• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات کوئی راز نہیں کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں پاکستانی شہریت رکھنے والے لاکھوں افراد نے قومی خزانے سے لوٹی ہوئی، ٹیکس چوری اور دوسرے ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی رقوم بڑے پیمانے پر بیرونی ملکوں میں منتقل کی ہیں۔ ان ناجائز رقوم کو پاکستانی ٹیکس حکام سے بھی خفیہ رکھا گیا ہے۔ گزشتہ 20 برسوں سے مختلف حکومتوں اور خود سپریم کورٹ کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا جاتا رہا تھا کہ ان رقوم کی پائی پائی پاکستان واپس لائی جائے گی۔ اب سے 19 برس قبل ہم نے سپریم کورٹ کی 5رکنی بینچ کے سامنے ملکی و بیرونی قرضوں پر انحصار کم کرنے کے لئے گزارشات پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بیرونی ملکوں میں رکھی ہوئی ناجائز دولت کا صرف 25فیصد ہی پاکستان واپس لایا جا سکے تو پاکستان نہ صرف اپنے تمام بیرونی قرضے ادا کر سکتا ہے بلکہ آئندہ بھی بیرونی قرضے لینے سے بے نیاز ہو جائے گا سپریم کورٹ کی اس بینچ کے سربراہ نے اپنے 23دسمبر 1999ء کے فیصلے میں صفحہ 606سےصفحہ 610تک ہماری گزارشات اور تجاویز کو شامل کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے از خود نوٹس کیس میں سماعت کے دوران کہا کہ یہ بات زد عام ہے کہ جو پیسہ باہر لے جایا گیا ہے اگر وہ واپس آجائے تو پاکستان اپنے تمام بیرونی قرضے ادا کر سکتا ہے۔ چف جسٹس نےیہ نوٹس ناجائز دولت بیرونی ملکوں سے واپس لانے کے لئے لیا تھا۔ یہ یقیناً ایک قومی المیہ ہے کہ 8؍ اپریل 2018ء کو بیرونی ملکوں سے رکھی ہوئی ناجائز رقوم کو ظاہر کرنے اور واپس لانے کے لئے جو صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا ہے اس میں بیرونی ممالک میں رکھی ہوئی ان ناجائز رقوم کو صرف 5فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر باہر ہی رکھنے کی اجازت دے کر قانونی تحفظ فراہم کرنے کی شق شامل کر دی گئی ہے۔ یہ آرڈیننس قومی سلامتی اور مفادات سے متصادم ہے اور اس میں ناجائز دولت رکھنے والوںکے مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے۔ اس کے تباہ کن اثرات موجودہ مالی سال اور آئندہ برسوں پر محیط رہیں گے۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ وفاق ہائے صنعت و تجارت نے ناجائز دولت کو پاکستان واپس لانے کا مطالبہ ضرور کیا تھا لیکن یہ کبھی نہیں کہا تھا کہ ان رقوم کو باہر رکھنے کی اجازت دی جائے۔
سپریم کورٹ نے 12؍ اپریل 2018ء کو کہا تھا کہ عدالت اس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا جائزہ لے گی مگر 12 جون 2018ء کو قرار دیا کہ سپریم کورٹ کو اس اسکیم پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ کے آرڈر میں کہا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے یکم فروری 2018ء کو یہ ازخود نوٹس زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر گرتے چلے جانے کی وجہ سے لیا تھا لیکن 8؍ اپریل 2018ء کو جاری کردہ ٹیکس ایمنسٹی کے تحت اول ناجائز دولت کو پاکستان واپس لانے کے بجائے باہر رکھنے کی اجازت دے کر اور دوم، ناجائز ملکی اثاثوںکو صرف 5فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر قانونی تحفظ فراہم کر کے جو صورت حال پیدا کر دی گئی اس کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر گرے اور روپے کی قدر میں پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے کمی ہوئی۔ یہی نہیں نگراں حکومت نے سپریم کورٹ کو اصل حقائق سے آگاہ کرنے کے بجائے اپنے اختیارات سے تجاویز کرتے ہوئے ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں میں توسیع کی اور مندرجہ بالا تباہ کن شرائط کو برقرار بھی رکھا۔
سپریم کورٹ نے پاکستان سے منتقل کی گئی ناجائز رقوم ملک میں واپس لانے کے لئے ازخود نوٹس آئین پاکستان کی شق 184(3) کے تحت لیا تھا۔ اس شق کا تعلق مفاد عامہ اور بنیادی انسانی حقوق سے ہے چنانچہ یہ از حد ضروری تھا کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت ظاہر کی ہوئی رقوم کو لازماً پاکستان لایا جائے۔ اس کے بجائے ان رقوم کو باہر ہی رہنے دینے کی اجازت سے بنیادی حقوق کا تحفظ ہونے کے بجائے الٹا ان حقوق کی پامالی ہوئی ہے کیونکہ اگر یہ رقوم پاکستان آتیں تو ان رقوم کو تعلیم، علاج معالجے، عوام کی فلاح و بہبود اور پاکستان کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لئے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ یہ بات نوٹس کرنا اہم ہے کہ سپریم کورٹ کے 12 جون 2018 کے آرڈر میں کہا گیا ہے کہ ہمیں بتلایا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے 26 مارچ 2018 کے آرڈر کے بعد وفاقی حکومت نے ناجائز بیرونی اثاثوں کے لئے 8؍اپریل 2018 کو ایمنسٹی اسکیم کا اجرا کیا تھا۔ ایک اور ناقابل فہم بات یہ ہے کہ 8؍ اپریل کو ہی جاری کردہ ایک دوسرے آرڈیننس میں صرف 5فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر ملک کے اندر موجود ناجائز اثاثوں کو بھی تحفظ فراہم کیا گیا ہے حالانکہ اول، ملکی اثاثوں کی تفصیلات ریکارڈ میں موجود ہیں دوم یہ اثاثے حکومت کی دسترس میں ہیں اور سوم ان ناجائز اثاثوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ وفاق ہائے صنعت و تجارت کی طرف سے کیا ہی نہیں گیا تھا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا تھا:
(1) لوٹی ہوئی دولت باہر سے واپس لا کر تعلیم اور صحت پر خرچ کی جائے گی۔
(2) انتخابات سے تین روز قبل انہوں نے کہا تھا کہ میرے پاکستانیوں! کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ذریعے پیسہ باہر لے جایا جاتا رہا ہے۔ ہم کوپیسہ واپس لانا ہے۔ تحریک انصاف کے 2013کے انتخابی منشور کے چند نکات جو صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں وہ یہ ہیں۔
(1) بدعنوانی کے ذریعے کمائی رقوم واپس لے کر تعلیم پر خرچ کی جائے ۔
(2)جائیدادوںکے ’’ڈی سی ریٹ‘‘ کو مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لایا جائے گا۔
(3) زرعی شعبے اور جائیداد سیکٹر کو مؤثر طور پرٹیکس کے دائرے میں لایا جائے گا۔
(4)جی ڈی پی کے تناسب سے تعلیم کی مد میں 5 فیصد اور صحت کی مد میں 2.6 فیصد خرچ کیا جائے گا۔
طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئے صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی گزشتہ 5 برسوں میں ان سے مکمل انحراف کیا گیا۔ ’’ووٹ کی عزت‘‘ اور مندرجہ بالا چھ وعدوں کو پورا کرنے کیلئے جو اقدامات اگست2018میں اٹھانا لازمی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
(1) انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) لوٹی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ فراہم کرنے اور منی لانڈرنگ کا بڑا ذریعہ ہے اس شق کو منسوخ کا جائے۔
(2) کھلی منڈی سے ڈالر خرید کر بیرونی کرنسی کے کھاتوں میں جو رقوم جمع کرائی جاتی ہیںان کو صرف تعلیم اور علاج معالجے کے لئے باہر بھیجنے کی اجازت دی جائے۔
(3) غیر منقولہ جائیداد سیکٹر لوٹی ہوئی دولت کو محفوظ جنت فراہم کرنے اور منی لانڈرنگ کا بڑا ذریعہ ہیں۔ جائیدادوں کی خرید و فروخت کی رجسٹریشن مارکیٹ سے کم نرخوں پر نہ کی جائے۔
(4)لوٹی ہوئی اور ٹیکس چوری کے ملک کے اندر موجود اثاثوں کی تفصیلات ریکارڈ میں موجود ہیں۔ ایف بی آر کو احکامات جاری کئے جائیں کہ مروجہ ملکی قوانین کے تحت ان سے ٹیکس وصول کیا جائے۔ اس مد میں چند ماہ میں تقریباً ایک ہزار ارب روپے کی وصولی ہو سکتی ہے۔
(5) وفاق اور صوبے ہر قسم کی آمدنی پر مؤثر طور پر ٹیکس عائد کریں اور معیشت کو دستاویزی بنائیں۔ تعلیم و صحت کی مد میں جی ڈی پی کا 7.6فیصد لازماً مختص کیا جائے۔
(6) نگراں حکومت کے دور میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں توسیع کے لئے جو آرڈیننس جاری کیا گیا تھا قومی اسمبلی سے اس کو لازماً مسترد کرایا جائے۔
(7) پاکستانی شہریوں کے ملک سے باہر رکھے ہوئے ناجائز اثاثوں کی کچھ تفصیلات حکومتی اداروں کے علم میں ہیں۔ ان کو واپس لانےاور ملک سے سرمائے کے فرار کو روکنے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔
(8) سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے 2016 اور 2017ء میں نیب کے متعلق جو متعدد ریمارکس دئے تھے ان کی روشنی میں احتساب کا عمل شروع کیا جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین