• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عنبر جمشید، بہاولنگر

’’عون پتا ہے اس بار میں 14 اگست پر کیا لے رہی ہوں؟‘‘ فائزہ نے اپنے چھوٹے بھائی عون سے پوچھا۔

’’کیا لے رہی ہو؟ میں کوئی جن ہوں جو مجھے پتا ہو گا؟‘‘ عون نے معصومیت سے کہا۔

’’ہاہاہا، جب میں پری ہو سکتی ہوں تو تم جن کیوں نہیں ہو سکتے؟‘‘ فائزہ مسکرائی۔

’’اچھا، کیا لے رہی ہو؟ ذرا ہمیں بھی تو پتا چلے‘‘۔ عون نے پوچھا۔

’’میں امی سے کہوں گی کہ مجھے جینز اور شرٹ لے کر دیں،نئے فیشن کے مطابق لباس خریدوں گی، وہ بھی قومی پرچم والا‘‘۔ فائزہ نے کہا۔

’’ٹھیک ہے پھر میں امی سے کہوں گا کہ مجھے14 اگست پر ایک ڈیک لے کر دیں، تا کہ میں اونچی آواز میں میوزک سن سکوں۔ تم جانتی ہو کہ مجھے ہنی سنگھ کے گانے بہت پسند ہیں۔ میں اس کے گانے بجاؤں گا‘‘۔ عون نے بھی اپنا ارادہ ظاہر کر دیا۔’’لیکن میرے بھولے بھیا، 14 اگست پر تو ملی نغمے گائے جاتے ہیں‘‘۔ فائزہ نے ہلکی سی چپت عون کے سر پر لگاتے ہوئے کہا۔

’’نہیں، میں تو ہنی سنگھ کے گانے لگاؤں گا‘‘۔ عون نے اکڑ کر کہا۔

دادی جان، جو تھوڑے فاصلے پر برگد کے درخت کے نیچے بیٹھی تھیں اپنی عینک اتار کر آنکھوں میں امڈ آنے والے آنسو صاف کرنے لگیں۔ انھیں اپنے بچپن کا زمانہ یاد آ گیا تھا۔ جب وہ اور باقی بچے پاکستان بننے کا خواب دیکھا کرتے تھے اور ان کے ابا جان سب بچوں سے دعا کرواتے تھے۔ جلوسوں میں شرکت کرتی تھیں پاکستان کی آزادی کے لیے بچے پرجوش ہوا کرتے تھے۔

’’تو ٹھیک ہے فائزہ تم اسٹائلش ٹی شرٹ لینا اور میں میوزک بجاؤں گا خوب دھوم ہو گی، 14 اگست پر‘‘۔ عون کی آواز سن کر دادی جان حال میں واپس آ گئیں، دعا اور تسبیح میں مشغول ہوگئیں۔ یوم آزادی کا دن قریب ہی تھا۔ لوگوں کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ فائزہ اور عون بھی اپنے پلان ترتیب دے چکے تھے۔ اگلے دن وہ دونوں اپنی امی جان کے سامنے اپنے مطالبات پیش کر رہے تھے۔

’’امی مجھے جینز اور گرین ٹی شرٹ چاہیے‘‘۔ فائزہ نے کہا۔

’’اور مجھے میوزک ڈیک چاہیے امی آپ پاپا کو بتا دیجیے گا‘‘۔ عون نے بھی اپنا مطالبہ پیش کر دیا۔

’’ٹھیک ہے بچو مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ آپ میں جشن آزادی منانے کا اتنا جذبہ ہے۔ میں ضرور آپ لوگوں کی فرمائش پوری کروں گی‘‘۔ امی نے مسرت بھرے لہجے میں کہا اور دادی جان افسوس سے سر ہلانے لگیں جو آخری امید انھیں تھی وہ بھی دم توڑ گئی۔ ان کی امی انھیں سمجھانے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ وہ ایک بار پھر ماضی میں کھو گئی۔

کچھ دیر بعد دادی جان نے فائزہ اور عون کو اپنے پاس بلایا اور پوچھنے لگیںکہ ، ’’آزادی کی حقیقت کیا ہے بچو؟‘‘ ۔ دونوں بچوں نے ہم آواز ہو کر کہا کہ، ’’دادی جان، گھر سجانا، گھومنا پھرنا، کھانا پینا، نئے کپڑے پہننا، جشن آزادی کے فنکشن اٹینڈ کرنا، انجوائے کرنا، ملی نغمے سننا وغیرہ‘‘۔

’’نہیں میرے بچو، یہ آزادی کی حقیقت نہیں ہے‘‘۔ دادی جان مسکرائیں۔’’تو پھر کیا حقیقت ہے دادی جان؟‘‘ وہ دونوں حیران ہوئے۔

’’آزاد صرف کھلی فضا میں سانس لینے کا نام نہیں ہے اور نہ ہی اپنی پسند کی چیزیں خریدنے کا نام آزادی ہے بلکہ دوسروں کی مدد کرنا، اپنے معاشی فرائض پورے کرنا، ہر ایک کے حقوق کا خیال رکھنا، ان کے ساتھ مل جل کے رہنا ان کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھنے کا جذبہ پیدا کرنا‘‘۔ دادی نے کہا اور وہ دونوں سر ہلانے لگے۔

’’جب کوئی تحریک کسی قوم کے بچوں میں منتقل ہو جائے تو اس قوم اور تحریک کو دبانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جاتا ہے‘‘۔ دادی جان نے کہنا شروع کیا۔

’’بچو! تم اس قوم کے معمار ہو، تمہاری سوچ مثبت اور تعمیری ہو گی تو پاکستان ترقی کرے گا اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو گا‘‘۔ دادی جان نے سمجھایا۔

دادی جان کی بات فائزہ اور عون کی سمجھ میں آ گئی اور وہ سوچنے لگے کہ امی کو اپنی فرمائشیں پوری کرنے سے منع کر دیں گے اور فلاحی کام کریں گے، کیوں کہ یہی تو آزادی کی حقیقت ہے جب پاکستان ترقی کرے گا، غیروں کے رواج اور ان کی تقلید چھوڑ دی جائے گی تو صحیح معنوں میں آزادی کی حقیقت سامنے آئے گی، پھر وہ دونوں سوچنے لگے کہ، ہم کیا کیا کر سکتے ہیں۔

کچھ دیر بعد وہ دونوں دوڑ کر اندر گئے اور جوتے، کپڑے اور کھلونے نکالنے لگے تا کہ انھیں غریب بچوں میں بانٹ کر انھیں آزادی کا احساس دلا سکیں۔ دادی جان مسکرا کر تسبیح کے پڑھنے میں مصروف ہو گئیں، کیوں کہ ان کی بات بچوں کی سمجھ میں آ گئی تھی۔

تازہ ترین
تازہ ترین