• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا مسافر تھے، جو اس راہ گز سے گزرے

درختوں پر لٹکتی لاشیں ، سڑکوں پر سسکتی ،تڑپتی جانیں، حد نگاہ سروں کا ڈھیر ، زمین کا چپہ چپہ خون سے لت پت، سرِبازار عصمتیں تارتار، گھر زنداں ، بازار مقتل،بے گور وکفن پڑی نعشیں ، قید و بند کی صعوبتوں کو خوش آمدید کہتے مجاہدین، تختہ دار پر انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے شہداء،ایسے طوفانِ بلا خیز ظلم وستم سے گزرنے کے بعد ملک کی پیشانی پر ’’آزادی ‘‘کا ستارہ چمکا تو ظلمتوں، غموں، بے قراریوں ، خوف وہراس کے کالےبادل چھٹ چکے تھے ، گوری چمڑی والے اپنی بساط لپیٹ چکے تھے۔

غموں کے طوفان سے خوشی و مسرت کے آبشار ، رنجیدہ ماحول میں چشمے ابل رہے تھے ، مایوس و پژمردہ تن ، لہلاتے وطن کے گیت گارہے تھے، ہر اس ذی روح کو ملک کا چپہ چپہ سلام کررہاتھا ،جس نے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔کیا کیا نہیں کیا انگریزظالموں نے ، اس خونچکاں داستاں کو بیان کرنے کے لئے کئی جلدیں درکارہیں۔ ملک کا ذرہ ذرہ ان کے ظلم و بربریت کی گواہی دے رہاہے،نام نہاد جمہوریت کے چمپئین ، امن کے بہروپیوں نےجو دست درازی اور لوٹ مار ، قتل و غارت گری مچائی، اس سے ان کے اصلی چہرے بے نقاب ہوگئے ۔ وطن کے خزانوں کو لوٹنے ،والوں نے نت نئے ہتھکنڈے اختیارکیے ، غریب ، لاچارکسانوں کا خون چو س چوس کر اپنے ملک کی تجوری بھرتے رہے ۔ اور جب وطن کے متوالے ، مولانا حسرت موہانی نے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگایا تو انگریزوں کی روح کانپ اٹھی اور وہ بھگوڑے بھاگ کھڑے ہوئے۔

ہندوستان کی دولت و حشمت جو کچھ کہ تھی کافر فرنگیوں نے بتدریج کھینچ لی

ہر سال جب بھی یوم آزادی کے متعلق تقریبات کا انعقاد کیا جاتاہے وہاں برائے نام ایک یا دو مسلمانوں کانام لے کر بہلانے کی کوشش کی جاتی ہے، ملک کی سالمیت، یک جہتی ، بھائی چارگی ، امن و آشتی کے لئے ضروری ہے کہ نئی نسل کو جنگ ِ آزادی کی حقیقت سے واقف کرایا جائے ۔ نئی نسل ایک طرح سے احساسِ کمتری میں مبتلا ہے کہ ہمارے اسلاف نے آزادی کے لئے کچھ کیا بھی ہے یا نہیں؟۔ ان کوبتائیں کہ جنگ ِ آزادی میں کروڑوں مسلمانوں نے نہ صرف بنفس نفیس شرکت کی بلکہ دوسروں کے پسینہ سے زیادہ اپنا خون بہا یااور جوجنگ آزادی کے متعلق تعصب کا شکار ہیں، وہ حقیقت کی عینک سے تاریخِ آزادی کا مطالعہ کریں تو آنکھوں کی بینائی لوٹ آئے گی ۔ ہماری نئی نسل سمجھ لے کہ ان سرفروشانِ آزادی کے صرف نام گنوانے کےلئےکئی صفحات کی ضرورت ہے۔ ہر شہر، شہر کے نکڑ، گلی کوچے ، جدوجہد کے ہر ہر گام پر ان کے نقوش ثبت ہیں کہ آج بھی مہکنے والی خوشبو گواہی دے رہی ہے

اُف یہ جادہ کہ جسے دیکھ کے جی ڈرتاہے کیا مسافر تھے، جو اس راہ گزر سے گزرے

ہماری نئی نسل فضولیات کو چھوڑ کر تھوڑا سا وقت نکال کر کم سے کم ایسے موقعوں پرصاحبِ غیرت مسلمانوں کے قائدانہ اور سرفروشانہ کردار اداکرنے والے مولانا محمود الحسن، حکیم اجمل خان، علی برادران، مولانا برکت اللہ بھوپالی، مولانا نور الدین بہاری،مولانا آزاد سبحانی ، مولانا حسرت موہانی ، میسور کے غیور حکمران حیدرعلی اور ٹیپو سلطان، مولانا احمد شہید، مولانا اسمعیل شہید، بخت خان، مولانا لیا قت علی ، مولانا عنایت علی، مولانا عبدالجلیل، فاضل محمد خان، نواب صدیق حسن خان، سعید اللہ خاں رزمی ، شاکر علی خاں، مولانا طرزی مشرقی ، ظہور ہاشمی ، فضل علی سرور، غلام عباس، جمن، رمضانی ، غلام علی ، حاضی جان، اصغر علی ، پیر بخش ، وحید علی ، راحت علی ، محمد اختر، مولانا احمد شاہ حاجی امداد اللہ ، مولانا فضل حق خیر آبادی ، مولانا عبدالقادر لدھیانوی، بیگم حضرت محل کہاں تک شمار کریں ، قلم تھک جاتاہے ، سیاہی ختم ہوجاتی ہے ، فہرست جوں کی توں جاری رہے گی ۔ 

اسی طرح ریشمی رومال تحریک، تحریک خلافت، کسانوں کی فرائضی تحریک جیسی اہم تحریکات کا بھی مطالعہ کریں تاکہ ہم سینہ تان کے کہہ سکیں یہ ملک ہمارا ہے۔ یہی سچائی ہے ، تاریخ کے اوراق اس سے بھرے پڑے ہیں۔ جنگ آزادی میں مسلمانوں کے کردار کے جو انمٹ نقوش ثبت ہیں وہ کسی کے مٹائے نہیں مٹ سکتے ، اس لئے کہ وہ قلم اور سیاہی سےنہیں بلکہ مخلص خون سے رقم کردہ ہیں ۔

ان خوابوں کی بہتر تعبیر بتانے سے ملک کے رہنما ہی قاصرہیں، پھر ملک کیسے ترقی کی منزلیں طےکرے گا، کیسے اور کس طرح اس ملک کو عظیم بنائیں گے ؟ غور کریں روشن مثبت پہلوؤںکو پیش نظر رکھیں، ماضی کو محض ایک ورثہ کے طورپر نہیں بلکہ مستقبل میں اپنے ملک کی تعمیر وترقی میں اس جدجہد کی عظیم روایات کو فروغ دے سکیں۔آیئے ، جس طرح ہم سب نے مل کر آزادی حاصل کی ہے، اسی حوصلے و جذبے سے سرشار ہوکر ملک کو عظیم ملک بنائیں ۔

(عائشہ)

تازہ ترین