شبیر احمد
باپ بیمار ہے، ماں اور ایک چھوٹا بھائی ہے، میں اور میری ماں دن بھر مزدوری کرکےگھر چلاتے ہیں، وہ رکا آنسو پونچھے اور پھر گویا ہوا۔ سارا دن یہاں اس ہوٹل میں مزدوری کرتا ہوں ۔ برتن بھی دھوتا ہوں، آنے والے مہمانوں کی خاطر مدارت بھی کرتا ہوں اور جو چیز یہاں نہ ملے تو آئے ہوئے مہمانوں کو خوش کرنے کے لئے میری قسمت مجھے دور دور تک دوڑاتی بھی ہےپھر وہ رکا ،لمبی سانس لی اور واپس جانے کے لئے مڑنے لگا تو میں نے روک کر پوچھا، بیٹا تمہیں معاوضہ کتنا ملتا ہے؟
ہونٹوں کی کپکپاہٹ کو قابو میں لاتے ہوئے ارد گرد دیکھا، ڈر اور مایوسی کی ملی جلی کیفیت سے خود کو آزاد کرانے کی کوشش کی اور سرگوشی کے عالم میں کہا، صاحب صرف پچاس روپےروزانہ۔ سامنے میز پر پڑی چائے کی پیالی سے اڑتی ہوئی بھاپ یکدم جیسے رک گئی ہو ،کرسی، جس پر میں بیٹھا تھا ایسا محسوس ہوا جیسے سرک گئی ہو، ماحول میں جیسے یکدم کسی کی آہ و بکا اور چیخ و پکار شروع ہوگئی ہو اور اس کی بے بسی جیسے میری بے بسی اور زبان حال سے ہزار شکوے کر رہی ہو ۔ میں نے خودپر قابو پایا اور اس کو دلاسہ دینے کے لئے الفاظ کا متلاشی بن گیا لیکن نہ اسے خوش کر سکا اور نہ خود کو مطمئن۔
وہ جب مجھ سے بل لے کر واپس جانے لگا تو اس کے پھٹے ہوئے جوتے ، پرانی شلوار اور بوسیدہ قمیص دیکھ کر میں ایک ڈراؤنے تصور کا سامنا کرنے لگا ،جس میں دروازے پر کھڑی اس کی ماں اور چارپائی پر پڑا اس کا بیمار باپ شام کی تاریکیوں میں اس کی راہ دیکھ رہے ہوتے ہیں اور جب وہ آجاتا ہے تو ماں اس کو ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے اور اس پر محبت کے پھول نچھاور کرتی ہے، کبھی اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیتی ہے اورکبھی اس کے ماتھے کوچومتی ہے ۔
ایسا لگ رہاہے، جیسے برسوں بعد ملے ہوں ۔ ماں پوچھتی ہے میرے لخت جگر کچھ کھایا بھی ہے ؟ مجھے اپنے ہاتھ پاؤں دکھاؤ، کوئی چوٹ وغیرہ تو نہیں لگی، کسی نے ڈانٹا پیٹا تو نہیں ؟ ایسے میں بیمار باپ، جس کی بے بسی کی کوئی حد ہی معلوم نہیں، آواز دے کر اسے بلاتا ہے، آجا میری جان آجا میرے سینے سے لگ جا ،کاش مجھ میں اتنی طاقت ہوتی تو میں بارہ سال کی عمر میں تجھے اس اذیت میں نہ ڈالتا ۔ بچپن کیسا ہوتاہے، وہ تم نہ دیکھ سکے ۔ تمہاری عمر کے بچے تو پورا دن کھیل کود میں گزارتے ہیں کا ش۔۔۔۔۔ اے کاش مجھ میں طاقت ہوتی ۔ ماں باپ کی محبت اور آہ وزاریوں میںگھرا معصوم بچہ، جب اپنی جیب سے پچاس روپے نکال کر ان کے سامنے رکھتاہے تو دونوں کے کلیجے منہ کو آجاتے ہیں۔ میں اس دہلیز سے جب اپنی نظریں اٹھاتا ہوں تو میرے دل میں اس ملک کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے لئے نفرت اور بھی بڑھ جاتی ہے، کیونکہ اس ملک کے کسی بھی سیاستدان کے گھریلو حالات ایسے نہیں ہیں اور اس ملک کے کسی بھی حکمران اور سیاست دان کے بچے ایک رات کے لئے بھی بھوکے نہیں سوتے۔
کیا ہمارے وطن کے غریب جو لاکھوں کروڑوں میں ہیں وہ بھی بھوک اور بے بسی سے نڈھال 14 اگست کی خوشیاں مناتے ہیں ؟ یہ سوال مجھے تناؤ کی کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے اور میں اس الجھن سے نکلنے کی راہ ڈھونڈ تا ہوں ہر وقت لیکن ۔۔۔ بے سود !
