہندوستان دنیا کا خوشحال ترین امیر ملک تھا،دوسرے نمبر پر ہمسایہ ملک چین تھا، قدیم ہندوستان کی تاریخ میں سکہ رائج الوقت کو روپیہ کہا جاتا تھا، لغوی طور پر لفظ روپیہ سنسکرت زبان کے ’’روپا‘‘ سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب چاندی کا سکہ ہے، عظیم موریہ سلطنت کے بانی چندر گپت موریہ کے وزیراعظم اور شہرہ آفاق فلسفی چانکیہ جی نے بھی اپنی مایہ ناز کتاب ارتھ شاستر میں چاندی کے ریاستی سکوں کاتذکرہ روپیہ روپا کے نام سے کیا ہے جبکہ سونے کے سکوں کو سووانا روپا، کانسی کے سکوں کو تامرا روپا اور سیسے کے سکوں کو سیسا روپا کے نام سے پکارا ہے۔ برصغیر میں انگریزوں کی آمد سے قبل سونے کی اشرفی یاچاندی کا روپیہ بطور کرنسی استعمال کیا جاتا تھا۔ آج کا امریکی ڈالر بھی کسی زمانے میں چاندی کا سکہ ہوا کرتا تھاجو ہسپانوی ڈالر کی طرز پر بنایا گیاتھا،ایک رپورٹ کے مطابق لفظ ڈالر ایک قدیمی سکے کے نام جوشمز دالر سے لیاگیا ہے، جوشمز دالر یورپ کے ملک چیک کی ایک وادی کا نام ہے جہاں واقع چاندی کی کانوں سے سکے بنائے جاتے تھے، بعد ازاں لفظ جوشمز کو نفی کردیا گیا اور بتدریج ڈالرکو وسیع پیمانے پر شرف قبولیت حاصل ہونے لگا، آج دنیا کے بیس سے زائد ممالک کی سرکاری کرنسیوں کا نام ڈالر ہے جبکہ امریکی ڈالر ریاست ہائے متحدہ امریکہ، مشرقی تیمور، اکیاڈور، ایل سالواڈور، مائیکرونشیا، مارشل جزائر، پلاؤ، کریبئن نیدرلینڈز، پاناما سمیت مختلف ممالک کی سرکاری کرنسی کا درجہ رکھتا ہے۔ انیسویں صدی کے اختتام تک سونا چاندی سےصرف پندرہ گنا مہنگا ہوا کرتا تھا لیکن امریکہ میں چاندی کی بے شمار کانوں کی دریافت نے چاندی کی قدر گرادی اور آج سونا چاندی سے کم و بیش ستر گنا زیادہ مہنگا ہے، یہی وجہ تھی کہ بیسویں صدی کے اوائل میں امریکی حکومت نے طلائی معیار (گولڈ اسٹینڈرڈ)متعارف کراتے ہوئے سونے کو بطور کرنسی قرار دے دیا،گولڈ اسٹینڈرڈ اس امر کی یقین دہانی کراتا ہے کہ کاغذی کرنسی نوٹ حکومت کی طرف سے سونے کا متبادل ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب برصغیر پاک و ہند برطانوی سامراج کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا، عالمی تجارت کا توازن ہندوستان کے حق میں ہونے کی بناء پر بڑی مقدار میں سامان تجارت برآمد کیا جاتا تھا، انگریز نے مقامی منڈیوں سے حاصل کردہ مال کی ادائیگی سونے یا چاندی میں کرنے کی بجائے فقط کاغذ کے ٹکڑوں پر ٹرخانے کیلئے نظامِ بینکاری متعارف کروایا،جنگ آزادی1857 ء کے بعد انگریز حکومت نے کاغذی کرنسی کا قانون بنایا ، رفتہ رفتہ لوگ مغلیہ سلطنت کے زمانے کے خالص چاندی کے روپیوں اور سونے کی اشرفیوں کو بھولتے گئے اور انگریز سرکار کے جاری کردہ کاغذ کے نوٹ پورے برصغیر میں گردش میں آگئے ، لوگوں کے پاس محفوظ سونا بٹورنے کیلئے انگریزوںنے ڈاک خانوں میں پوسٹل سیونگ بینک قائم کئے جو پرکشش شرح منافع فراہم کرتے، چونکہ برطانیہ میںبھی گولڈ اسٹینڈرڈ نافذ تھا اسلئے برصغیر کا سونا برطانیہ منتقل کرنے کیلئے ہندوستان میں سلور اسٹینڈرڈ متعارف کیا گیا جسکے تحت چاندی کا روپیہ بطور سرکاری کرنسی استعمال کیا جانے لگا، حکومت لوگوں سے سونا قبول تو کرلیتی تھی لیکن دینے کی پابند نہیں تھی،انگریزوں نے ہندوستان کے تجارتی سامان کی ادائیگی بل کونسل میں کرنا شروع کردی جو درحقیقت بینک ڈرافٹ کی ایک شکل تھی اور اسکی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی تھی، انگریز سامراج کی اس چال کی بدولت کاغذی نوٹ چھاپ چھاپ کر برصغیر بھر سے مال خریدا جانے لگا ،مورخین کے مطابق اس زمانے میں جتنے زیادہ کونسل بل چھپتے تھے اتنی زیادہ چاندی کی قیمت گرتی تھی، یہی وجہ تھی کہ لندن کی انڈیا کونسل کو ہر سال گزشتہ سال کی نسبت زیادہ کونسل بل چھاپنے پڑتے تھے تاکہ لندن میں سونے کی فراہمی میں کمی نہ آئے، دوسری طرف چاندی استعمال کرنے والے ہندوستان پر ٹیکس میں ازخود اضافہ ہوجاتا تھا، بینک آف انگلینڈ سونے چاندی کی قیمت پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے کونسل بل کی قدر میں گاہے بگاہے اتار چڑھاؤ لاتا رہتا۔اپریل 1935 سے نوٹ چھاپنے کا اختیار نئے قائم کردہ ریزرو بینک آف انڈیا کودے دیا گیا جوکہنے کو تو ایک نجی مرکزی بینک تھا لیکن عملی طور پر بینک آف انگلینڈ کی ہندوستانی شاخ تھا۔ کہتے ہیں کہ جب انگریز برصغیر میں آیا تو مقامی لوگوں کے پاس سونا تھا اور انگریزوں کے پاس کاغذی کرنسی لیکن جب انگریز برصغیر سے گیا تو سونا انگریزوں کے پاس تھا اور کاغذی کرنسی مقامی لوگوں کے پاس۔ آزادی کے بعد پاکستان نے برطانوی ہند کے جاری کردہ کاغذی روپے پر حکومتِ پاکستان کی مہر لگاکر کام چلایا، حصولِ آزادی کے وقت ایک امریکی ڈالر لگ بھگ تین پاکستانی روپیوں کے برابر تھا جو آج 131پاکستانی روپےکی سطح عبور کررہا ہے، دوسری طرف امریکی ڈالر 67بھارتی روپے کے برابر ہے، یوں کسی وقت میں مستحکم سمجھا جانے والا پاکستانی روپیہ اپنی قدر کھونے کے بعد بھارتی روپے سے نصف ہوچکا ہے ۔ آج اگر پاکستانی روپیہ ڈالر کے ہاتھوں قدر کھوتا جارہا ہے تو اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آج کے دور میں قوموں کو غلام بنانے کیلئے انکی کرنسی کو بے قدر و قیمت کردیا جاتا ہے،لمحہ فکریہ ہے کہ جب دنیا کے ممالک میں زیادہ سے زیادہ سونا جمع کرنے کی دوڑ ہے تو پاکستان کو عالمی دباؤ کا سامنا ہے کہ اپنا سونا فروخت کر کے اور روپے کی قدر میں کمی لاکرکاغذی فارن ریزرو (زرِ مبادلہ) میں اضافہ کرے ۔ دوسری طرف ہمارے بعد آزاد ہونے والا عظیم ہمسایہ دوست ملک چین دنیا کی مستحکم ترین اقتصادی طاقت کے روپ میںتیزی سے ڈھلتا جارہا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق چین دنیا کا سب سے بڑا سونے کا ذخیرہ کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے لیکن سونا بیچنے کو تیار نہیں،میری نظر میں چین کی ترقی کا یہی راز ہے کہ وہ اپنی کرنسی خود کنٹرول کرتا ہے، اسی طرح انٹرنیٹ پر موجود بِٹ کوائن سمیت کرپٹو کرنسی کی مقبولیت اشارہ کرتی ہے کہ دنیا ڈالر کے شکنجے سے نکلنا چاہتی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک دنیا اپنے ملکی مفادکو مقدم رکھتے ہوئے دیگر متبادل زرِ تجارت اپنا رہی ہے تو ہم کیوں آزادانہ اقتصادی پالیسیاں اختیار کرنے سے ہچکچا رہے ہیں؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین