سیاسی منظر نامہ کافی حد تک واضح ہو چکا ہے۔ امکانی طور پر اگلے ہفتے مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی کا عمل مکمل ہو جائے گا۔تحریک انصاف وفاق ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومتیں قائم کر لے گی۔ یعنی مسلم لیگ (ن) کی حکومت مرکز میں بنے گی اور نہ صوبے میں۔ اگرچہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں اب بھی مسلم لیگ (ن) بر سر اقتدار ہے ، مگر ان حکومتوں کے متعلق بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ انکا مستقبل کیا ہو گا۔ نئے پاکستان میں صورتحال، 2013 والے پرانے پاکستان سے یقیناََ مختلف ہو گی۔ 2013 میں مسلم لیگ (ن) اپنی اتحادی جماعتوں کیساتھ مل کر صوبہ خیبر پختونخوامیں حکومت قائم کر سکتی تھی ۔مرکز میں بھاری مینڈیٹ کی حامل سیاسی جماعت ہونے کے ناطے یہ کام انتہائی آسان تھا۔ لیکن میاں نواز شریف نے ـ" اقدار کی سیاست" کا نعرہ لگاتے ہوتے ، کسی بھی قسم کے سیاسی جوڑ توڑ سے گریز کیا ۔اور یوںتحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ بلوچستان میں بھی مسلم لیگ (ن) نے واضح اکثریت حاصل کی تھی، وہاں حکومت بنانا اسکا آئینی و قانونی حق تھا۔ مگر بلوچ عوام کی محرومیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نواز شریف نے اقتداربلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے حوالے کر دیا۔ پرانے پاکستان میں ایسا بھی وقت آیا جب آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور اسکے وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا تھا۔ ماضی کی روایات کے قطعی بر عکس ،اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے مسلم لیگ (ن) کے اراکین کو اس تحریک کا حصہ بننے سے روک دیا تھا اور یوں پیپلز پارٹی کی حکومت گرنے سے بچ گئی۔ اب مگر حالات وہ نہیں ہیں۔ انتخابی نتائج کے مطابق ، مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں اکثریت حاصل کی ۔ اصولی طور پر حکومت سازی اسکا حق تھا۔ مگر تحریک انصاف پنجاب میں حکومت بنانے کے لئے کو شاں رہی (اور اب تک ہے)۔ اس مقصد کے حصول کیلئے انتہا درجے کی جوڑ توڑ کی گئی۔ گجرات کے چوہدری برادران (جنہیں ماضی میں عمران خان ملک کے سب سے بڑے ڈاکو قرار دیتے تھے)کو اپنے ساتھ ملایا۔ آزاد اراکین کو جہازوں میں لاد کر بنی گالہ پہنچایا گیا ۔ دوسری طرف مسلم لیگ(ن) نے بھی رسم دنیا نبھاتے ہوئے، مارے بندھے ہی سہی، حکومت سازی کی کوشش کی۔ کچھ بلند و بانگ بیانات اور اعلانات بھی داغے۔ مگر پنجاب میں حکومت بنانے کے معاملے کو زندگی موت کا مسئلہ نہیں بنایا۔وجہ یہ نہیں کہ مسلم لیگ(ن) کو اقتدار کی پروا نہیں۔ اصل وجہ یہ کہ مسلم لیگ (ن)کو "ہوائوں " کے رخ کا اچھا خاصا اندازہ ہے۔ اسے بخوبی معلوم تھا کہ جن نا ساز گار موسموں نے اسکے قائد اور جماعت کو اس حال تک پہنچایا ہے۔ اس موسم کی تندی اور نا سازگاری تا حال قائم و دائم ہے۔ ایسے موسم میں حکومت سازی کی امیدیں باندھنا دیوانے کے خواب کے مترادف ہے۔
دوسری طرف انتخابی نتائج کی ساکھ کے حوالے سے جو سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے تھے وہ ابھی تک جواب طلب ہیں۔ جب تک ان سوالات کا شافی جواب نہیں ملتا، حکومت کی قانونی اور اخلاقی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا رہے گا۔ 2014 میں ایک انتخابی اصلاحات کمیٹی بنائی گئی تھی، جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے نمائندگان شامل تھے۔ اس کمیٹی نے سو سے ذیادہ میٹنگز کیں اور سفارشات پیش کیں۔ انہی سفارشات کی روشنی میں عملی اقدامات اٹھاتے ہوئے الیکشن کمیشن کو مزید با اختیار بنایا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 2018 میں پولنگ کا عمل 2013 سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔پولنگ کی شفافیت میں کوئی دو رائے نہیں۔ اصل مسئلہ مگر گنتی (counting) کا ہے۔ گنتی کے مرحلے میںقانونی تقاضوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ تاویل دی جا رہی ہے کہ RTS سسٹم کی سست رفتاری کی وجہ سے نتائج کے اعلان میں تاخیر ہوئی۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ فارم 45 پر انتخابی نتائج کے اندراج اور ایجنٹوں کو اسکی حوالگی سے RTS کا کوئی تعلق نہیں ہے۔RTS کا کام (یعنی انتخابی نتائج کو برق رفتاری سے الیکشن کمیشن کے دفتر میں پہنچانا) تو فارم 45 مکمل ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ ووٹ ڈالنے کا عمل مکمل ہونے کے بعد، ووٹوں کی گنتی کی جاتی ہے۔ فارم 45 پر نتائج کا اندراج ہوتا ہے۔ تمام پولنگ ایجنٹ اس نتیجے پر دستخط کرتے ہیں۔ قانونی طریقہ کار کے مطابق یہ گنتی اور اندراج پولنگ ایجنٹوں یعنی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے سامنے ہوتا ہے۔ اگر کسی جماعت کا نمائندہ غیر حاضرہوتا ہے تو فارم 45 پر اس غیر حاضری کا بھی با قاعدہ اندراج کیا جاتا ہے۔ اسکے بعد یہ فارم ایجنٹوں کے حوالے کر دیا جاتاہے۔ اصل سوال یہی ہے کہ گنتی کے وقت پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشنوں سے باہر کیوں نکالا گیا؟ ان انتخابات پر اس غریب قوم کے ٹیکس سے 21 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ ہوئی ہے۔ لہذا الیکشن کمیشن آف پاکستان اور تمام متعلقہ اداروں پر اس سوال کا جواب لازم ہے۔
ایک اور معاملے نے انتخابات کے حوالے سے شکوک و شبہات کو ہوا دی ہے۔ جن جن حلقوں میں دوبارہ گنتی ہوئی ، بیشترمیں پی ٹی آئی کے جیتے ہوئے، اراکین ہار گئے ۔ سو اب مزید حلقے کھولنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ عمران خان نے انتخابات جیتنے کے بعد اپنے ابتدائی خطاب میں وعدہ کیا تھا کہ اگر کسی جماعت کو کسی بھی حلقے کے نتیجے پر اعتراض ہے تو وہ اسے کھولنے کیلئے تیار ہیں ۔ لیکن جب انکے اپنے حلقے کا معاملہ پیش آیا تو وہ اپنے وعدے پر قائم نہیں رہ سکے۔ یہا ں تک کہ جب لاہور ہائی کورٹ نے دوبارہ گنتی کا فیصلہ جاری کیا اور ووٹوں کے تھیلے کھول کر گنتی کے عمل کا آغاز ہوا تو عمران خان اس عمل کو روکنے کیلئے سپریم کورٹ پہنچ گئے اور ہائی کورٹ کے حکم کو ختم کر دیا گیا۔ اتنے واضح اعلان کے بعد عدالت کے ذریعے گنتی کے عمل کو روک کر خان صاحب نے اچھا تاثر قائم نہیں کیا۔
سیاسی صورتحال یہ ہے کہ حکومت تشکیل پانے سے بھی پہلے اپوزیشن تشکیل پا گئی ہے۔ یہ اپوزیشن اس قدر بھاری بھرکم ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کیلئے مستقل درد سر بنی رہے گی۔ اصل مشکل یہ ہے کہ تحریک انصاف قانون سازی (جو پارلیمنٹ کا اصل کام ہے) کرنے کے قابل نہیں ہے ۔ آئین میں ترمیم کرنا تو خیر نا قابل تصور ہے ، روز مرہ کی قانون سازی کرنے کیلئے بھی اسے اپوزیشن پر انحصار کر نا ہو گا۔ قومی اسمبلی میں توپھر بھی تحریک انصاف کو بال برابر اکثریت حاصل ہو گی۔ سینٹ میں مگر اپوزیشن واضح اکثریت میں موجود ہے۔ ایسی صورت میں اپوزیشن جماعتوں کا سہارا نا گزیر ہو گا۔ یوں لگتا ہے کہ بہت جلد عمران خان کو اپوزیشن کی کسی بڑی جماعت سے معاملات طے کرنا پڑیں گے۔ یہ جماعت پیپلز پارٹی ہی ہو سکتی ہے۔ جس کے گرد نیب اور ایف۔آئی ۔اے کے ذریعے گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی پناہ کیلئے تحریک انصاف کی چھتری تلے آجائے۔ یعنی امداد باہمی کے تحت معاملات چلتے رہیں گے۔ رہی مسلم لیگ (ن) تو اگر میاںشہباز شریف ہی قائد حزب اختلاف بنتے ہیں تو یہ خان صاحب کی ایک اور خوش قسمتی ہو گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)