یہ ایک اٹل حقیقت ہے، ہمیں یہ ملک دے کر اللہ نے ہمارے اوپر بہت بڑا احسان کیا ہے لیکن اس کے بدلے ہم انسانیت کی بیخ کنی پر لگے ہوئے ہیں اور طبقاتی نظام ،جس نے اس ملک کے دو طبقوں امیر اور غریب کے درمیان ایک خلیج پیدا کر دی ہے، پروان چڑھ رہا ہے ۔
کیا سر پر سبز رنگ کی پٹی باندھ کر ،گاڑی کے آگے جھنڈا لگا کر ، ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم سریلی آواز میں گا کر، سن کر ، چند ہزار لوگوں کا مجمع بنا کر اور اس میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا کر ہم تمام ذمہ داریاں نبھالیتے ہیں ؟ کیا گلہ پھاڑ کر تقریر کرنے سے ، سوشل میڈیا پر شور مچانے سے ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر جذباتی ہونے سے ہم جشن آزادی منالیتے ہیں ؟ نہیں بالکل نہیں، ہم ایسا کرکے اصل میں صرف خود کو کج فہمیوں میں ڈال کر اپنی ذمے داریوں سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں ۔حکمران اور سیاست دان اے سی میں بیٹھ کر یخ بستہ ہواؤں میں ان لوگوں کی قربانیوں کا ذکر کرتے نہیں تھکتے، جن لوگوں نے اس ملک کی آزادی کی خاطر اپنا خون پیش کیا ۔ کیا یہ منافقت نہیں؟ ایک ایسی جشن آزادی ،جس میں ایک طرف ہلہ گلہ ہو اور دوسری طرف آنسوؤں کا سیل رواں ۔
آزادی کا جشن ہلہ گلہ کرنے سے نہیں منایا جاتا بلکہ مستقبل کےلئے مربوط منصوبہ بندی اور عہدوپیمان سے منا یاجاتا ہے ۔ ملک کو حقیقت میں ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں تو خود اپنے آپ سے شروع کرنا ہوگا اور یہ خیال بالکل ختم ہوجانا چاہیے کہ ہمارےسیاست دان ہی اس ملک کی آخری امید ہیں اور وہ ہی اس ملک کے ڈوبتی ناؤ کو گرداب کے ظالم تھپیڑوں سے بچائیں گے ۔ ہم سب کو اس ایک نقطے پر سوچنا ہوگا کہ ہمارا اپنا کردار کیا ہے اور اس ملک کے لئے ہم کیا کر رہے ہیں ۔ ہم میں سے ہر ایک جب اپنا کام صحیح معنوں میں ایمانداری سے کرے گا تو کسی کو بھی ضرورت ہی نہیں کہ اس ملک کی سڑکیں بند کر دیں۔
یہ ملک ہمارا ہے اور ہم ہی نے اس کو ٹھیک کرنا ہے ۔ جب کروڑں عوام اپنا حصہ ڈالیں گے تو ان سیاست دانوں سے جو صرف مفادات کی جنگ میں لگے ہوئے ہیں ،ہمیں چھٹکارا مل جائے گا۔کیا ایک ناقابل فراموش لمحہ نہیں ہوگا ،جب اس ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے لوگ ہر خاص و عام اور امیر و غریب ایک ساتھ آزادی کا جشن منائیں۔