• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت پھبتیاں کسی گئی تھیں کہ کھلاڑی کا کیا کام ہے میدانِ سیاست میں۔ لیکن وہ دُھن کا پکا رہا اور بغیر کسی تکان کے ہر طرح کے باؤنسر مارتا چلاگیا، لیکن ایمپائر کی انگلی تھی کہ اُٹھتی کی اُٹھتی رہ گئی۔ ورلڈ کپ کی طرح وزارتِ عظمیٰ کا کپ حاصل کرنے کے لئے کیا جتن تھے کہ اُس نے نہ آزمائے۔ کیا فاؤل ہے، کیا اسپورٹس مین شپ نہیں، اُسے کوئی پروانہیں تھی کہ کونسا ہتھیار ممنوع ہے یا پھر کیا ماورائے جمہوریت یا آئین ہے۔ بس ایک عزمِ پیہم تھا اور بلا کی نہ ختم ہونے والی جنگجوئیت کہ بالآخر عمران خان نے میدان مار لیا۔ مخالفین کی بگڑتی اخلاقی ساکھ اور کمزور وکٹوں کا کہ کپتان نے وہ کر دکھایا جس کا کہ اختیار صرف اوپر والے کا ہے کہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت! اب مشیتِ ایزدی کے خلاف کسی کی کیا مجال کہ ٹھہر سکتا، بھلے بے زبان خلقتِ خدا جو چاہا کیے اب حزبِ اختلاف ’’دھاندلا، دھاندلا‘‘ کا کیسا ہی شور مچایا کرے، کسی تحقیقاتی پارلیمانی کمیشن پہ اتفاق ہوتے ہی، ٹرک کی بتی کے پیچھے پیچھے چلتے رہنے کا بندوبست ہو ہی جائے گا اور پھر انتظار کیجیے کہ یا تو اگلی باری آ جائے گی یا پھر اس کی حسرت ہی رہے گی۔ عمران خان قسمت کے بڑے دھنی ہیں۔ انتخابی دنگل میں ابھی تو اُترے ہی تھے کہ سب سے بڑی حریف ٹیم کے کپتان ہرٹ ہو کر جیل پہنچ گئے اور ایسا وائس کپتان سامنے آیا جو کریز پر کھڑا رہنے کے قابل ہی نہ تھا۔ اور اس کی ٹانگیں ہیں کہ ابھی تک کانپے جا رہی ہیں کہ اُن کے ساتھ بھی وہی نہ ہو جو برادرِ بزرگ کے ساتھ ہوا۔ پانی پت کی اس جنگ میں (1526 والی نہیں 2018 کے پنجاب میں انتخابی یُدھ) ابراہیم لودھی (نواز شریف) ہی میدان سے نکل گیا تو اس کی پیدل فوج ظہیر الدین بابر (عمران خان) کے توپخانے کے سامنے کہاں ٹھہرتی جبکہ راجدھانی دلی سے دولت خان لودھی کی حمایت بھی اُسے حاصل تھی۔ اس جنگ میں پہلی بار بارود اور توپخانہ استعمال ہوا تھا جس کے سامنے لودھی کی پیدل فوجیں نہ ٹھہر سکیں۔ لیکن 2018 کی انتخابی جنگ میں تمام تر مشکلوں کے باوجود مسلم لیگ ن پھر بھی 43.4فیصد ووٹوں کے ساتھ 129 صوبائی نشستیں بچا پائی اور تحریکِ انصاف 42.3 فیصد ووٹوں کے ساتھ 123 نشستیں لے اُڑی۔ بھلا ہو سرائیکی وسیب کے دولت خانوں کا کہ وہ آج کے ابراہیم لودھی کو چھوڑ بابر چُغتے کے توپخانے پہ سوار ہو گئے اور یوں پنجاب کی یہ انتخابی جنگ نہ جیتنے کے باوجود بھی عمران خان جیت گئے، رہی سہی کسر دولت خاں نے آزاد دستوں کو تحریکِ انصاف میں شامل کر کے پوری کر دی اور آزاد اراکین نااہل کیے گئے جہانگیر ترین کے صداقت و امانت کے امین طیارے میں سوار ہو گئے اور اُس کے ساتھ ہی ہمارے ملتان کے گدی نشین ہاتھ ملتے رہ گئے اور جن پتوں پہ قریشی صاحب کا سہارا تھا وہ میاں والی قریشیاں کے پیروں کے کیوں کام نہ آئیں۔ وزارتِ خارجہ سے انکار تو کیا ہی تھا، اب اسپیکر کی گدی بھی گدی نشیں کو نہ مل پائی۔ آہ!


اب ’’تبدیلی‘‘ آئی نہیں، تبدیلی آ گئی ہے اور عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ دھن برسنا رُکنے کو نہیں۔ بجائے اس کے کہ بقول شخصے (جو گزشتہ روز بیچارے مجہول الیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرے میں شامل تھا) کہ ’’جس کی چوری ہوئی، وہ تو آیا نہیں‘‘، میدان میں خم ٹھونک کر اُترےبھی تو مولانا فضل الرحمان۔ حد سے گزرنے والوں کے خلاف حد سے گزر جانے والے مولانا کے ساتھ نہ برادرِ خورد جانشین نظر آیا اور نہ بھٹو کا نواسہ۔ پانی پت کی جنگ میں کامیابی کے راز دولت خاں لودھی کا کمال ہے کہ ختم ہونے کو نہیں۔ ایسے میں عمران خان کی بلا سے ہارنے والے کیسے ہی ٹسوے بہایا کئیں۔ ابراہیم لودھی کو جب شکست ہوئی تھی تو اس کے بعد اس کے خاندان کا نام و نشان نہ رہا، لیکن شریف خاندان ابھی بھی اپنی خاندانی میراث میں پھنس کر جو بچا کھچا ہے شاید وہ بھی نہ بچا پائے۔ اوپر شہباز شریف اور پنجاب میں حمزہ شہباز بطور اپوزیشن لیڈرز عمران خان کے لئے پردۂ غیب سے ایک اور انمول تحفے سے کم نہیں۔ ایسے میں پیپلز پارٹی والوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ اوکھلی میں سر دیں اور ’’تجھے پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو‘‘ کے مصداق اپنی سندھ کی گدی سنبھالے رکھیں۔ اور مروج طاقت سے ٹکر کیوں لیں جب ’’چوری کے مال‘‘ کی تلوار عظمیٰ میان میں جاتی نظر نہیں آ رہی۔ رہے ہمارے بیچارے مولانا فضل الرحمان وہ مولانا عبید اللہ سندھی بننے سے رہے، لیکن وہ اکوڑہ خٹک کے سمیع الحق بننے کو بھی تیار نہیں۔ ویسے بھی کلمہ حق کہنے والے علمائے حق اب متحدہ مجلس عمل میں دیکھنے کو نہیں، اوپر سے جناب سراج الحق اپنے پرانے اتحادی کو وقت دینے پہ مائل لگتے ہیں۔ اندریں حالات ’’دھاندلے‘‘ کے خلاف احتجاج فی الوقت وقتی اُبال ہی رہے گا اور فقط اس بیان تک کہ ’’یہ نتائج ہمیں قبول نہیں۔‘‘


ہماری مظلوم و مقہور جمہوریت کا یہ تاریخی المیہ رہا ہے کہ پاکستان میں آزادانہ انتخابات کا چلن رہا ہے اور نہ انتخابی نتائج کو قبول کیا گیا ہے۔ مملکتِ خداداد کے رنگ ہی نرالے ہیں۔ حقِ رائے دہی کے استعمال سے آزادی ملی بھی تو حقِ رائے دہی نہ رہا۔ آئین بنے بھی تو چل نہ پائے۔ 1973 کا عمرانی معاہدہ ہوا بھی تو کتنی ہی بار توڑا گیا اور یہ سلسلہ ہے کہ ختم ہونے کو نہیں۔ عدلیہ کی آزادی کے لئے جنگ لڑی گئی اور ایک طاقتور عدلیہ وجود میں آئی بھی تو کس کے لئے اور عام آدمی کے لئے انصاف کا دور دور تک نشان نہیں۔ میڈیا کی ’’آزادی کے لئے جنگ رہے گی‘‘ مسائل کا شکار ہے۔ ایک طاقتور الیکشن کمیشن بنا بھی لیا اور ایک زبردست انتخابی قانون بھی، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ سلامتی ایک دیرینہ مسئلہ رہی، سو ہے۔ شہری و انسانی حقوق آئین میں لکھے ہی رہ گئے اور داد رسی کی اُمید نہیں۔ سیاسی جماعتیں بنیں، بگڑیں اور ٹوٹتی رہیں لیکن جمہوری نہ بنیں۔ پارلیمنٹیں بنتی رہیں، توڑی جاتی رہیں، لیکن خود مختار نہ ہو سکیں۔ عوام کو کون پوچھتا ہے جو اُنھیں اقتدارِ اعلیٰ کا مالک بنایا جاتا۔ بس رہا نام اللہ کا جو حاضر بھی ہے ناظر بھی یا پھر اس کے غازی اور پراسرار بندے جنہیں بخشا ہے اُس نے ذوقِ خدائی۔ اس سے آگے لکھنے کی گنجائش نہیں!


خیر سے 17؍ اگست کو ہمارے قابلِ قدر ہیرو عمران خان ہمارے نئے وزیراعظم ہوں گے اور فضلِ ربی سے 16,884,266ریکارڈ ووٹ لے کر (گزشتہ انتخابات سے تقریبا 92لاکھ زیادہ)۔


اپوزیشن بھی ہنگامہ خیزی کے ساتھ ساتھ اسی پارلیمنٹ میں حلف لے کر بیٹھ رہے گی۔ بہتر ہوگا کہ کسی طاقتور پارلیمانی کمیشن کی تشکیل سے انتخابی عذر داریوں کا معاملہ حل کر لیا جائے جس پر اپوزیشن بھی مائل ہے اور تحریکِ انصاف کو بھی انکار نہیں۔ پارلیمنٹ کو چلنے دیا جائے اور وزیراعظم عمران خان کو موقع دیا جائے کہ وہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو بدلیں اور سماجی و انتظامی تبدیلی کا انقلاب بپا کریں۔ اگر پیپلز پارٹی کی 2008ء میں بننے والی حکومت اور مسلم لیگ ن کی 2013ء والی حکومت سے لنگڑا لولا جمہوری عبور آگے بڑھا تو کیوں نہ یہ تیسری سیڑھی پہ چڑھے اور تحریکِ انصاف کی حکومت کو بھی ایک موقع فراہم کرے۔ نہ پہلے جمہوری عبور کو پٹری سے اُتارنا ٹھیک تھا، نہ اب اسے پٹری سے اُتارا جائے۔ چاہے سیاست دانوں کے موضوعی جھگڑے کیسے ہی ہوں، جمہوری عمل کو اپنی تمام قباحتوں کے باوجود چلتے رہنا چاہیے، شاید اسی سے کوئی راہ نکل آئے۔ وزیراعظم عمران خان کو پارلیمنٹ میں تمام پارلیمانی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ اب وہ وزیراعظم ہیں اور انہیں ایک بااختیار اور پارلیمنٹ کو جوابدہ وزیراعظم بن کر دکھانا چاہیے۔ اُن کی کف پہ کوئی داغ نہیں، عوام کی ایک بہت بڑی تعداد انہیں دل و جان سے چاہتی ہے اور اُن سے جانے کون کونسی اُمیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ ایک معلق اسمبلی کے قائدِ ایوان کے پاس کامیابی کے لئے دو راستے ہیں۔ اوّل یہ کہ وہ تمام جمہوری قوتوں کو ساتھ لے کر چلیں اور ایک اچھی حکومت دیں اور عوام کے جمہوری، سیاسی، انسانی اور سماجی حقوق کو تقویت دیں۔ یا پھر اپنی نحیف اکثریت کی کمزوری کو دور کرنے کے لئے آمرانہ قوتوں پہ انحصار کریں اور خود بھی اس کا شکار ہو جائیں۔ اب یہ فیصلہ اُن کا ہے کہ وہ کیا رُخ اختیار کرتے ہیں۔ استحکامِ جمہوریت یا پھر کچھ اور!!


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین