• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین  عمران خان نے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد اور  وزیر اعظم بننے سے قبل ہی اس بات کا اعلان کردیا ہے کہ وہ وزیر اعظم ہائوس میں نہیں رہیں گے۔عمران خان کا ارادہ ہے کہ وہ وزیراعظم ہائوس کو تعلیمی ادارے میں تبدیل کریں گےاور خود اسپیکر ہائوس میں رہیں گےجبکہ اس بات کا حتمی فیصلہ اب تک نہیں کیا گیا ہے۔

عمران خان پاکستان کے واحدوزیر اعظم نہیں ہوں گےجنہوں نے انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیر اعظم ہائوس میں نہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ اس سے قبل بھی پاکستان کےایک نگراں وزیر اعظم نے وزیر اعظم ہائوس میں نہ رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔

سادہ زندگی گزارنے والے نگراں وزیر اعظم
ملک معراج خالد نگراں وزیراعظم کا حلف لیتے ہوئے

آج جس شخصیت کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے شاید بہت کم لوگ ان کے بارے میں جانتے ہوں گے کیونکہ وہ صرف  1996 سے 1997 تک نگراں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے اور اس عرصے کے دوران انہوں نے نہایت سادہ زندگی گزاری۔

 20ستمبر1916ء کولاہور کے ایک گاؤں میں پیدا ہو نے والےملک معراج خالدچاربہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے،انہیں پڑھنےلکھنے کا بے حد شوق تھا مگر گاؤں میں کوئی اسکول نہ ہونے کے سبب انہیں دیڑھ میل دور دوسرے گاؤں پڑھنے کے لیے جانا پڑتا تھا۔

مڈل اسکول امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم حاصل کرنے لاہورآگئے۔یہاں آکر انہوں نےاُس وقت کے نمبر ون اسکول ’سینٹرل ماڈل اسکول ‘ میں داخلہ لے لیا۔ان کا گائوں شہر سے 13 کلو میٹر دور تھا ،غربت کی وجہ سے تعلیم جاری رکھنا ملک معراج کے لیےمشکل ہورہا تھا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور تہیہ کیا کہ وہ گاؤں سے دودھ لے کرشہر میں بیچیںگےاوراس طرح اپنی تعلیم کا خرچہ اٹھا ئیں گے۔

ملک معراج روزانہ صبح فجر کی نماز سے پہلے اٹھتے مختلف گھروں سے دودھ اکٹھا کرتے،ڈرم کو ریڑھے پر لاد کر شہر پہنچتےاور نواب مظفر قزلباش کی حویلی سمیت کئی دکانداروں کو دودھ فروخت کرتے۔پھر مسجد میں جا کر کپڑے بدلتے اور اسکول چلے جاتے ۔

اپنے کالج کے دور تک اسی طرح انہوں نے دودھ بیچ کر اپنی تعلیم جاری رکھی۔ غربت کی یہ انتہا تھی کہ ان کے پاس اسکول میں  پہننے کو جوتے نہ تھے ۔ انہوں نے پیسے جمع کرکے جوتے خریدے مگر وہ یہ جوتے گائوں میں نہیں پہن سکتے تھے کیونکہ وہ جلدگھِس جاتے چنانچہ وہ گاؤں سےاپنے والد کی دیسی جوتی پہن کرشہر آگئے۔ وہ اپنے جوتوں کو دودھ کے برتن کے ساتھ کپڑے میں لپیٹ کر رکھ دیتےاورصرف اسکول کے لیے ان جوتوں کا استعمال کرتے۔

سن 1935ء میں انہوں نے میٹرک میں نمایاں نمبروں سے کامیابی حاصل کی اور پھر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخلہ لے لیا۔ اب وہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیےگاؤں سے ریڑھے میں دودھ لاتےاور شہر میں فروخت کر تےلیکن اس کام میں کبھی انہیں  شرمندگی محسوس نہ ہوئی۔بی اے آنر کرنے والے ملک معراج اپنے علاقے کے واحد گریجویٹ تھے۔

معاشی دباؤ کے تحت بی اے آنرکے بعد انہوں نے باٹا پور کمپنی میں کلرک کی نوکری شروع کردی چونکہ ان کا مقصد لاء یعنی قانون پڑھنا تھا لہٰذا کچھ عرصہ بعد کلرک کی نوکری چھوڑ کر قانون کی تعلیم حاصل کرنے لگےاور 1946ء میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کر کے 1950ء سے باقاعدہ پریکٹس شروع کر دی۔

ملک معراج کو خدمت خلق کا کافی شوق تھا اسی لیے انہوں نے لوگوں کی مدد سے اپنے علاقے میں کئی تعلیمی ادارے قائم کیے۔لوگوں کی مدد کرنے کے لیے 1965ء میں انہوں نے  قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا اور کامیاب ہوئے۔ وہ پیپلز پارٹی کے روٹی کپڑا مکان کے نعرہ سے متاثر ہوکر اس میں شامل ہوگئے۔

1970ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئےاور1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ میں وزیر خوراک بنے۔سال 1972ء میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے اور اس پورے عرصے میں وہ رکشے میں سفر کیاکرتے تھے۔

1973ء میں اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی قیادت کی 1973ء میں وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور کا قلمدان سونپا گیا۔دو دفعہ ا سپیکر قومی اسمبلی بنے اور 4 سال تک انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ڈائریکٹر رہے۔

ایک ان پڑھ کسان کا بیٹا جس نے کامیابی کا ایک لمبا اور کٹھن سفر اپنے دودھ بیچنے سے شروع کیا وہ پاکستان  کانگراں وزیر اعظم بنالیکن پھربھی وہ ساری عمر لاہور میں لکشمی مینشن میں رہےاور ساری عمر سادہ زندگی گزاری ۔

تازہ ترین