
جاتا ہے ،جو مٹائے نہ مٹے۔
بہر زمیں کہ نسیمے ز زلف او بوزد
ہنوز از سرآں بوئے عشق مے آید
(جہاں جہاں بھی نسیم سحر اس کی زلفوں کو چھو کر گزری ہے ابھی تک وہاں سے عشق کی خوشبو آرہی ہے)
کائرہ کہتے ہیں : ن لیگ اپنے گھر کو ٹھیک کرے، اسلم بیگ خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔
کیا اسلم بیگ جاتی عمرہ میں واقع محل کے خواب دیکھ رہے ہیں جو کائرہ صاحب نے ایک ہی سانس میں دونوں کا ذکر کر دیا۔ ن لیگ کا گھر ٹھیک تو ہے۔ ہرگھر میں گولڈ پلیٹڈ ٹونٹیاں ہیں۔ واش روموں میں بھی اے سی نصب ہیں۔ ہمارے ہاں جب کسی سیاسی پارٹی کا نام لیاجاتا ہے تو اس سے مرادپارٹی سربراہ کا گھرہوتا ہے اور وہ ٹھیک ٹھاک ہوتا ہے۔کائرہ اپنے گھر کی فکر کریں کہ ٹونٹیاں بیچ کر چھوہارے نہ کھانے پڑ جائیں۔ کائرہ اتنے کایاں تو ضرور ہیں کہ اپنے مستقبل کو دور دور تک محفوظ کرلیا ہوگا۔ آخر وہ بھی تو ایک بہت بڑے ایمپلی فائر کا ووفر ہیں مگرایک بات ماننا پڑے گی کہ کبھی ان کے منہ سے ان کے اپنے منہ کی بات سننے کو نہیں ملی۔ وہ بولتے ہیں تو جیسے چلتا پانی مگر یہ ضرور ہوتا ہے کہ
وچے ای بیڑے وچے ای جھیڑے
وچے ای ونج مہانڑے ُہو
پیپلزپارٹی ، عوامی جماعت ہے، اس میں کوئی شک نہیں، مگر ہنوز اسے خود کو عوامی ثابت کرنا باقی ہے۔ یہ عوامی قرضہ وہ کب چکائے گی؟ یہی بات بھٹو کی روح بینظیر کی روح سے اور وہ زرداری سے پوچھتی ہے ماننا پڑے گا کہ اگر زرداری ”پھوڑی“ پر بیٹھ کر فاتحہ خوانی کے دوران جمہوریت کی بحالی کی کوشش نہ کرتے تو پیپلزپارٹی ہوتی نہ جمہوریت۔ رہ گئے جمہوریت کے تقاضے تو انہیں کون پوچھتاہے۔
سپریم کورٹ نے سرکاری ملازمین کو سیاسی آقاؤں کے شکنجے سے آزادی دلا دی ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عملدرآمد بھی ہوجائے تو مردے میں جان پڑ جائے اور حق حق کرے۔ سرکاری پنچھی قفس سے آزاد ہوگئے۔ اس لئے اب ان کو بہت زیادہ پابند رہنا ہوگا تاکہ کفرانِ نعمت نہ ہو وہ ملکہ ٴ ہند نورجہاں کے ہاتھوں کے کبوتر نہیں کہ اڑا دیئے تو نشان تک نہ ملا۔ اس ملک میں عام آدمی کو جتنا گلہ حکمرانوں سے ہے اتنا ہی افسران و سرکاری اہلکاران سے بھی ہے اس لئے وہ اب سجدہ ٴ شکر ادا کریں ،اپنے فرائض نیک دلی سے ادا کریں اوریہ ادائیں ترک کردیں کہ ڈیوٹی کے دوران یہ میسیج آنے پراٹھ کھڑے ہوں
ہائے ہائے یہ مجبوری یہ موسم اور یہ دوری
تیری دو ٹکیاں دی نوکری میرا لاکھوں کا ساون جائے
عدالت ِ عظمیٰ روز نوافل ادا کرتی ہے جن کا ڈھیروں ثواب ملے گا۔ لیکن وہ اگر تھوڑی سی توجہ عدالت ِ صغریٰ پر دے تو کچہریاں، بازارِ نخاس نہ بن سکیں اور قدم قدم پر غریب مجبورعوام کو خراج نہ ادا کرنا پڑے اور لوئر کورٹس خراج کی گدا بننے سے گریز کریں۔ انصاف فراہم کرنا ججوں اور وکیلوں دونوں کا فرض ہے۔ مقدمات نمٹانے کی رفتار تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔ بے گناہ اور گناہ گار دونوں سلاخوں کے پیچھے بوڑھے ہو رہے ہیں مگر ان کی باری نہیں آتی۔ کتنے ہی بے گناہ لوگوں کو دیکھا کہ فرعون صفت افسر کے سامنے کھڑے کہہ رہے ہیں
کانوں کیتی اساں نال بس وے
کوئی دوش اساں دا دس وے
سرگودھا میں 10 سالہ لڑکے کا 12 سالہ لڑکی سے نکاح کردیا گیا اوررخصتی بھی ہوگئی۔
اس شادی میں باقی تو سب کچھ ٹھیک ہے مگر رخصتی نہیں ہونی چاہئے تھی۔ کیونکہ شب زفاف کی صبح کو جب دولہا برآمد ہوں گے تو دلہن کی یہ کیفیت ہوگی
دم رخصت وہ چپ رہے عابد
آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل
معصوم نابالغ لڑکیوں کے ساتھ زیادتیاں تو ہوتی ہی ہیں کہ اب معصوم کمسن لڑکوں کے ساتھ بھی یہ ستم کہ انہیں شادی سے پہلے شادی کے بندھن میں باندھ دیا گیا۔ وہ بھی کیا یادکریں گے کہ ان کی شادی ہوئی تھی۔ ہمارے عوام الناس اکثر یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ اس ملک میں کوئی قانون ہی نہیں لیکن وہ خود سے پوچھیں کہ ان کے اپنے گھروں میں کوئی قانون ہے؟
یہ دو نابالغوں کی شادی غیرقانونی، غیراخلاقی اور غیرجسمانی ہے۔ بس گڈی گڈے کابیاہ تھا سورچا لیا گیا اورستم ظریفی دیکھیں کہ ہزاروں افراد نے اس میں شرکت کی، ولیمہ کھایا اور کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ گویا فرعون بھی زندہ ہوتا شادی کرتا تو وہ اس کے ولیمے میں بھی شریک ہوتے۔ کیونکہ مقصد تو پلیٹ میں بوٹیوں کا ہمالہ کھڑا کرنا ہے جس کے لئے چاہے کسی بھی جائز ناجائز شادی میں شریک ہونا پڑے۔
گویا ایک ادارہ شادی کا بچا تھا وہ بھی بچوں کی نذر ہو گیا۔