• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابات تو ہو گئے۔ آہستہ آہستہ ہی سہی، نتائج بھی سامنے آگئے۔ اب ان نتائج کے نتائج بھی مرتب ہونے لگے ہیں۔ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ یہ نتائج قوم و ملک کیلئے کچھ زیادہ خوشی کا باعث نہ ہونگے۔ نہ ہی سو سو جتن کر کے اقتدار تک پہنچنے والی تحریک انصاف کیلئے زیادہ حوصلہ افزا ہونگے۔ تقریباََ دس دن گزر جانے کے بعد دکھائی دینے لگا ہے کہ پنجاب اور مرکز میں پی۔ٹی۔آئی کو حکومت سازی کیلئے مطلوبہ ارکان کی تعداد مل گئی ہے۔ یہ الگ کہانی ہے کہ اس تعداد کے حصول کیلئے اسے کن رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہ بھی ایک الگ قصہ ہے کہ اسے اس نمبر گیم کو برقرار رکھنے کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی اور خود اپنے اندر سے کیسی کیسی بغاوتوں کا سامنا ہو گا۔عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا، سیاست کو روایتی جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور موروثی سیاستدانوں سے نجات دلانے کی بات کی، " صاف چلی شفاف چلی" کا نعرہ لگاتے ہوئے تحریک انصاف کو قومی سیاست کی روایتی خرابیوں سے نجات دلانے کی تحریک قرار دیا۔ لیکن اب تک کا سفر ان دعوئوں کی تصدیق نہیں کرتا۔ اپنے کچھ دعوئوں کو انہوں نے گزشتہ پانچ سالہ اپوزیشن کے دوران دفن کر دیا۔ کچھ بڑے بڑے دعوے عین الیکشن سے پہلے روند ڈالے، جب انتخابی مصلحتوں کا سہارا لے کر ایسے الیکٹ ایبلز (electables) کو گلے لگا لیا جو اچھی شہرت کے مالک نہ تھے۔ کچھ دعوے انتخابی نتائج کے بعد حکومت سازی کی نمبر گیم کی بھینٹ چڑھ گئے۔ جو تھوڑے سے بچے ہیں وہ بھی شدید خطرے میں نظر آرہے ہیں۔ کیونکہ مرکز میں انکی حکومت بے حد کمزور ہو گی۔ اتنی کمزور کہ وہ روز مرہ کے کام چلانے کیلئے کوئی عام سا قانون بھی نہیں بنا پائے گی۔ اسکے لئے اسے اپوزیشن کا سہارا درکار ہو گا۔ انتہائی کم اکثریت سے بنی حکومت (جس میں بھانت بھانت کی جماعتیں شامل ہوں) خود اپنے وجود کو قائم رکھنے کو پہلی ترجیح بنانے پر مجبور ہو گی۔ ایسے میں کونسی تبدیلی اور کیسا انقلاب؟
تحریک انصاف مانے نہ مانے، ایک بات تو اب خلق خدا کی زبان پہ ہے کہ کم از کم پولنگ کے بعد گنتی کا عمل ہر گز شفاف نہیں رہا۔ یہ بات ان غیر ملکی اور ملکی مبصرین نے بھی کی ہے جنہوں نے پولنگ کے عمل کو مثبت قرار دیا ہے۔ اب اس امر کی با ضابطہ تحقیق کا کہا گیا ہے کہ ترسیل نتائج کے نظام یعنی RTS کے فیل ہو جانے کی تفتیش کی جائے۔ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر سسٹم فیل ہو گیا تھا تو بھی گنتی کا عمل(قانون کےمطابق) پولنگ اسٹیشنوں پر ہی، پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں کیوں مکمل نہ کیا گیا؟ قواعد کے مطابق فارم 45 پولنگ اسٹیشنوں پر ہی پر کر کے متعلقہ پولنگ ایجنٹوں کے حوالے کیوں نہ کئے گئے؟ 2013 میں کوئی RTS نہ تھا، لیکن تمام پولنگ اسٹیشنوں پر اگلی صبح طلوع ہونے سے پہلے پہلے نتائج مرتب کر لئے گئے اور گنتی کا دستخط شدہ سرٹیفکیٹ امیدواروں کے ایجنٹس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اس بار ایسا کیوں ہوا کہ چار دن تک نتائج کی آمد کا سلسلہ جاری رہا؟ ایسا کیوں ہوا کہ پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال دینے اور مصدقہ فارم 45 نہ دینے کی شکایات ملک کے طول و عرض کے تقریباََہر حصے سے آئیں؟ ایسا کیوں ہے کہ جہاں جہاں دوبارہ گنتی ہو رہی ہے، نتائج تبدیل ہو رہے ہیں؟ یعنی جیتنے والے ہار گئے اور ہارنے والے جیت گئے ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ کئی علاقوں سے مہر شدہ بیلٹ پیپرز کچرے کے ڈھیروں سے مل رہے ہیں، جنہیں جلانے کی کوشش کی گئی؟ ایسا کیوں ہے کہ بہت معمولی فرق سے ہارنے والے امیدواروں مثلاََ شہباز شریف اور خواجہ سعد رفیق کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی نہ ہو سکی ؟اور ایسا کیوں ہے کہ کراچی سمیت جہاں جہاں سے بھی کچرے کے ڈھیروں سے جلے ہوئے یا پھاڑے گئے بیلٹ پیپرز ملے، وہ سارے کے سارے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کے ووٹ ہیں؟ سوالات لا تعداد ہیں۔ یہ سوالات جواب چاہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے تمام تر رکھ رکھائو کو نظر انداز کر کے اپوزیشن کے مطالبے کی "مذمت" کی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اتنا تو دیکھیں کہ انکی میڈیا ٹیم میں کس اہلیت کے لوگ بیٹھے ہیں جنہیں اتنا بھی شعور نہیں کہ قومی قیادت کے کسی مطالبے پر با وقار ملکی ادارے کا رد عمل کتنا محتاط اور نپا تلا ہونا چاہیے۔
نتائج کا ایک بڑا نتیجہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ایک دوسرے سے شدید اختلاف رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے باہمی رنجش ایک طرف رکھتے ہوئے" متحدہ حزب اختلاف" کی شکل اختیار کر لی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پختونخواملی عوامی پارٹی نے ایک مشترکہ ایکشن کمیٹی بھی بنا لی ہے جو آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔ طے پا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) وزارت عظمیٰ، پیپلز پارٹی اسپیکر اور متحدہ مجلس عمل ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب لڑے گی۔ ایسی ہی اطلاعات مشترکہ صدارتی امیدوار کے حوالے سے بھی آرہی ہیں۔ ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آیا چاہتی ہے۔ایسی صورت میںمتحدہ حزب اختلاف اپنا چیئرمین لانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ یہ سارا منظر نامہ بتا رہا ہے کہ عمران خان کو سیاسی طور پر کتنے سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان میں وہ چیلنجز بھی شامل کر لیجئے جو" نمبر گیم" کی خاطر جمع کئے گئے بھان متی کے کنبے کی طرف سے درپیش ہونگے اور انکو بھی جو مختلف عہدوں پر نظریں جمائے خود انکے اپنے لوگ پیدا کریں گے۔
خان صاحب نے الیکشن سے کچھ ہی دن پہلے کہا تھا کہ اگر وہ تن تنہا، وفاق میں ایک موثر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ آئے تو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کو ترجیح دینگے۔ ایسا نہ ہوا۔ محض سادہ اکثریت کیلئے انہیں ایم ۔کیو۔ایم، اور مسلم لیگ(ق) سے بھی معاملات طے کرنا پڑے۔ان دونوں جماعتو ں کے بارے میں انکے " ارشادات" پوری گھن گرج کیساتھ موجود ہیں اور مسلسل میڈیا کی زینت بنتے رہیں گے۔ اسی کھیل میں انہوں نے آزاد ارکان کو بھی جہازوں میں لاد لاد کر بنی گالا جمع کیا۔ یہ پرانے پاکستان کے وہ افسوسناک مناظر ہیں جنہیں ہم بہت دور چھوڑ آئے تھے۔ اس وقت اس کھیل کو ــ "ہارس ٹریڈنگ" کا نام دیا جاتا تھا۔ نئے پاکستان میں شاید اسکا نام کچھ اور رکھ دیا جائے لیکن حقیقت اپنی جگہ موجود رہے گی۔ سنا ہے کہ اب اپنی اکثریت کو مستحکم رکھنے کیلئے مسلم لیگ(ن) میں ایک فارورڈ بلاک بنایا جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو خان صاحب کی حکمرانی کا سفر ایسی تبدیلیوں سے شروع ہو گا جو برسوں سے ہماری سیاسی تاریخ کے ماتھے کا سیاہ داغ ہیں۔
اور" تبدیلی ـ" کے سفر پر نکلنے سے پہلے خان صاحب کو یہ بھی ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ نوازشریف کی کردار کشی کا مقصد(بلکہ ٹاسک) پورا ہو چکا۔ میڈیا کی دکان، کسی حکومت کے "کارناموں " سے نہیں، اپوزیشن کے ہلے گلے سے چلتی ہے۔ انہیں اب دل بڑا کرنا ہو گا۔ اپوزیشن میں انکے ہاتھ پائوں بھی آزاد تھے اور زبان بھی۔ اب یہ سب کچھ انکے حریفوں کے پاس ہے اور ان حریفوں کا لشکر کوئی چھوٹا لشکر نہیں۔ انکی حکومت کا آشیانہ ، نہایت ہی کمزور سی شاخ نازک پہ بن رہا ہے۔ نواز شریف حکومت تو پانچ سال تک بڑی بڑی طوفانی آندھیاں برداشت کر گئی، آپکی شاخ نازک شاید ہوا کا معمولی سا جھونکا بھی نہ سہ سکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین