• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں اِنتخابات کے بعد حکومت کی تشکیل سمیت مستقبل قریب میں رونما ہونے والی تمام ممکنہ سیاسی تبدیلیوں پر اَندرون ملک قیاس آرائیوں کا جاری رہنا فطری بات ہے۔ لیکن اِس معاملے میں بے چینی اور تذبذب سرحد کے اُس پار بھی کچھ کم نہیں۔ ہندوستانی نیوز میڈیا پر اِن دنوں اُٹھایا جانے والا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ عمران خان کے پردھان منتری بن جانے کی صورت میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات کیسے رہیں گے۔
بھارت میں پرنٹ کی طرح الیکٹرانک نیوز میڈیا بھی اَپنے حجم اور وسعت کے لحاظ سے دُنیا میں صف اوّل کی نیوز انڈسٹری میںشمار ہوتا ہے۔ شاید اِسی لئے بہت سے بھارتی شہریوںنے اَپنے ملک کے ساتھ ساتھ یورپ اور شمالی امریکہ میں بھی نیوز میڈیا میں شہرت حاصل کی۔ لیکن عجیب بات یہ کہ ہندوستانی صحافی، تجزیہ کار اور خاص طور پر اینکرز پیشہ ورانہ شہرت رکھنے کے باوجود پاکستان سے متعلق مباحثوں میں کچھ کہتے یا سنتے ہوئے ضرورت سے زیادہ جذباتی اور جارحانہ سا انداز اپنا لیتے ہیں۔ اگرچہ یہ معمہ اَبھی تک حل نہیں ہوسکا ہے کہ آیا بھارتی اینکرز یہ انداز پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے اِختیارکرتے ہیں یا پاکستان دشمنی میں؛ لیکن اِن سے بات کرنے کے دوران سمجھ بوجھ رکھنے والے پاکستانی صحافی و تجزیہ کار بھی شاید غصے میں آکر فون بند کرنے یا پھر اِنہی کے انداز میں جواب دینے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ بھارتی اینکرز پر یہ خاص کیفیت عموما ًدونوں ملکوں میں کشیدگی بڑھنے پر طاری ہوتی ہے۔اِن دنوں بھی عمران خان کے وزیر اعظم بن جانے کے روشن امکانات ہندوستان سے دوطرفہ تعلقات سے متعلق بھارتی خدشات کو غیر ضروری طور پر ہوا دے رہے ہیں ۔ بس اِس بار فرق یہ ہے کہ ماضی کے بر عکس فی الحال کسی پاکستانی تجزیہ کار سے یہ بھارتی اینکرزسوال پوچھ لینے کے بعد کسی حد تک جواب سن لینے کی مہربانی ضرور فرمانے لگے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ یہ سلسلہ مستقبل قریب میں بھی اِسی طرح ٹھیک ٹھیک چلتا رہے ۔
پولنگ والے دِن معروف ہندوستانی اینکر سدھیر چوہدری اپنے چینل پر ریحام خان سے براہ راست گفتگو کے دَوران کپتان سے متعلق سوالات پوچھ کر پاک بھارت تعلقات کے مستقبل کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے رہے۔ بعد اَزاں اُ نہوں نے راقم سے سوال کیا کہ کیا عمران خان بحیثیت پاکستانی وزیر اعظم، ہندوستان کے دوست ثابت ہوسکیںگے ؟ اب مجھے اِس سوال کا جواب دینا تھا لیکن پہلے میں اِس معاملے پر اپنا ذاتی نقطہ نظر تفصیل سے بیان کرتا چلوں۔
عمران خان بحیثیت کرکٹر دوستوں کی طرح میرے بھی پسندیدہ ترین کھلاڑی رہے ہیں ۔ اِسکول کے دَور سے ہی کپتان کے کرکٹنگ سینس (Cricketing Sense) ، اِن کا رَن اَپ (Run-up) اور اِن کی دلکشی پر ہر میچ اور سیریز کے دوران خوب غور و خوض ہواکرتاتھا۔ پھر سال 1992کے ورلڈکپ میں کامیابی کے بعد اَسپتال کی تعمیر کے لئے اِن کی کوششوں کی خبریں سننے کو ملتی رہیں۔ اندازہ ہوا کہ کپتان کے ہندوستان میں اُس وقت تعلقات پر بلاشبہ نیاز اے نائیک جیسا ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا ماہر شخص بھی حیران ہونے سے زیادہ رشک میں مبتلا ہوسکتاتھا ۔ دلیپ کمار سے لیکر عامر خان تک شاید ہی کوئی بڑا بالی وڈ اداکار عمران خان کے خاص حلقہ احباب میں شامل نہ ہو۔ سنیل گو اسکر، نوجوٹ سِدّھو اور کپل دیو جیسے بھارتی کھلاڑیوں سے اِن کے تعلقات بہت پرانے ہیں۔کپتان کی جانب سے اِن تینوں حضرات کو تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دانشمندانہ قدم ہے۔
عمران خان کے اسپتال کی تعمیر کے لئے بالی وڈ اداکاروں اور اداکارائوں کی دلچسپی زیادہ تر پاکستانیوں کے لئے حیران کن تھی۔ لیکن یہ عمر ان خان کا ہی کمال تھا کہ ہندوستان اور ہندوستانیوں سے اتنے قریبی اور گہرے تعلقات رکھے رہنے کے باوجود پاکستان میں کسی بھی شخص نے اِن کی حب الوطنی پر کبھی اُنگلی نہیں اٹھائی۔یہ سچ ہے کہ جہاں تک حب الوطنی کا معاملہ ہے ، بلاشبہ آج بھی اُن کی شخصیت کسی بھی قسم کے شکوک و شبہات سے بالا تر ہے۔
ہندوستان سے کپتان کی قربت کا تیسرا پہلو بیان کرنے میں عمومی طور پر زبان اور اندازِ بیان میں کمال مہارت ضروری ہے۔ لہذا سدھیر چوہدری کے مذکورہ سوال کا جواب دیتے ہوئے جب میں اِس پہلو تک پہنچا تو سدھیر نے اَپنی روایتی سمجھ داری کے ساتھ اَگلا سوال پوچھ کر گفتگو آسان کردی ۔ یوں میری جانب سے کسی حد تک واضح ہوگیا کہ عمران خان کے پردھان منتری ہوتے ہوئے ہندوستان سے تعلقات میں بہتری کے بہت سے دروازے کھل سکتے ہیں۔
اِس وقت نئی حکومت کی تشکیل ملک میں آگے بڑھتے ہوئے سیاسی عمل کا اَ ہم ترین مرحلہ ہے۔ لیکن انتہائی متوقع وزیر اعظم ہوتے ہوئے اُمید ہے کہ عمران خان اِن دنوں بھی اپنے مشیروں سے چند بنیادی اور حساس معاملات میں مستقل صلاح و مشورے کررہے ہوں گے۔ اِن میں توانائی، ترقیات، تعلیم اور صحت سے متعلق بنیادی سہولتوں کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی ایک اِنتہائی اَہم شعبہ ہے۔ خاص طور پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے تناظر میں نئی اور موثرخارجہ پالیسی پاکستان کی اوّلین ضرورت ہے۔ ہندوستان سے سفارتی معاملات کا بھی کم از کم اِس حد تک سازگار ہونا ضروری ہے کہ سرحدوں پر امن کے ساتھ ساتھ دو طرفہ تجارت میں بہتری اور سرحد کے دونوں جانب شہریوں کی آمد رفت کم خرچ اور آسان ہوسکے ۔دو طرفہ بات چیت میں کشمیرکے معاملے کو شامل کروالینا بھی اگرچہ ایک بڑا کام ہوگا لیکن بااثر ہندوستانی شخصیات سے عمران کے دیرینہ تعلقات اور ہندوستان میں اِن کے اثرورسوخ اِن معاملات کویقیناََآسان بناسکتے ہیں ۔ اِن کے لئے ٹریک ٹو پالیسی کی بحالی اوراِس کا فروغ بھی ماضی کے کسی بھی ہندوستانی و پاکستانی حکمران یا ڈپلومیٹ کے مقابلے میں کہیں زیادہ آسان ہوسکتا ہے۔ کپتان بلا شبہ برصغیر کی واحد شخصیت ہیں جن پر سرحد کے دونوں جانب لوگ اندھا اعتبار کرتے ہیں۔
انتخابات کے بعد کپتان کا قوم سے پہلا براہ راست خطاب ہر خاص و عام میں سراہا گیا اور آج بھی گلی کوچوں میں اِس کا چرچہ ہے۔ اِس خطاب میں بھی کپتان نے کم و بیش یہی بات دہرائی تھی کہ وہ ہندوستان سے سب سے زیادہ قریب رہنے والے پاکستانی ہیں۔البتہ جہاں تک کپتان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کے تیسرے پہلو کا تعلق ہے، تو سدھیر چوہدری کو ہکلاتے ہوئے بیان کی گئی بات ایک زمانے میں انور مقصود صاحب نے زبان پر عبور کے سبب انتہائی مہارت کے ساتھ بیان کردی تھی۔ ہندوستان کے دورے پر جانے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم کو دعا دیتے ہوئے اُنہوں نے کچھ یوں کہا کہ،’’خدا عمران کی ٹیم کی زینت کو ہمیشہ اپنی امان میں رکھے، آمین۔‘‘
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین