• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نتائج قبول نہیں

ان دنوں ملک میں انتخابات میں دھاندلی ہونے کا شورہے اور انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کی باتیں ہورہی ہیں ۔لیکن پاکستان جیسے ممالک میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ دراصل انتخابات میں جعل سازی اور دھاندلی کی تاریخ جمہوریت کی جدید شکل کے فروغ کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کے طریقے اور نو عیت تبدیل ہوتی گئی اور اس میں طرح طرح کی جِدّت آتی گئی۔ بعض اوقات جعل سازی اور دھاندلی کا عمل ووٹنگ سے قبل شروع ہوتا ہے، بعض صورتوں میں یہ عمل ووٹنگ اور ووٹس کی گنتی کے دوران ہوتاہےاوربعض ا شکا ل میں ان تمام مراحل کے بعد ہوتا ہے۔ مختلف ممالک میں اس عمل کی روک تھام کے لیے قوانین اور قواعد موجود ہیں، اس کے باوجود امریکا، برطانیہ اور بھارت جیسی جمہوریائوں میں بھی انتخابات کے بعد اس قسم کے الزا ما ت سامنے آتے رہتے ہیں۔ 

اس زمرے میں وہ تمام اقدامات یا عوامل آتے ہیں جن کی مددسے کسی مخصوص انتخابی امیدوار یا سیاسی جماعت کے حق میں یا اس کے خلاف راہ ہم وار کی جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ اقدامات اتنے شاطرانہ انداز میں کیے جاتے ہیں کہ لوگوں کو انتخابات کے وقت یہ معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ کس طرح انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے یا اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔انتخابات میں جعل سازی اور دھاندلی ثابت ہونے پر بہت سے ممالک میں ملوث افراد کو سزائیں دی جاتی ہیں۔ لیکن یہ جرم اتنا سنگین ہوتا ہے کہ صرف سزائیں اس کے منفی اثرات کا ازالہ نہیں کرسکتیں۔ اس کا سب سے بُرا اثر یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا جمہوریت اور جمہوری عمل پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے اور پھر وہ انتخابی نتائج کو ہمیشہ مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں۔ یہ صورت حال جمہوریت کا بستر گول کرنے اور آمریت مسلط کرنے کی راہ ہم وار کردیتی ہے۔

ان الزامات کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بہت بڑے بڑے جمہوری ممالک میں بھی ایسے الزامات وقتاً فوقتاً عاید کیے جاتے رہے اور بعض ممالک میں ان کی صحت کو جانچنے کے لیے بہت سنجیدہ کوششیں ہوئیں۔ امریکا میں 2002ء سے 2007ء کے دوران محکمہ انصاف کی جانب سے وسیع پیمانے پر کی جانے والی ایک تحقیق میں پایا گیا کہ اس عرصے میں 30 کروڑ ووٹ ڈالے گئے، لیکن اس دوران وفاقی پراسیکیوٹرز نے ووٹر فراڈ کے الزام میں صرف 86 افراد کو سزائیں دیں۔ ان میں سے بعض افراد ایسے تھے جنہیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ جو ووٹ ڈال رہے ہیں وہ اس کے اہل ہیں یا نہیں۔

انتخابات میں دھاندلی یا جعل سازی کا عمل انتخابی عمل کے کسی بھی مرحلے پر کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کا آغاز عموماً انتخابی مہم کے دوران ہوتا ہے۔ ووٹرز کی رجسٹریشن، پولنگ، ووٹس کی گنتی اور ان کے اعلان کے مرحلے پر بھی یہ عمل کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم تیکنیک یہ اختیار کی جاتی ہے کہ رائے دہندگان کو کسی طرح آزادانہ اور شفاف انداز میں رائے کے اظہار سے روکا جائے اور ان کے ذہن میں کسی مخصوص امیدوار یا سیاسی جماعت کے بارے میں لاشعوری طور پر حمایت یا مخالفت کے جذبات پیدا کیے جائیں۔ بعض اوقات پولنگ کے عمل کو مختلف خطرات اور خدشات سے دوچار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ امریکا میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیکنالوجی نے ایسے خطرات اور انتخابی دھاندلی کے طریقوں کی جامع فہرست مرتب کر رکھی ہے جس سے عوام کو آگاہی دی جاتی ہے۔

انتخابی دھاندلی کے زیادہ تر اقدامات انتخابی مہم کے دوران یا اس کے فوراً بعد کیے جاتے ہیں۔ اس کے لیے ان مراحل سے کافی پہلے الیکٹوریٹس کے تناسب میں ردو بدل کرکے بھی ایسا کیا جاتا ہے۔ مثلاً امیدواروں کو کسی طرح راستے سے ہٹا دینا، حلقہ بندیاں تبدیل کردینا، پولنگ اسٹیشنز کی تعداد اور مقامات تبدیل کردینا، وغیرہ۔ بعض صورتوں میں یہ اقدامات اس طرح کیے جاتے ہیں کہ وہ غیر قانونی قرار نہیں دیے جاسکتے، تاہم یہ جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ بعض ممالک میں رائے دہندگان کی ایک بڑی تعداد کو انتخابات کے موقعے پر ایک سے دوسرے مقام پر جانے کی اجازت ہوتی ہے اور بعض سیاسی جماعتیں ایسے افراد کو کرایہ اور رہائش فراہم کرکے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ تاہم متعدد مالک میں ایسے قوانین موجود ہیں جن کے ذریعے رائے دہندگان کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ اسی صورت میں کسی علاقے کے پولنگ اسٹیشن پر ووٹ ڈالنے کے اہل ہوسکتے ہیں جب ایک مخصوص مدت تک اس علاقے میں رہے ہوں یا رہتے ہوں۔ لیکن بے گھر افراد (جن کے مستقل پتے نہیں ہوتے)، گھروں سے کُل وقتی طور پر دور رہ کر تعلیم حاصل کرنے والے اور غیر مستقل محنت کشوں کو ان قوانین کی وجہ سے انتخابی عمل سے کسی حد تک باہر کردیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ قانون اس صورت میں دھاندلی کرنے والوں کے حق میں قانونی طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

بعض ممالک میں انتخابات سے قبل مقتدر قوتیں کسی خاص علاقے میں سرکاری گھروں میں لوگوں کو مستقل رہائش فراہم کردیتی ہیں۔ اس طرح ان کے پتے تبدیل ہوجاتے ہیں اور وہ شکریے کے طور پر مقتدر سیاسی قوتوں کے حمایت یافتہ افراد کو ووٹ دیتے ہیں۔ ایسا خاص طور پر ان حلقوں میں کیا جاتا ہے جہاں مقابلہ سخت ہو یا پھر ان حلقوں میں جہاں خود جیتنا مقصود نہ ہو، لیکن ووٹس کا توازن خراب کرکے مخالف جماعت کے امیدوارکے بجائے کسی ہم خیال جماعت کے امیدوار کو جتانا مقصود ہو۔ برطانیہ میں ماضی میں ویسٹ منسٹر شہر میں شرلے پاسٹر پر اسی قسم کا الزام لگا تھا۔ اس مقصد کے لیے ویسٹ منسٹر کونسل کے پبلک ہائوسنگ کے وسائل استعمال کیے گئے تھے۔ 

دھاندلی کی نیت سے اس معاملے میں رائے دہندگان کو حلقے کے ان وارڈز میں منتقل کیا گیا تھا جہاں ہار اور جیت میں بہت تھوڑے ووٹس کا فرق تھا۔ رائے دہندگان کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنے اور رہائشی پتو ں کے ذریعے انتخابات پر اثر انداز ہونے کے ضمن میں بعض ممالک میں تارکینِ وطن کے بارے میں بنائے جانے والے قوانین بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ملائیشیا ہے جہاں فلپائن اور انڈونیشیا کے تارکینِ وطن کو ووٹ کے حق کے ساتھ شہریت دی گئی تھی ۔ وہاں یہ عمل صباح نامی ریاست میں ایک سیاسی جماعت کو برتری دلانے کے لیے کیا گیا تھا۔ یہ عمل ایک متنازع منصوبے کے تحت کیا گیا تھا، جسے پروجیکٹ آئی سی کا نام دیا گیا تھا۔

بعض صورتوں میں بعض افراد کو ووٹ ڈالنے کے لیے نا اہل قرار دے دیا جاتا ہے، مثلاً بعض ممالک میں قیدی اس حق سے خود بہ خود محروم ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات غلطی کے نام پر بہت سے ووٹرز کے نام انتخابی فہرست سے خارج کردیے جاتے ہیں۔ 1917ء میں کینیڈا میں وفاقی انتخابات کے موقعے پر یونین گورنمنٹ نے ملٹری ووٹرز ایکٹ اور وار ٹائم الیکشنز ایکٹ منظور کیا تھا۔ اس قانون کے تحت حاضر سروس فوجیوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ صرف کسی ایک سیاسی جماعت کو ووٹ دے سکتے ہیں اور اس مخصوص سیاسی جماعت کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ اس کے حمایتی فوجی کس جگہ ووٹ ڈالیں گے۔ اسی طرح ان فوجیوں سے بہ راہ راست تعلق رکھنے والی خواتین کو بھی پابند کردیا گیا تھا۔ ان فوجیوں کو یونین گورنمنٹ کے حق میں غیر متناسب طور پر بڑے پیمانےپر استعمال کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ وارٹائم الیکشنز ایکٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے مخصوص لسانی گروہوں کو لبرل پارٹی (جو حزب اختلاف میں تھی) کے حق میں استعمال کیا گیا تھا۔ اس کی بھی تیکنیک غیر متناسب نمائندگی والی تھی۔

ریاست ہائے متحدہ امریکا میں 2012ء میں دس ریاستوں نے یہ قانون منظور کیا تھا کہ پولنگ اسٹیشنز پر ووٹرز کو اپنی تصویری شناخت پیش کرنا ہوگی۔ اگرچہ یہ عمل دھاندلی روکنے کے لیے کیا گیا تھا، لیکن نیویارک کے برینن سینٹر فار جسٹس کی ایک تحقیق کے مطابق اس عمل کی وجہ سے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے، غریب اور بوڑھے افراد بڑی تعداد میں ووٹ کے حق سے محروم ہوگئے تھے کیوں کہ وہ دور دراز علاقوں میں رہائش پزیر ہیں اور جس دفتر سے تصویری شناخت نامہ جاری کیا جاتا ہے وہ ان کے گھروں سے کافی فاصلے پرتھا۔

نتائج قبول نہیں

بعض صورتوں میں تشدد یا تشدد کے خوف کی وجہ سے رائے دہندگان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ کسی مخصوص جماعت یا امیدوار کو ووٹ دیں۔ بعض ممالک میں اس مقصد کے لیے بعض سیاسی جماعتیں بد صفت افراد کی خدمات معاوضے کے عوض یا کسی لالچ کی بنیاد پر حاصل کرتی ہیں اور بعض سیاسی جماعتوں کے کارکنان خود یہ کام کرتے ہیں۔ بعض علاقوں میں لوگوں کو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ اگر ان کے علاقے سے کسی ایسی جماعت کا امیدوار منتخب ہوگیا جو زیادہ طاقت ور نہ ہو تو طاقت ور جماعت کے کارندے یا کارکنان انتخابات کے بعد ان کے علاقے میں دنگا فساد شروع کردیتے ہیں۔ بعض اوقات قانونی یا غیر قانونی طور پر کسی علاقے کے لوگوں یا کسی مخصوص لسانی یا سماجی اکائی کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ ووٹ دینے کی اہل نہیں ہے اور اگر اس نے ووٹ دیا تو اسے قانون کے تحت سزا ملے گی۔ امریکا میں 2004ء میں الی نائے میں کُک کائونٹی میں اسی طرح کا طریقہ استعمال ہونے کی شکایت سامنے آئی تھی۔

بعض بڑے تجارتی اور کاروباری ادارے اپنے ملازمین کو ادارے سے قریب کوئی رہائشی بستی بنا کر اس میں رہائش گاہیں فراہم کرتے ہیں۔ بعض معاملات میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اس بستی میں انتخابات سے قبل لوگوں کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ وہ اس امیدوار یا سیاسی جماعت کو ووٹ دیں جسے ادارے کے مالکان پسند کرتے ہوں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ملازمت اور ہائش گاہ سے محروم کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔

ووٹ خریدنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ یہ روایت کسی اور نہیں بلکہ اس ملک سے چلی جسے مادرِ جمہوریت کہا جاتا ہے، یعنی انگلستان۔ وہاں یہ سلسلہ اٹھارہویں صدی میں شروع ہوا تھا۔ اس زمانے میں طبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے افراد انتخابات میں کام یابی کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتے تھے۔ اس ضمن میں سب سے معروف مثال 1768ء میں نارتھمپٹن شائر میں ہونے والے انتخابات کی ہے۔ ان انتخابات میں تین دولت مندوں نے اپنی نشستیں جیتنے کے لیے ایک ایک لاکھ پونڈ استعمال کیے تھے۔ رقم کے علاوہ رائے دہندگان کو دیگر اقسام کی بھی لالچ دی جاتی ہے۔ یہ لالچ دینے والے کبھی یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص یا جماعت کو ووٹ دیا جائے اور کبھی ووٹ نہ دینے پر بھی رقوم اور مراعات دی جاتی ہیں۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انتخابات سے چند یوم قبل کسی سیاسی جماعت یا امیدوار کے خلاف ایسی باتیں پھیلائی جاتی ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا یا حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ عمل کسی خاص مقصد کے تحت کیا جاتا ہے، مثلاً رائے دہندگان کی آراء پر اثر انداز ہونے کے لیے، کسی کے لیے نفرت یا محبت کے جذبات ابھارنے کے لیے، امن و امان کی صورت حال خراب کرنے کے لیے، لوگوں کو خوف زدہ یا مطمئن کرنے کے لیے، وغیرہ وغیرہ۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مخالفین کی طرف سے کسی جماعت یا امیدوار کے بارے میں غیر محسوس انداز میں یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ انتخابات سے قبل ہی جیت چکا ہے۔ اس عمل کی وجہ سے اس جماعت یا امیدوار کے بہت سے حامی پولنگ والے دن گھروں سے یہ سوچ کر نہیں نکلتے کہ ان کی جماعت یا امیدوار پہلے ہی جیت چکا ہے۔

انتخابات میں حکومتوں اور سرکاری اداروں کا کردار بھی اہم ہوتا ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کس طرح ایک سرکاری ادارے نے ایک انتخابات میں رقوم استعمال کرکے ایک سیاسی اتحاد بنوا یا تھا۔ اسی طرح 1970ء میں چِلی میں مرکزی انٹیلی جینس ایجنسی نے ’’سیاہ پروپیگنڈے‘‘ کا سہارا لیا تھا۔ وہاں سوشلٹس اور کمیونسٹس کے درمیان قائم ہونے والے اتحاد کو توڑنے یا غیر موثر کرنے کے لیے کئی سیاسی جماعتیں بنوائی گئی تھیں۔

انتخابات کے موقع پر اطلاعات کی ترسیل بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کبھی رائے دہندگان کو ان کے حلقے، ووٹر نمبر، پولنگ بوتھ اور ووٹنگ کے وقت کے بارے میں غلط اطلاعات فراہم کی جاتی ہیں اور کبھی اطلاعات تو درست فراہم کی جاتی ہیں، لیکن انہیں لوگوں تک پہنچانے میں اتنی تاخیر کردی جاتی ہے کہ وہ غیر موثر یا نقصان دہ ہو جاتی ہیں۔ ترقی یافتہ جمہوریتوں میں سیاسی جماعتیں اس موقعے پر اپنے شعبہ اطلاعات اور نشر و اشاعت کو بہت چوکنّا رکھتی ہیں اور رائے دہندگان کو درست، اطلاعات بروقت پہنچانے اور مخالفین کے پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کے لیے ہر جدید ذریعہ ابلاغ استعمال کرتی ہیں۔ 

پاکستان میں بھی اب سیاسی جماعتیں کسی حد تک ایسا ہی کرنے لگی ہیں۔ لیکن دیگر ممالک، بالخصوص ترقی یافتہ ممالک کے برعکس، پاکستان میں سیاسی جماعتیں رائے دہندگان کی ذہن سازی اور جمہوری تربیت کے لیے کچھ خاص کام نہیں کرتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی جماعتیں ایک قدم آگے بڑھ کر ر ائے دہندگان کو یہ تک بتاتی ہیں کہ انتخابی دھاندلی کسے کہتے ہیں، یہ کس طرح کی جاتی ہے اورعام آدمی اسے کس طرح روک سکتا ہےیا اس کے بارے میں شکایت کرسکتا ہے۔

