عدلیہ کے انتہائی فعال و متحرک سربراہ جسٹس ثاقب نثار کا ملک کے نظام انصاف کی مجموعی صورت حال کے حوالے سے یہ کہنا کہ ’’ اپنا گھر ٹھیک نہیں کرسکا، ہم نیچے گئے ہیں، ایمانداری پر سمجھوتہ ہونے لگا، نااہلی آگئی، غلطیاں تسلیم کرنا ضروری ہے‘‘ حقیقت پسندی اور انصاف دوستی کی ایک قابل تقلید مثال ہے۔اگر قومی زندگی کے تمام شعبوں کے قائدین میں کسی لاگ لپیٹ کے بغیر اپنے اداروں کی خامیوں کے اعتراف کا حوصلہ پیدا ہوجائے تو اصلاح و بہتری کی راہیں لازماً ہموار ہوں گی جبکہ نظام انصاف کی اصلاح توزندگی کے دوسرے تمام شعبوں سے زیادہ ضروری ہے۔ معاشرے کے قیام و بقاء کیلئے انصاف کے اہم ترین عامل ہونے پر پوری انسانی تاریخ گواہ ہے۔مادّی وسائل کی قلت کے باوجود معاشرے پرامن رہ اور ترقی کرسکتے ہیں لیکن لوگوں کو انصاف نہ ملے تو کسی بھی تدبیر سے قوموں کو تباہ ہونے سے بچایا نہیں جاسکتا۔بد عنوانی، لوٹ کھسوٹ، طاقتور اور کمزور کیلئے الگ الگ قانونی معیارات اور فراہمی انصاف میں غیرجانبداری کا یقینی نہ بنایا جانا، یہ سب بے انصافی اور ظلم ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ تاہم انتہائی غور طلب ہے یہ بات کہ پچھلے کئی برسوں کے دوران سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے سربراہوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً عدلیہ میں اصلاحات کی ضرورت کا شدت سے اظہار کیے جانے کے باوجود اب تک صورت حال یہ کیوں ہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس کو پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں عدالتی افسروںکے ٹریننگ سیشن کے موقع پر اپنے خطاب میں یہ کہنا پڑا کہ ’’ ترامیم جتنی کرلیں جب تک خود انصاف نہ کریں نہیں ہوسکتا، ہم اس وقت تک ڈلیور نہیں کر پائیں گے۔ جب تک ججوں میں کام کرنے کی لگن ،وژن اور رول آف لاء اپلائی کرنے کا جذبہ نہیں ہوگا، تمام ترامیم بے سود ہیں۔‘‘جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ میں نے کوشش کی کہ ازخود نوٹس لے کر لوگوں کی مدد کرسکوں، لیکن میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں اپنے ہاؤس کو ان آرڈر نہیں کر سکا۔ عدلیہ میں تربیت کا فقدان ہے، عدالتی نظام میں بہت سی اصلاحات ضروری ہیں،ہم دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق قوانین میں ترامیم نہیں کرسکے، لیکن بعض اوقات قوانین میں تبدیلی کے باوجود بہت سے نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ جب تک قانون پر عملداری کا جذبہ نہیں ہوگا،اس وقت تک بہتری نہیں لائی جا سکتی۔ ہمیں بطورایک ادارہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔‘‘محترم چیف جسٹس ملک کی بہتری اور عوام کی خدمت کے جس جذبے سے سرشار ہیں، اس کا اظہار کرپشن کے خاتمے، صحت و صفائی کی سہولتوں اور اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی اصلاح سے لے کر پانی کی قلت کے ہولناک مسئلے سے نمٹنے کی خاطر ڈیموں کی تعمیر تک کیلئے انکی کاوشوں سے بخوبی ہوتا ہے۔ لیکن یہ بہرحال ایک حقیقت ہے کہ انکی اصل ذمہ داری اپنے اختیارات کی حد تک حتی الامکان نظام انصاف کی خامیوں کو دور کرنا اور اسے اس طرح جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہے کہ ہر شہری کو فوری اور سستا انصاف مل سکے۔ اس پہلو سے صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ملک کی مختلف سطحوں کی عدالتوں میں اٹھارہ لاکھ سے زائد مقدمات زیر التواء ہیں۔زمین جائیداد اور مالک مکان اور کرایہ دار کے جھگڑوں کے فیصلوں میں بھی بسا اوقات بیس بیس سال لگ جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے اس صورتحال کے ایک بڑے سبب کی نشان دہی ان الفاظ میں کی ہے کہ ’’آج کے دور میں ہم امریکا میں ویڈیو پر بات کر سکتے ہیں لیکن لاکھوں کی پراپرٹی پٹواری کے زبانی انتقال پر منحصر ہے، آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ایک پٹواری کی محتاجی برقرارہے۔ جب تک ہم عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق خود کو تیار نہیں کرتے تیز ترین انصاف کی فراہمی ممکن ہے اور نہ اہداف کا حصول۔‘‘ قومی مفاد کا ناگزیر تقاضا ہے کہ نئی منتخب حکومت اور پارلیمنٹ کی جانب سے نظام انصاف میں تمام مطلوبہ اصلاحات کیلئے عدلیہ کو مکمل تعاون فراہم کیا جائے تاکہ قیام عدل کی شکل میں معاشرے کی بقا و سلامتی کی اہم ترین ضرورت پوری ہوسکے۔