پاکستان کی بنیادوں میں کچھ طبقات ایسے رچ بس گئے ہیں جس کی وجہ سے جمہوریت اس ملک میں پنپ نہیں سکی۔ میں پچھلے مقالوں میں ایک مختلف نظام جمہوریت کے قیام کی طرف اشارہ کرتا رہا ہوں جو اس طرح قائم کی جائے کہ ملک سے بدعنوانی اور نا انصافی کا نام و نشان مٹ جائے اور کسی خاص طبقے کی اجارہ داری قائم نہ رہ سکے بلکہ ملک کے لئے موزوں ترین ماہرین پر مشتمل ایک ٹیکنو کریٹ (technocrat) حکومت قائم کی جاسکے۔ قائد اعظم محمد علی جناح بھی 1947ء میں پاکستان میں رائج برطانوی پارلیمانی نظام جمہوریت کے حق میں نہیں تھے جس کا اندازہ ان کے بقلم خود تحریر کردہ نوٹ سے صاف ظاہر ہوتا ہے جس میں انہوں نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ برطانوی پارلیمانی نظام جمہوریت دنیا کے کسی بھی ملک میں کامیاب نہ ہوسکا سوائے برطانیہ کے جبکہ صدارتی نظام جمہوریت پاکستان کے لئے موزوں ہے۔ ان کی تحریر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس (Oxford University Press) کی شایع شدہ ایک کتاب جس کا عنوان ’’جناح بیاض‘‘ (The Jinnah Anthology) ہے اس میں صفحہ نمبر 81 پر شائع ہوچکی ہے اور اس تحریر کی تصدیق میں نے نیشنل ڈیفنس جامعہ سے کرائی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے قائد کو پارلیمانی نظام جمہوریت کے بارے میں تشویش کیوں لاحق تھی؟ انہوں نے بہت سے مواقع پر جو جاگیردارانہ نظام ہمارے ملک میں رائج ہے اس پر اپنے گہرے دکھ کا اظہار کیا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی وسیع النظری پاکستان کی تاریخ میں آنے والے خطرات کو پہلے ہی بھانپ چکی تھی اور انہوں نے قوم کو بدعنوان جاگیرداروں کے بارے میں خبردار کیا تھا جو آج حکومت کو اپنے مضبوط شکنجے میں جکڑے بیٹھے ہیں۔ قائد اعظم نے ایک تقریر میں اپنی قوم کو مندرجہ ذیل الفاظ میں خبردار کیا تھا: ’’میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے خرچ پر ایسے نظام کی بدولت پھل پھول رہے ہیں جو اتنا فرسودہ ہے کہ اس نے ان جاگیرداروں کو اتنا خود غرض بنادیا ہے کہ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا مباحثہ بے معنی ہے۔ عوام کا استحصال ان کے خون میں رچ بس گیا ہے۔ وہ اسلام کا سبق بھول چکے ہیں‘‘۔ (از اقتباس: آل انڈیا مسلم لیگ سیشن، دہلی، 24 اپریل 1943)۔ قائد اعظم قوم پرستی کے نام پر صو بائیت کے شر کے بارے میں بھی بہت فکر مند تھے ۔ ایک تقریر میں انہوں نے بیان کیا ــ ـ"یہ بات قدرتی طور پر مجھے دکھی کر دیتی ہے جب میں پاکستان کے کسی بھی حصے پر صوبائیت کے غلبے کی لعنت دیکھتا ہوں ۔ پاکستان کو اس شر سے پاک ہونا چاہئے۔ اب ہم سب پاکستانی ہیں نہ کہ بلوچی ، پٹھان ، سندھی پنجابی وغیرہ وغیرہ ۔ اور ہمیں اپنے روئیے اور عمل سے بحیثیت پاکستانی قدم ملا کر چلنا چاہئے اور ہمیں اپنی پہچان بطور پاکستانی قدم ملا کر چلنا چاہئے اور ہمیں اپنی پہچان بطور پاکستانی پر فخر ہونا چاہئے اس کے سوا کچھ نہیں (کوئٹہ کی بلدیہ کی جانب سے پیش کردہ تقریر کے جواب میں خطاب 15 جون ، 1948)"
قائد اعظم محمد علی جناح نے اندازہ لگالیا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت صرف اسی وقت پنپ سکتی ہے جب زیادہ تر عوام تعلیم یافتہ ہوں۔ کیونکہ صرف اسی طرح عوام بدعنوان سیاستدانوں کے درمیان بے لوث قیادت کو تلاش کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں۔ اس لئے پاکستان کی کامیابی کے لئے وہ بار بار تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے تھے کہ یہی وہ واحد عنصر جو پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا: ’’تعلیم کے بغیر مکمل تاریکی ہے اور تعلیم روشنی ہے۔ اس عوام کے لئے تعلیم زندگی اور موت کا سوال ہے۔ دنیا جس برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے کہ اگر اس وقت تم نے تعلیم کا دامن نہ تھاما تو نہ صرف پیچھے رہ جائو گے بلکہ ناپید ہوجائو گے۔ نبی پاک ﷺ نے اپنے پیروکاروں کو بھی حکم دیا کہ علم کی جستجو کرو چاہے اس کے لئے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ یہ حکم اس وقت تھا جب جدیدذرائع نہ تھے تو اب تو مسلمانوں کو اسلام کے سچے پیروکاروں کے طور پر اسلام کی شاندار روایات کو برقرار رکھتے ہوئے علم کے حصول کے لئے تمام دستیاب مواقع استعمال کرنے چاہئیں۔ کوئی بھی وقت یا ذاتی تسلی کی قربانی اس قدر عظیم شمار نہیں ہوگی سوائے اسکے جو کہ تعلیم کی ترقی کے لئےکی جائے۔‘‘ بدقسمتی سے جاگیردارانہ غلبے کے تحت ہمارے ترقیاتی منصوبوں کا سب سے زیادہ نظر انداز شعبہ تعلیم بن گیا ہے اور آج پاکستان کا شمار تعلیم پر خرچ کے لحاظ سے دنیا کے سب سے نچلے ان 10ممالک میں ہوتا ہے جو اپنی جی ڈی پی کا سب سے کم فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی سوچی سمجھی سازش ہے جس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ پچھلے 10 سالوں میں تعلیم کا بجٹ صرف جی ڈی پی کا تقریباً 2 فیصد رکھاگیا تاکہ اکثریت لوگ جاہل رہیں اور وہ اس جہالت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو غلام رکھیں اور ان پر حکومت کرکے ان کو لوٹتے رہیں۔
قائد اعظم کی وسیع النظری سے بدعنوانی کا عنصر بھی نہیں چھپا ہوا تھا۔ جہاں انہیں عوام میں تعلیم عام کرنے کی اور جاگیرداری نظام کو ختم کرنے کی فکر تھی وہاں انہیں یہ بھی فکر تھی کہ ناخواندگی اور مضبوط جاگیرداری نظام کی موجودگی میں ملک میں بدعنوانی بھی اپنے عروج پر ہوگی۔ ان کی یہ فکر بجا تھی کیونکہ بدعنوان لیڈروں پر مشتمل متعدد حکومتوں نے عدالتی نظام کو بھرپور طریقے سے پامال کیا اور نیب، ایف آئی اے، پولیس سمیت دیگر ایجنسیوں کو اپنی حفاظت کے لئے استعمال کیا اور تمام ملکی اثاثوں کی لوٹ مار کرکے ملک کو قرض کے گہرے سمندر میں غرق کردیا۔ قائد اعظم نے بدعنوانی کے بارے میں اس طرح متنبہ کیا: ’’بدعنوانی بھارت میں اور بالخصوص مسلمانوں کے درمیان ایک لعنت ہے، خاص طور پر نام نہاد تعلیم یافتہ اور طبقۂ فکر میں۔ بدقسمتی سے یہی طبقہ عقلی طور پر اور اخلاقی طور پر بدعنوان اور خودغرض رہا۔ بے شک یہ بیماری عام ہے، لیکن مسلمانوں کے اس مخصوص طبقے میں یہ بہت زیادہ ہے۔‘‘ (محمد علی جناح کا اصفہانی سے خطاب، 6 مئی1945ء) ایک اندازے کے مطابق ہمارے حکمرانوں کی طرف سے لوٹے ہوئے مال جسے بیرون ملک مختلف ’’فرضی ناموں‘‘ سے جمع کیا گیا ہے کا تخمینہ 500 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ ہمارے سابق وزیر خزانہ کے مطابق اکیلے ایف بی آر 500 ارب روپیہ سالانہ کی بدعنوانی کی ذمہ دار ہے۔ کراچی میں سرکاری زمین کی ہیرا پھیری میں ایک سیاسی جماعت نے 30,000 شہری پلاٹس غیر قانونی طور پر فروخت کردیے جس کا تخمینہ 60,000 کروڑ روپے (600 ارب روپے) ہے۔ توانائی کے منصوبوں میں میگافراڈ کے ذریعے ہمارے ایک بدعنوان وزیراعظم نے متروک پاور پلانٹس کی تنصیب کراکر بجلی کے نرخوں میں اس قدر اضافہ کیا کہ ہماری صنعتیں اور برآمدات تباہ ہوگئیں، لاکھوں افراد بے روزگار ہوگئے اور بڑے پیمانے پر غربت نے اپنا ڈیرہ جمالیا۔
جس طرح قائد اعظم محمد علی جناح کے مختلف خطابات اور تحریری نوٹ سے صدارتی نظام جمہوریت کے قیام کی حمایت کی تصدیق ہوتی ہے اسی لئے میں بھی اپنے قائد کی خواہش کی حمایت کرتے ہوئے اس صدارتی نظام جمہوریت کی حمایت اپنے گزشتہ کئی مقالوں میں کرچکا ہوں، نظام جمہوریت کی کامیابی کے لئے قومی نظام میں 3 بڑے دھڑوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کام کرنا ہوتا ہے۔
یہ، قانون ساز حصہ (Legistative) یعنی پارلیمنٹ، حکومتی عملی ادارے (Executive) یعنی وزارتوں اور دیگر اداروں پر مشتمل اور تیسرا حصہ عدلیہ (Judiciary) ہیں۔ ایک متحرک جمہوریت کے لیے یہ علیحدگی بہت ضروری ہے جوکہ اس موجودہ پارلیمانی نظام کی موجودگی میں ممکن نہیں کیونکہ حکومتی وزارتوں کا سربراہ ’’وزیراعظم‘‘ پارلیمنٹ کو بھی کنٹرول کرتا ہے جو انتظامیہ کا بھی سربراہ ہوتا ہے اور تمام اہم اداروں اور پولیس، ایف بی آر، ایف آئی اے، ایس ای سی پی کے سربراہان بھی وہی مقرر کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہی سیاسی ساتھیوں کو اہم عہدوں پر مقرر کرتا ہے یہ لوگ پھر وزیراعظم اور ان کے دیگر کابینہ کے ساتھیوں کو بڑی بدعنوانیوں میں پکڑے جانے سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ صدارتی نظام جمہوریت میں کیونکہ وزیر پارلیمنٹ سے منتخب نہیں ہوتے اس لئے تینوں دھڑے علیحدہ علیحدہ کام کرسکتے ہیں۔
صدارتی حکومت کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ صدر مختلف شعبوں میں ملک کے اعلیٰ ترین ماہرین کو براہ راست وفاقی وزراء کے طور پر مقرر کرسکتے ہیں۔ کیونکہ وزراء اس نظام کے تحت پارلیمان سے منتخب نہیں کئے جاتے۔ اس طرح ملک کے وہ ممتاز افراد جو انتخاب لڑنے میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں وہ بھی اپنے ماہرانہ تجربہ سے ملک کو فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔اس کے علاوہ صدارتی نظام حکومت میں پارلیمنٹ کے اراکین قانون سازی اور اس کے نفاذ تک محدود رہتے ہیں۔ اس طرح بدعنوان سیاست دان جو پارلیمنٹ کے رکن بننے کے لئے کروڑوں روپے اس لالچ میں خرچ کرتے ہیں کہ منتخب ہونے کے بعد کابینہ کا حصہ بن کر بڑے پیمانے پر بدعنوانیاں کرکے اربوں روپیہ کمالیں گے ان کے ایسے ارادوں پر اوس پڑجاتی ہے۔
اس تیز رفتار ترقی کے دور میں جہاں ہر روز نت نئی ایجادات جلوہ گر ہورہی ہوں اور پچھلی ایجادات کی اہمیت کو ماند کرتی جارہی ہوں، جہاں ہر ملک ہر خطہ اس دوڑ میں آگے نکلنے کی کوشش کررہا ہو وہاں تکنیکی مہارت سے آراستہ وزراء کی موجودگی نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ ایک مضبوط علمی معیشت کے قیام کےلئے اعلیٰ تکنیکی شعبوں میں صنعتکاری ضروری ہے ۔ جبکہ اس پارلیمانی نظام کے تحت منتخب ہونے والے زیادہ تر سیاست دان بہت کم یا بالکل ہی کوئی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے کہ ایک مضبوط علم معیشت قائم کرنے کے لئے کون سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان، سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود غربت کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔
مندرجہ بالا حقائق اور بانی پاکستان کے تفکرات سے یہ واضح ہے کہ ایک دیانت دار، قابل اور بربصیرت تکنیکی ماہرین پر مشتمل ایک صدارتی نظام جمہوریت پر مبنی حکومت وقت کی اہم ضرورت ہے اور یہی بہترین موقع ہے جہاں سپریم کورٹ کو اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)