بیلٹ پیپر کا ڈیزائن، ترتیب اور ساخت بھی انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوسکتی ہے اور بعض اوقات اس کے ذریعے کسی مخصوص سیاسی جماعت یا امیدوار کے حمایتیوں کو کنفیوزڈ کیا جاسکتا ہے یا ان کی حوصلہ شکنی کی جاسکتی ہے۔ مثلاً 2000ء میں امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں فلوریڈا کے بٹر فلائی بیلٹ پیپرز پر زبردست تنقید کی گئی تھی کیوں کہ اس کی وجہ سے بہت سے رائے دہندگان نے ر ائے دینے میں غلطی کردی تھی۔ اگرچہ اسے ایک ڈیموکریٹ نے ڈیزائن کیا تھا، لیکن اس ڈیزائن نے سب سے زیادہ ڈیموکریٹک پارٹی ہی کو نقصان پہنچایا تھا۔ بیلٹ پیپر کے ڈیزائن کے بارے میں بہت سے ممالک میں جامع قوانین موجود نہیں ہیں ان میں سے ایک ریاست ہائے متحدہ امریکا بھی ہے۔ لہٰذا بٹر فلائی ڈیزائن کو انتخابی دھاندلی قرار نہیں دیا جاسکا۔ لیکن ایسےاقدامات دراصل جمہوری اصولوں اور اقدار کی خلاف ورزی گردانے جاتے ہیں۔ ماضی میں سویڈن میں بھی ایسا ہی ایک عمل کیا گیا تھا جس کے تحت ہرجماعت کے لیے علیحدہ بیلٹ پیپر رکھا گیا تھا۔ 

لیکن ڈیموکریٹک پارٹی اور سویڈش سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے بنائے گئے بیلٹ پیپرز میں کافی مماثلت تھی۔ ان دونوں بیلٹ پیپرز کے سب سے اوپر سیاسی جماعتوں کے نام ایک ہی طرح کے خط میں لکھے ہوئے تھے جس کی وجہ سے رائے دہندگان کو مغالطہ ہوا۔ بعض اوقات امیدواروں کے ملتے جلتے نام، انتخابی نشانات اور ان کی ترتیب بھی مغالطے کا سبب بنتی ہے۔ ایسا کرنے والوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ رائے دہندگان کو مغالطے میں ڈالنا اور نتائج کو کسی جماعت یا امیدوار کے حق میں کرنا ہوتا ہے۔ یہ عمل اس صورت میں بہت موثر ثابت ہوتا ہے جب کسی ملک یاعلاقے کی آبادی کا بڑا حصہ ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ ہو یا وہ اس زبان کے بارے میں کم معلومات رکھتا ہو جو بیلٹ پیپر پر استعمال کی گئی ہو۔ اگرچہ یہ چال بازیاں انتخابی دھاندلی شمار نہیں ہوتیں لیکن ان کے نتیجے میں عموماً جمہوریت کے اصولوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

نتائج قبول نہیں

انتخابی دھاندلی کی کہانی بیلٹ پیپر کے استعمال تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ اپنے پسندیدہ امیدوار کے انتخابی نشان پر مہر لگانے کے بعد جب رائے دہندگان انہیں بیلٹ باکس میں ڈالتے ہیں تو اس وقت بھی غلطی اوردھاندلی کے امکانات ہوتے ہیں۔ مثلاً امریکا کے بہت سے دیہی علاقوں میں انتخابات کے وقت رائے دہندگان کو ایک بیلٹ پیپر دیا جاتا ہے جس پر مہر لگانے کے بعد اس کے دو حصے کرکے انہیں دو بیلٹ باکسز میں ڈالنا ہوتا ہے۔ اس موقعے پر غلطی کا بہت امکان ہوتا ہے۔ بعض اوقات رائے دہندہ کسی انتخابی نشان پر مہر لگاتا ہے تو مہر پر اتنی سیاہی لگ جاتی ہے کہ جب بیلٹ پیپر کو تہہ کیا جاتا ہے تو مہر کے نشان کا عکس دوسرے امیدوار کے انتخابی نشان پر بھی آجاتا ہے۔ ووٹس کی گنتی کے وقت ایسے بیلٹ پیپرز رد کردیے جاتے ہیں یا غلطی سے دوسرے امیدوار کے حق میں تسلیم کرلیے جاتے ہیں۔ اس لیے مشورہ دیا جاتا ہے کہ بیلٹ پیپر کو اس طرح تہہ کیا جائے کہ دوسری جانب کوئی اور انتخابی نشان نہ ہو، مثلاً اسے لمبائی کے بجائے چوڑائی میں یا اس کے برعکس انداز میں تہہ کیا جائے۔

مغرب میں ایسا بھی ہوچکا ہے کہ کسی ادبی یا ٹی وی یا فلم کے کسی خیالی کردار سے ملتی جلتی شناخت والے شخص نے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ووٹ ڈال دیا ۔ماضی میں وہاں کے اخبارات میں ایسی خبریں شایع ہو چکی ہیں۔ بعض ممالک میں کسی شخص کے غیاب میں اس کا کوئی عزیز ووٹ ڈالنے کا اہل قرار پاتا ہے جسے ABSENTEE ووٹ کہا جاتا ہے۔ بعض ممالک میں بوڑھوں اور ریٹائرڈ افراد کے نام زد کردہ افراد ان کی طرف سے ووٹ ڈالتے ہیں جسے پراکسی ووٹنگ کہا جاتا ہے۔ ان دونوں طریقوں میں دھاندلی یا جعل سازی کے کافی امکانات ہوتے ہیں۔

ووٹس کی گنتی کے وقت بھی دھاندلی کی جاتی ہے۔ اس مقصد سے دو طریقے عام طور سے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ کسی امیدوار کے پولنگ ایجنٹس مخالف امیدوار کے زیادہ سے زیادہ ووٹس کو غلط یا ناقص قرار دے دیں۔ دوم یہ کہ گنتی کے وقت اِدھر کے ووٹس اُدھر کردیے جائیں۔ مغربی ممالک میں ایسے قوانین موجود ہیں کہ اگر کسی حلقے میں ایک خاص تعداد سے زیادہ ووٹس مسترد ہوجائیں تو وہاں دوبارہ انتخابات ہوں۔ بیلٹ پیپرز کو متنازع بنانے کے لیے بعض اوقات ان پر اضافی یا غیر ضروری نشانات یا مہریں لگا دی جاتی ہیں۔ اگرچہ بڑی تعداد میں بیلٹ پیپرز کے ساتھ ایسا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن جن حلقوں میں شکست اور فتح کے درمیان فاصلہ بہت کم ہوتا ہے وہاں ایک ایک ووٹ قیمتی ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر مختلف پولنگ اسٹیشنز پر کم تعداد ہی میں صحیح ووٹس مسترد ہوجائیں تو پانسہ پلٹ جاتا ہے۔

بعض ممالک میں اب ووٹنگ کے لیے الیکٹرانک مشینیں استعمال ہونے لگی ہیں۔ ہمارا پڑوسی ملک بھارت بھی انہیں تیزی سے رواج دے رہا ہے۔ لیکن جب سے ایسا ہوا ہے تب ہی سے طرح طرح کے الزامات اور اعتراضات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ امریکا میں یہ الزامات اتنی شدت سے لگائے گئے اور لگائے جارہے ہیں کہ وہاں اس نظام میں ممکنہ نقائص اور خلاکے بارے میں پوری فہرست مرتب کی جاچکی ہے۔ ایک سب سے بڑا الزام مشین ٹیمپرنگ کا ہے جس کے لیے مشین کے سافٹ ویئر میں گڑ بڑ کی جاتی ہے اور اس کی میموری میں غلط کوڈ ڈال دیے جاتے ہیں۔ اس عمل کی وجہ سے مشین کُل ووٹس کی تعداد کم یا زیادہ بتاتی ہے یا کسی کے حق میں یا اس کے خلاف ڈالے گئے ووٹس کی غلط تعداد ظاہر کرتی ہے۔ یہ مشینیں نجی ادارے بناتے ہیں۔ ان کے کوڈ تک رسائی حاصل کرنا کوئی زیادہ مشکل کام قرار نہیں دیا جاتا۔ پھر یہ کہ یہ ادارے مشین کے سورس کوڈ یہ کہہ کر نہیں بتاتے کہ یہ ان کا کاروباری راز ہے۔ اس طرح ان کے کوڈ میں غلطی کو درست کرنا صرف اسی ادارے کے لیے ممکن ہوتا ہے۔ ایسی بعض مشینیںچلانے کے لیے اسمارٹ کارڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جعلی اسمارٹ کارڈ کے ذریعے اس مشین کو دھوکا دے کر ایک آدمی کئی ووٹ ڈال سکتا ہے۔

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی یا جعل سازی کسی خاص وقت یا خطّے کے لیے مخصوص نہیں ہے اور بہت مضبوط جمہوری نظام والے ممالک میں بھی انتخابات کے بعد دھاندلی یا جعل سازی کی باتیں ہوتی ہیں۔ لیکن ان ممالک میں ان کی روک تھام کے لیے سنجیدگی سے کام کیا گیا اور کیا جارہا ہے، لہٰذا وہاں یہ مسئلہ ہماری طرح زیادہ شدت نہیں اختیار کرتا۔ ہمیں بھی اسی نہج پر کام کرنا ہوگا تاکہ جمہوریت مستحکم ہوسکے۔

تازہ ترین