ابھی عمران خان نے وزیراعظم کے عہدے کا حلف بھی نہیں اٹھایا اور نہ ہی وزیر خزانہ مقرر کیا ہے کہ بیرونی دنیا کی جانب سے پاکستان کو درپیش چیلنجوں اور خطرات نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے۔ چین کی جانب سے مبارکباد کے ساتھ دو ارب ڈالر کے اضافی قرضے کی اطلاع سے امریکی ڈالر کی شرح تبادلہ میں 5 روپے فی ڈالر کی کمی تو آگئی لیکن امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے یہ اعلان بھی کردیا کہ پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کے نئے ’’بیل آئوٹ‘‘ کے ساتھ یہ شرط ہونی چاہئے کہ آئی ایم ایف کے نئے 12ارب ڈالرز کے قرضے کی رقم کا ایک بھی ڈالر پاکستان چین کے قرضے کی ادائیگی کیلئے استعمال نہیں کرے گا گو کہ آئی ایم ایف کی ترجمان کا کہنا ہے کہ ابھی تک پاکستان کی جانب سے قرضہ کی درخواست موصول نہیں ہوئی لیکن قابل اعتماد ذرائع کہہ رہے ہیں کہ اگر سعودی عرب اور چین نے مدد نہ کی تو پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس ہی آنا ہوگا۔
انتخابی نتائج بارے امریکی میڈیا کی رپورٹس، ایڈیٹوریل بورڈز کے اداریے اور عالمی میڈیا کے تبصرے اور تجزیے بھی سامنے آچکے۔ اوورسیز پاکستانیوں میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے حامی اور فدائین کے ساتھ الیکشن کے نتائج اور ان کے جوش و خروش کے مناظر بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ نیویارک، نیوجرسی اور ٹورنٹو کینیڈا سمیت مختلف شہروں میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے جشن فتح کی ریلیاں بھی نکالیں۔ عمران خان کی عوام سے وعدوں پرمبنی موثر تقریر دلپذیر بھی بڑی توجہ سے سنی گئی الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے دوران اور نتائج میں بے قاعدگیوں اور دھاندلی کی شکایات، وڈیوز اور امیدوار احتجاج کرتے ہوئے ٹی وی چینلز نے دکھائے اور پھر الیکشن کمیشن کے ترجمان الطاف احمد کا موقف بھی سننے کو ملا۔ اسی دوران امریکی محکمہ خارجہ کا ابتدائی ردعمل بھی امریکی حکام سے ’’بیک گرائونڈ‘‘ کے طور پر جاننے کا موقع بھی ملا۔۔ مقام شکر ہے کہ مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور دیگر پارٹیوں کی قیادت نے مکمل بائیکاٹ کی بجائے احتجاج کرتے ہوئے فی الحال پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر مضبوط اپوزیشن کا رول ادا کرنے کا فیصلہ کرکے دانشمندی کا فیصلہ کیا ہے اور شکایت کے باوجود نظام کے اندر رہ کر اپنی شکایات کا ازالہ تلاش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعلان کردہ نتائج کے مطابق اب عمران خان ملک کے نئے وزیراعظم کی ذمہ داریاں سنبھالنے والے ہیں۔ اب ان کا لب و لہجہ بھی مصالحت آمیز ہے اور سیاسی مخالفین کو یاد دلایا جارہا ہے کہ تحمل، برداشت، امن اور قوانین کی حدود میں رہ کر اپنا رول ادا کریں گویا وہ طریقے، زبان اور رویے نہ اختیار کریں جو گزشتہ تین سال سے عمران خان اور تحریک انصاف نے اپنائے رکھے۔ بہرحال اب عمران خان اس ملک کے نئے طاقتور حکمران کے طور پر اپنے کئے ہوئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کا موقع حاصل کرچکے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ وہ وفاق کی سطح پر مضبوط اپوزیشن کا سامنا کس طرح کرتے ہیں اور ان کے مقرر کردہ صوبائی وزرائے اعلیٰ کا انداز حکمرانی کیسا ہوگا۔ عمران خان اور ان کے کئی ساتھیوں نے ا لیکشن جیت کر ’’اوورسیز پاکستانیوں‘‘ کے حقوق کا ذکر بھی کیا ہے۔ ملک کو درپیش معاشی سیاسی اور دیگر داخلی مسائل کے بارے میں تو جلد ہی حقائق سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ مضبوط اپوزیشن بھی اب اپنی ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکے گی ہاں! الیکشن کمیشن کی کارکردگی اور اس بارے جانبداری، دھاندلی اور بے قاعدگیوں کے الزامات نے نہ صرف انتخابات کے بارے میں عوام میں عدم اعتماد، بددلی اور شکوک و شبہات پیدا کردیئے ہیں وہ اب الیکشن کمیشن کی تفصیلی وضاحتوں سے دور نہیں ہوسکیں گے۔ گورنر سندھ کے استعفیٰ اور الزامات بھی باعث تشویش ہیں لہٰذا الیکشن کمیشن کی کارکردگی کے بارے میں اعلانیہ تحقیقات اور نتائج کو سامنے لانا اس لئے ضروری ہے تاکہ عوام میں انتخابی عمل کے بارے میں اعتماد پیدا ہو اور شکوک و شبہات دور ہوسکیں۔ اب آئیے ان چیلنجز کی جانب جو عمران حکومت کو بیرونی دنیا کے محاذ پر درپیش ہوں گے۔
(1)بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے مبارکباد، چینی سفیر کی ملاقات و مبارکباد، امریکی محکمہ خارجہ کا ابتدائی بیان اپنی جگہ لیکن امریکی اور مغربی میڈیا میں ان کے اقتدار میں آنے پر عمران خان کے بارے میں بعض رپورٹیں اور اداریے شکوک و شبہات کا تاثر لئے ہوئے ہیں۔ امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ اور ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے اداریے عمدہ مثال ہیں۔ ایسے وقت میں کہ جب ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کے حکام خود طالبان کے ساتھ ملاقات و مذاکرات کا سلسلہ جاری کئے ہوئے ہیں۔ ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کا اداریہ عمران خان کو طالبان کے حامی قرار دے رہا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی عمران خان کو مبارکباد دینے والوں میں سب سے پہلے غیرملکی سربراہ ضرور مگر خطے میں موجودہ ہمسائے افغانستان اور بھارت ہی عمران خان کیلئے سب سے بڑے بیرونی چیلنجز ہیں جن سے ڈیل کرنے کیلئے غیرمعمولی صلاحیت اور جرأت مند ڈپلومیسی کی شدید ضرورت ہے۔ ہماری وزارت خارجہ کے نوجوان افسروں میں تخلیقی ڈپلومیسی اور صلاحیتوں کی کمی نہیں۔ ہاں جب ان کی صلاحیتوں اور کارکردگی کو ’’اوپری‘‘ احکام و حدود کا پابند کردیا جائے تو پھر کسی سے کیا شکوہ؟
(2)عمران خان حکومت کی نیوکلیئر پالیسی کیا ہوگی؟ امریکہ اور بھارت بارے پالیسی میں کونسی اور کیسی تبدیلی ہوگی جو پاکستان کو عالمی برادری میں فعال بناسکے؟ ہمسایہ ایران کے امریکہ سے تعلقات میں ایک بار پھر کشیدگی بڑھ رہی ہے دھمکیوں کا سلسلہ دونوں طرف سے جاری ہے۔ خطے کی نازک صورتحال کے پیش نظر عمران حکومت کو افغانستان، بھارت ایران کی صورتحال سے ڈیل کرنے کیلئے بھی ابتدائی 100 دنوں کا ایک پلان بنانے کی ضرورت بھی ہے تاکہ حالات کا ادراک کرکے اسٹرٹیجی اور ڈپلومیسی کی سمت متعین ہوسکے۔ گزشتہ سالوں میں وزارت خارجہ کسی متحرک وزیر خارجہ کے بغیر ہی کام کرتی رہی ہے۔
(3)چین پاک تعلقات کی سمت اور متعدد ٹارگٹ پہلے سے طے ہوچکے ہیں۔ عمران خان کو اس کی گہرائی اور گیرائی سے واقف ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو درپیش معاشی مسائل کے حوالے سے شنید ہے کہ چین کی جانب سے دو ارب ڈالرز تک کی امداد ملنے کا امکان ہے۔
چین کو پاکستان کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جس سیاستدان کے اسلام آباد میں دھرنا کے باعث چینی صدر کا دورہ اسلام آباد ملتوی کرنا پڑا چین اسی پاکستانی سیاستدان سے خوش اخلاقی اور دوستانہ انداز میں حکومتی تبدیلی کے طور پر سلوک کررہا ہے۔
(4)آئی ایم ایف پر امریکی اثرورسوخ اور اس کے 17فی صد کنٹرول کے مضمرات اسد عمر سمیت مالی اور معاشی دنیا کے ماہرین بخوبی جانتے ہیں نجی طیاروں کی خصوصی پروازوں کے ذریعے اپنے سیاسی مخالف اور آزاد منتخب اراکین اسمبلیوں کو لانے لے جانے اور نوازشات کی بارش اور خریداری کے شاہانہ ہجوم میں جاوید میانداد کی تلخ باتوں اور آنسو نکلنے کے منظر پر بھی نظر ڈال کر سوچ اور فکر کی تبدیلی بارے سوچ لیا جاتا تو اس سے غریب عوام عمران خان کی موثر تقریر کی طرح اس کا بھی اچھا تاثر لیتے۔ ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے، بڑھنے والی مہنگائی تلے پسے ہوئے عوام پر حکمرانی کی کوشش میں سیاسی وفاداریوں کی یہ خریداری بیرونی جمہوری دنیا کو بہت کچھ بتاتی ہے۔ اگر امریکی لابنگ کا جواز اور نقل کرنا ہی ماڈرن اور جمہوری فیشن ہے تو امریکہ میں ’’لابنگ‘‘ کے قوانین اور ضابطے بھی پڑھنے سے جمہوریت اور غریب عوام کا بہت بھلا ہوگا۔ آئی ایم ایف سے 12ارب ڈالرز کے نئے قرضوں کا ’’بیل آئوٹ‘‘ پیکیج مانگنے کی درخواست لیکر امریکہ آنے والے نئی حکومت کے نمائندے سعودی اور چینی حکومتوں کی جانب سے مزید امداد کی کوشش کرکے آئی ایم ایف کے لئے پیکیج میں کمی کرلیں تو زیادہ بہتر شرائط کیلئے مذاکرات میں سہولت ہوگی۔ گو کہ اس پیکیج کیلئے بظاہر عمران خان حکومت ذمہ دار نہیں لیکن 126 دن کے دھرنا اور انتقامی سیاست سے پاکستانی معیشت کو ہونے والے نقصان کی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت دونوں ہی ذمہ دار ہیں۔
(5)امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے تازہ بیان کا مطلب واضح ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے 12ارب ڈالرز کا نیا پیکیج وضاحتوں اور سخت شرائط کے ساتھ بھی آسانی سے نہیں ملے گا۔ جس کیلئے امریکیوں سے رابطے کرنا ہوں گے۔
(6)عمران خان کے پرانے سیاسی ساتھی اور وزیراعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف نعیم الحق کئی سال تک نہ صرف نیویارک میں رہ چکے ہیں بلکہ وہ پچھلے کافی عرصہ سے عمران خان اور امریکیوں کے درمیان ملاقات و مذاکرات میں موثر رابطے کا ذریعہ بھی رہے ہیں۔ نعیم الحق غیرسرکاری اور بیک ڈور چینل پر امریکی حلقوں سے ڈائیلاگ اور روابط کیلئے وہ موثر رول ادا کرسکتے ہیں۔ سرکاری سطح پر وزارت خارجہ اپنا رول ادا کرتی رہے۔ اگر امریکہ بھارت کے نریندر مودی کو دہشت گردی کے شبہ پر کئی سال تک امریکی ویزے انکار کے بعد بھی بھارت کا وزیراعظم بننے پر امریکہ کے دورے، شاندار استقبال اور خطے میں امریکہ، بھارت اتحاد قائم کرسکتا ہے تو عمران خان کو طالبان کے حامی ہونے کے تاثر کو بھی دور کرایا جاسکتا ہے۔
(7)ان تمام چیلنجز کے ساتھ ساتھ پاکستان سے باہر کی دنیا میں عمران خان کو ایک بہت بڑا سیاسی اور ذاتی اثاثہ میسر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں میں عمران خان نہ صرف بے حد مقبول ہیں بلکہ ان کی کامیابی کیلئے انہوں نے فنڈز، حمایت اور گرم جوشی سے کام لیا ہے۔ اگر وزیراعظم عمران خان اوورسیز پاکستانیوں سے رابطے اور اپیل کرکے بینکوں اور سرکاری ذرائع سے زرمبادلہ پاکستان میں لواحقین کو بھجوانے اور سرمایہ کاری کیلئے زور دیں تو پاکستان کیلئے زرمبادلہ کے میدان میں بڑی آسانی ہوسکتی ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)