• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قائد اعظم کے زیرِ استعمال رہنے والے شاندار گھر

ملک بھرمیں یومِ آزادی کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، اس موقع پرہم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہوں سے متعلق معلومات اپنےقارئین کی خدمات میں پیش کررہے ہیں۔

قائد اعظم ریزیڈنسی، زیارت

زیارت، بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے شمال مغرب میں130کلومیٹر کے فاصلے پر سطح سمندر سے 2,449 میٹر بلند ایک پُرفضا مقام ہے۔ یہاں 12,600ایکڑ پر پھیلا صنوبر کے درختوں کا قدیم جنگل بھی ہے، جہاں بعض درخت5ہزار سال پُرانے ہیں۔ صنوبر ایک قیمتی درخت ہے، جس کےبارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سال میں صرف ایک اِنچ بڑھتا ہے۔ زیارت کا پرفضا ماحول دراصل سطح سمندر سے بلندی کے ساتھ ساتھ ان جنگلات کا بھی مرہونِ منت ہے۔

بانی پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری 2ماہ اور 10دن اسی پرفضا مقام پر گزارے اور جس یادگار عمارت میں انھوں نے رہائش اختیار کی، اسے ’قائد اعظم ریزیڈنسی‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ زیارت کی قائد اعظم ریزیڈنسی انگریزوں نے 1892ء میں تعمیر کی اور اس دور میں جب حکومتِ برطانیہ کے افسران آتے تھے تو وہ یہیں قیام کرتے تھے۔ عمارت کے باہر چاروں اطراف میں لکڑی کے ستون ہیں اور اندرونی حصے میں بھی لکڑی کا ا ستعمال بہت خو بصورتی سے کیا گیا ہے۔ 8کمروں پر مشتمل اس رہائش گاہ میں دونوں اطراف مجموعی طور پر28دروازے بنائے گئے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں اس رہائش گاہ کی تاریخی اہمیت میں اس وقت اضافہ ہوا جب یکم جولائی کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کے مشورے پر طبیعت کی ناسازی کے باعث یہاں تشریف لائے۔ ریزیڈنسی میں واقع کمروں میں ایک کمرہ محترمہ فاطمہ جناح اور ایک کمرہ قائد اعظم کے ذاتی معالج کرنل الٰہی بخش جبکہ ایک کمرہ ان کے ذاتی معتمد کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ رہائش گاہ میں ایک کمرہ ایسا بھی ہے جہاں قائد اعظم دوپہر اور رات کا کھانا کھاتے اور اپنے رفقائے کار کے ساتھ شطرنج کھیلا کرتے تھے۔ پاکستان کے100روپے کے بینک نوٹ کے عقبی رُخ پر اس کی تصویر بھی موجود ہے۔ سرد علاقہ ہونے کی وجہ سے، ہر سال گرمیوں کے موسم میں سیاحوں کی بڑی تعداد قائد اعظم ریزیڈنسی اور یہ شہر گھومنے آتی ہے۔ یہ عمارت قومی ورثہ ہے۔

2013ءمیں کچھ دہشت گردوں نے قائد اعظم ریزیڈنسی پر حملہ کیا اور اس کی عمارت کو آگ لگاکر جلا دیا تھا۔ تاہم حکومتِ پاکستان نے معروف ماہرِ تعمیرات نیرعلی دادا کی سربراہی میں تاریخی قائد اعظم ریزیڈنسی کو اس کی اصل شکل میں بحال کردیا۔

قائد اعظم میوزیم ہاؤس، کراچی

شاہراہِ فیصل اور فاطمہ جناح روڈ کے سنگم پر واقع قائد اعظم ہاؤس میوزیم دو منزلہ عمارت ہے، جو 10ہزار 214گز پر محیط ایک حویلی نما بنگلہ ہے۔ یہ بنگلہ، اُس وقت کے معروف معمار ایچ سوماک نے اپنے ذاتی استعمال کے لیے تعمیر کروایا تھا، اس کا ڈیزائن موسس سوماکی کا تیار کردہ تھا۔ کچھ محققین کے مطابق، اس کی تعمیر 1865ءمیں کی گئی۔ ایچ سوماک کی وفات کے بعد 1922ء تک اس عمارت کے مالک رام چند جی کچھی لوہانہ تھے۔ بعد ازاں برطانوی فوج نے عمارت کرائے پر لے لی اور ان کے مختلف جرنیل اس عمارت میں مقیم رہے۔ اس وجہ سے اسے فلیگ اسٹاف ہاؤس بھی کہا جاتا ہے۔ ڈگلس ڈی گریسی آخری جنرل تھے جو یہاں مقیم رہے، وہ بعد میں رائل پاکستان آرمی کے چیف بھی رہے۔ 1940ء میں یہ بنگلہ پارسی تاجر سہراب کاؤس جی نے خرید لیا۔ 1943ء کے بعد اس عمارت میں رہائش پذیر کمانڈرز نئے مالک کے کرائے دار تھے، کرائے کی رسیدوں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ رسیدیں قائد اعظم کے نام پر ہیں۔ بانی پاکستان نے1943ء میں اس دیدہ زیب عمارت کو دیکھا تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ایک لاکھ 15ہزار روپے میں اسے خرید لیا۔

قائدِاعظم کی وفات کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے یہاں رہائش اختیار کرلی اور 1964ء تک یہیں رہیں۔ بعد ازاں، حکومت نے یہ بنگلہ ٹرسٹی آف جناح سے 51لاکھ 7ہزار روپے میں خرید کر اِسے قومی ورثہ قرار دے دیا اور اسے قائدِ اعظم ہائوس میوزیم کا نام دے کر 1993ء میں عوام کے لیے کھول دیا۔ یہ تاریخی عمارت محکمہ ثقافت، سیاحت و نوادرات کے زیر نگرانی ہے اور آج بھی یہاں بانی پاکستان اور اُن کی ہمشیرہ کا اورنگزیب روڈ، نئی دِلی والی زیرِ استعمال رہائش گاہ سے لایا گیا سامان موجود ہے، جس میں کشمیری فن سے مزین ہاتھی دانت سے بنے ٹیبل لیمپ، انگلستان کی نفیس کراکری، قائداعظم کے تعارفی کارڈ، کافور کی لکڑی کے باکس، صوفے، کرسیاں، ٹیلیفون، قرآن کریم کے نسخے، ڈائننگ ٹیبل اور صندل کی لکڑی کے سگار کے باکس شامل ہیں۔

بنگلے کی نچلی اور اوپری منزل پر12 کمرے، کچن اور بالکونی سمیت 8 سرونٹ کوارٹرز ہیں، اس عمارت کو محکمہ آثارِ قدیمہ نے قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کے زیرِ استعمال فرنیچرز و دیگر ساز و سامان سے کچھ اِس طرح آراستہ کر رکھا ہے کہ دیکھنے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ قائدِاعظم اور فاطمہ جناح چہل قدمی کے لیےابھی ابھی اپنے کمروں سے نکل کر گئے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین