• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ہوتی ہے آزادی

دیا خان بلوچ، لاہور

’’تمہیں پتا ہے، آزادی کیا ہوتی ہے؟‘‘ زینب نے اپنی شرارت سے پُر آنکھیں گھما کر پوچھا۔

زلیخا نے حیران ہوتے ہوئے کہا، ’’کیا؟‘‘

’’یہ ہوتی ہے‘‘۔ زینب نے آگے بڑھ کر اس کی ننھی چڑیا کا پنجرہ کھول دیا۔ پنجرے میں قید چڑیا نے جب رہائی کا دروازہ کھلا دیکھا تو فوراً اڑان بھری اور دور درخت پر جا بیٹھی۔ وہاں وہ خوب زور سے شور کرنے لگی۔

’’چوں،چوں چوں‘‘۔ کچھ ہی دیر میں وہاں ننھی ننھی چڑیوں کا ایک ہجوم لگ گیا، سب نے شور مچایا وہ سب آزادی کے گیت گا رہی تھیں، تھوڑی دیر کے بعد وہ سب اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگئیں۔

ننھی زلیخا نے جب اپنی چڑیا کو یوں اُڑتے دیکھا تو رونے لگی۔ابھی پچھلے ہفتہ ہی تو وہ اپنی ایک دوست کی دیکھا دیکھی بابا جان سے ضد کر کے پیاری سی چڑیا لے کر آئی تھی۔ اس کی دوست نے اسے بتایا تھا کہ، اس کے پاس بہت پیارا سا ایک پرندہ ہے جو ہر وقت خاموشی سے اس کی باتیں سنتا ہے، وہ اس سے خوب باتیں کرتی ہے، جو ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا ہے۔ اپنی سہلی کی باتیں سن کر زلیخا کا دل بھی چاہا کہ اس کے پاس بھی ایک خوبصورت پرندہ ہو، ایک بڑا سا پنجرہ ہو جس میں وہ مختلف پرندے رکھے، لیکن یہ کیا اتنی مشکل سے بابا جان نے اسے ایک چڑیا لاکر دی اور اسے بھی زینب نے اُڑا دیا۔

زلیخا زینب سے ناراض ہو گئی، اس سے بات چیت بھی بند کردی اور کھانا پینا بھی چھوڑ دیا۔ اسے رہ رہ کر اپنی چڑیا یاد آ رہی تھی، جس کا وہ بےحد خیال رکھتی تھی۔ اس کے کھانے پینے کا، اس کے آرام کا، حتی کہ وہ جہاں جاتی اسے ساتھ لے کر جاتی تھی، بس اسکول میں جو وقت گزرتا وہ اُس کے بغیر بہت مشکل سے کٹتا تھا، واپس آتے ہی وہ اس سے باتیں کرنے لگ جاتی۔ ہوم ورک بھی اس کو ساتھ بٹھا کر کرتی۔ 

بس ایک بات زلیخا کو کبھی کبھی پریشان کرتی کہ اس کی چڑیا کم بولتی تھی۔ صبح کے وقت جب سارے پرندے آسمان پر ادھر ادھر آزادی سے اڑ رہے ہوتے تو ننھی چڑیا اپنے پروں کو دیکھتی جو کٹ چکے تھے،شاید وہ اپنے غم کی داستان سناتی تھی جو زلیخا سمجھ نا پاتی تھی یا پھر وہ تسبیح کرتی اور دعا کرتی تھی اپنی آزادی کی۔

زینب زلیخا کی خالہ زاد بہن ہے،وہ ان دنوں اپنی گرمی کی چھٹیاں گزرانے کراچی آئی ہوئی تھی۔ زلیخا سے تین سال بڑی تھی، وہ چھٹی جماعت اور زلیخا تیسری جماعت کی طالبہ تھی، زینب کی دوستی زلیخا سے بہت گہری ہے۔اب کی بار وہ آئی تو اس نے دیکھا کہ زلیخا نے ایک چڑیا پالی ہوئی ہے۔ اسے بہت افسوس ہوا کہ ایک بے زبان پرندے کو اس نے قید میں رکھا ہوا ہے۔اس نے زلیخا سے کہا کہ ’’تم نے اسے قید کیوں کر رکھا ہے؟‘‘ اس نے بتایا کہ، ’’یہ مجھے پسند ہے‘‘۔ ’’بس اس لئے؟‘‘ زینب نے آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔ ’’جی ہاں،اس کے پر کتنے پیارے ہیں،اس کی چونچ دیکھو زینب، کتنی باریک سی پیاری ہے‘‘۔

لیکن زینب تو کچھ اور سوچ رہی تھی۔اس نے سوچا کہ وہ آج زلیخا کو سمجھائے گی کہ معصوم پرندوں کو قید میں رکھنا اچھی بات نہیں ۔اس لئے زینب نے اس سے سوال کیا کہ، ’’آزادی کیا ہے؟‘‘ زلیخا سوچنے لگی اور بہت سوچنے کے بعد اس نے جواب دیا، ’’جو ہم 14 اگست کو مناتے ہیں، اسے آزادی کہتے ہیں‘‘زینب اس کے جواب پر ہنسنے لگی۔

’’ارے نہیں،آزادی کا مطلب ہے، ہم سب کو اپنی مرضی اور آزادی سے رہنے کی اجازت ہو ،جیسے کسی کو قید میں نہیں رکھا جا سکتا، سب اپنے اپنے گھروں میں خوش رہتے ہیں۔ یہ پرندے ان کھلی فضاؤں میں آزادی سے اڑتے ہوئے ہی پیارے لگتے ہیں۔اب سمجھیں آزادی کسے کہتے ہیں؟‘‘ زینب نے پوچھا۔

’’اچھا اگر،تمہیں ایک کمرے میں بند کر دیا جائے، تمہیں سب آسائشیں ملیں، تمہاری ہر ضرورت پوری کی جائے تو کیا تم اس ایک بند کمرے میں خوش رہو گی؟‘‘ زینب نے مزید وضاحت کرنا چاہا

’’نہیں،بالکل بھی نہیں‘‘، زلیخا نے فوراً نفی میں سر ہلایا۔

’’بالکل اسی طرح یہ پرندے بھی قید میں خوش نہیں رہ سکتے۔تم نے دیکھا،یہ ننھی چڑیا کتنی اداس بیٹھی ہوئی تھی،لیکن جب آزاد ہوئی تو کیسے خوشی کے نغمے گا رہی تھی۔اب سمجھ آیا کہ آزادی کیا ہے؟‘‘ ’’جی،سمجھ آگئی۔تو اس کا مطلب ہے، ہمیں پرندوں کو قید نہیں کرنا چاہئے ۔اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو آزادی کا حق دیا ہے‘‘ ۔کہتے کہتے اچانک زلیخا زینب کے گلے لگ گئی اور کہنے لگی کہ، ’’تم میری بہت اچھی دوست ہو زینب۔

تم نے آج مجھے بہت اچھا سبق پڑھایا ہے،میں آئندہ کبھی بھی پرندوں کو قید نہیں کروں گی،اور اپنی دوستوں کو بھی آزادی کی اہمیت بتاؤں گی اور بتاؤں گی کہ یہ ہوتی ہے آزادی ‘‘ ۔ ’’یہ تو بہت اچھی بات ہے زلیخا، آؤ میں تمہیں اپنی ڈرائنگ دکھاؤں جو میں نے بنائی ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔

تازہ ترین