دنیا بھر کی خواتین زمین سے لے کر افق تک ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں۔ خواتین میں بڑھتی خواندگی کی شرح اورا ن میں بڑھتے اعتماد اور جوش وجذبے کے سبب افق کو چھونا بھی عام سی بات تصور کیا جانے لگا ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں موجود خواتین اپنے ملک کے دفاع میں مردوں سے کسی طور پیچھے نہیں، اب وہ وقت گزر گیا ہے جب بیٹیوں کے لیے باربی اور بیٹوں کے لیے جہاز خریدے جاتے تھے۔
آج کی عورت ہر اس شعبے میں مثال بن کر ابھر رہی ہے، جو کبھی مردوں کے لیے مخصوص تھا۔ ہم بات کررہےہیں خواتین فائٹر پائلٹ کی، آج کے دور میں پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی خواتین اس شعبہ میں مردوں کے ہم قدم ہیں۔ اس شعبہ میں شمولیت کے لیے سخت سے سخت ٹریننگ سے گزرنا اور اپنوں سے دوری اختیار کرنا پڑتی ہے مگر پھر بھی یہ نڈر خواتین کسی طور پیچھے نہیں ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے لے کر آج تک دنیا بھر میں خواتین فائٹر پائلٹ دشمن کے خلاف لڑائی میں حصہ لے رہی ہیں۔ کامیابی اور بہادری کی بلندیوں کو چھونے والی یہ خواتین ، خواہ ان کا تعلق دنیا کے کسی بھی ملک سےہو،اپنی مٹی کا وقار بہر طور بلند کیے ہوئے ہیں اور کرتی رہیں گی۔ آج ہم کچھ ایسی ہی خواتین فائٹر پائلٹ کا ذکر کرنے جارہے ہیں، جنہوں نے دنیا کو خواتین سے متعلق ایک نئی سوچ اورنئی تبدیلی سے ہمکنار کرایا ہے۔
عائشہ فاروق (پاکستان)
2013ء میں پاکستان کی نڈر بیٹی، باہمت اور نڈر عائشہ فاروق نے26سال کی عمر میں دفاع وطن کےلیے پاک فضائیہ کی پہلی خاتون جنگجو پائلٹ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ عائشہ فاروق کا تعلق صوبہ پنجاب کے جنوبی ضلع بہاولپور سے ہے۔ قوم کی اس بیٹی پرہر شخص کو ناز ہے، جس کا شمار گزشتہ دہائی میں فضائیہ کی پائلٹ بننے والی25خواتین میں ہوتا ہے اور اس کے باعث بھارتی میڈیا بھی پاکستان کی برتری ماننے پر مجبور ہوا ۔
اوانی چترویدی (بھارت)
پاک فوج کی جانباز خواتین فائٹر پائلٹ کی بہادری کا اعتراف کرنے والے بھارت میں پاکستان کی دیکھا دیکھی تین سال بعد2016ء میں اپنےملک میں بھی ایسی ہی تاریخ رقم کی، جس کے تحت اوانی چترویدی سمیت بھاونا کانتھ اور موہنا سنگھ کو پہلی مرتبہ ہندوستانی فضائیہ کی خاتون پائیلٹس بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس دن ہندوستان کی مسلح افواج میں قدم بہ قدم جنسی امتیاز کو ختم کرتے ہوئے پہلی بار مسلح افواج میں مردوں کے علاوہ عورتوں کو بھی بطور فائٹر پائلٹ منتخب کیا گیا۔
نیلوفر رحمانی (افغانستان)
نیلوفر رحمانی افغانستان کی تاریخ کی پہلی خاتون ہے جو طالبان کے دور حکومت کےخاتمے کے بعدبطور فائٹر پائلٹ مقرر کی گئی۔2015ءمیں نیلوفر رحمانی کوامریکی محکمہ خارجہ نےباہمت خواتین کےبین الاقوامی ایوارڈ کے لیے منتخب کیا۔ صرف یہی نہیں، نیلوفر رحمانی نےسماجی ذرائع ابلاغ پر’’افغان ٹاپ گن‘‘ کاخطاب پایا۔ کابل میں پرورش پانے والی نیلوفر رحمان کے لیے مشکلات اور خطروں کے باعث بطور پائلٹ کیریئر بنانا آسان نہیں تھا لیکن کہتے ہیں ناکہ لگن رکھنے والوں کےلیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔ نیلوفر 2010ء میں ایئرفورس کے ایک تربیتی پروگرام میں شامل ہوئیںاور جلد ہی افغانستان کی تاریخ بدل دی۔
یوزو (چین)
یوزو کو چین کی پہلی فائٹر پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ساتھ ہی یوزو کو اپنے وطن کی خاطر جان قربان کرنے والی پہلی خاتون لڑاکا پائلٹ ہونے کے طور پر بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔30سالہ یوزو، چین کے صوبے سچوان کے دارالحکومت میں پیدا ہوئی اور2004ء میں یوزونے ائیر فورس میں بھرتی ہونے کے لیے اپلائی کیا اوراس کے پانچ سال بعد2009ءمیں چینی خواتین کے لئے قابل قدر مثال بن گئی، جب اسے چین کی پہلی 16خواتین پائلٹس میں شامل کر لیا گیا۔ یوزو نےاپنی سروس کے دوران کئی خطرناک فضائی آپریشن میں شرکت کی اور مرد پائلٹس کو اپنے جوہر سے حیران کیا۔ چینی ائیرفورس کی 67ویں سالگرہ کے ٹھیک ایک دن بعد یوزو اپنی معمول کی پریکٹس کے دوران طیارہ کریش ہونے کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں۔
للیا لٹوہک (روس)
دنیا بھر میں خواتین فائٹر پائلٹ کے طور پر اپنی جرأت اور صلاحیتیں منوانے کا آغاز دوسری جنگ عظیم کے دوران روس سے ہوا۔ جون 1941ءمیں دوسری جنگ عظیم کے دوران جب جنگی جنون میں مبتلا ہٹلر نے ماسکو پر حملہ کیا تو اس وقت للیالٹوہک نے پہلی مرتبہ رشین ائیرفورس میں اپلائی کیا۔ للیا کی یہ خواہش اس وقت پوری نہ ہوسکی لیکن للیا نے ہمت نہ ہاری اور کوشوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ آخر کار1942ءمیں روس کی فضائی فوج کی ہونہار فائٹر پائلٹ نامزد ہوکرللیا نے بچپن سے دیکھا پائلٹ بننے کااپنا خواب پوراکرلیا۔ للیا نے ائیرفورس میں شمولیت کے بعد سے اپنی موت تک 66کامیاب مشن مکمل کیے اور روس کی یہ بیٹی 1943ءمیں وطن کی خاطر جان قربان کرنے میں کامیاب ہوگئی۔