• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کو علم ہے کہ میرا تعلق کراچی سے ہے اور میں بھوپال سے کراچی میں آکر بس گیا۔ میں بھوپال جنت مقام میں پیدا ہوا، میٹرک وہیں سے پاس کیا۔ وہاں تعلیمی نظام بہت اعلیٰ تھا، بورڈ کے امتحانات راجپوتانہ بورڈ کے تحت ہوتے ہیں۔ بیگمات بھوپال نے خودمختار اور آزاد حکمرانوں کے باوجود باہر کے بورڈ سے بھوپال کا تعلیمی نظام اس لئے منسلک کردیا تھا کہ نظام آزاد اور اعلیٰ رہے اور کسی قسم کی دخل اندازی، اَثر و رسوخ سے پاک رہے۔

میٹرک کے بعد میں نے حمیدیہ کالج میں داخلہ لے لیا تھا یہ تالاب کے دوسری جانب منٹو ہال میں قائم کیا گیا تھا۔ منٹو ہال بے حد خوبصورت بڑی عمارت تھی اور انگریز وائسرائے لارڈ منٹو کے نام پر رکھی گئی تھی، اس میں انگریز ایجنٹ رہتا تھا، اس کے قریب ہی چار بنگلے تھے، ایک ہی طرح کے پتھروں کی بہترین عمارتیں، ان میں وزیر خزانہ کے ایف حیدر، آئی جی پولیس مسٹر ینگ، ڈی آئی جی پولیس پرنس سلیم اور نواب صاحب کے پرسنل ڈاکٹر رہتے تھے۔

ہم لوگ تیر کر دوسری جانب جاکر کنول گٹھے کے پھول توڑ کر لاتے تھے، میرے چار بڑے بھائی، ایک بڑی بہن اور والدہ (کراچی میں طارق روڈ کے قبرستان میں دفن ہیں) پاکستان آگئے تھے، انہوں نے زور دیا کہ میں بھی کراچی آجاؤں مستقبل کے لیے بہتر رہے گا (ان کی دوراندیشی کام آئی)۔ میں بھوپال سے ایک چھوٹے سے قافلے کے ساتھ بذریعہ ٹرین اجمیر، چتوڑ گڑھ، لونی، باڑھ میر اور مناباؤ کے 7 روزہ سفر کے بعد 14اگست 1952ء کو کھوکھرا پار پہنچ گیا۔ راستے میں ہندو اہلکاروں کا رویہ نہایت ہتک آمیز تھا جو میں آج تک نہیں بھولا اور اس گہرے زخم کی وجہ سے ہی جب میں نے 1971ء میں ذلّت آمیز شکست دیکھی اور پھر 18مئی 1974ء کو ایٹمی دھماکا دیکھا تو فوراً سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آنے کا ارادہ کرلیا اور آخر کار دوسرے دورے میں دسمبر 1975ء کو بھٹو صاحب کی درخواست پر یہیں ٹھہر گیا۔ اس کے بعد جو عزّت، ذلّت، محبت، نفرت، شہرت و بدنامی ملی وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ میرا ضمیر صاف ہے کہ میں ملک کی جو خدمت کرسکتا تھا وہ اپنے خون پسینے سے کردی اور آپ سب کو نہایت طاقتور ایٹمی ملک دے دیا۔

دیکھئے بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ہمارے بھوپال سے تقسیم کے بعد ایک دوست جلال الدین خان جو برٹش آرمی میں ایس ڈی او تھے وہ پاکستان آگئے تھے اور کراچی میونسپل کارپوریشن میں ایس ڈی او ہوگئے تھے، یہ سرخ و سفید اصلی یوسفزئی پٹھان تھے۔ لیاری کے قریب میراں شاہ میں انہوں نے گھر کرائے پر لے لیا تھا۔ وہاں ایک لائن میں تین یونٹ تھے دو یونٹ میرے بھائیوں اور دوسروں نے لے لئے تھے میں بھی وہیں ٹھہر گیا تھا وہاں زیادہ تر آبادی مکرانیوں کی تھی اور تھوڑی سی تعداد پٹھانوں کی بھی تھی۔ میں آج بھی ان لوگوں کو یاد کرتا ہوں، بے حد ہنس مکھ، ملنسار، شام کو باہر بیٹھ کر ڈفلی بجا بجا کر گاتے تھے۔ جب تک اکیلے تھے ہم وہاں رہے جب والدہ اور چھوٹی بہن کراچی آئیں تو ہم جوبلی سینما کے قریب پولیس اسپتال کے سامنے ایک فلیٹ میں منتقل ہوگئے بعد میں ناظم آباد شفٹ ہوگئے کہ وہاں بھوپال کے اور کئی خاندان قیام پزیر تھے، وہاں ہمارا اچھا وقت گزرا۔

اس وقت کراچی کی آبادی بمشکل تین ملین تھی، سڑکیں صاف ستھری، اچھی بسیں اور ٹرامیں، نہایت لذیز کھانے، اعلیٰ تعلیمی و ثقافتی ماحول، میں یہ چھوڑ کر 1961ء میں (تین سال انسپکٹر اوزان و پیمانہ جات رہ کر) باہر چلا گیا۔ جب دسمبر 1975ء کے اواخر میں واپس آیا تو یہ شہر بدل چکا تھا۔ نسلی تعصب، فرقہ پرستی، مذہبی انتہا پسندی نے قدم جمانا شروع کردیئے تھے، جہاں پہلے مہینوں ایک قتل کی خبر نہ آتی اب روز قتل و غارت گری کا میدان سجنے لگا۔ غالباً ان ہی حالات کو دیکھ کر ہمارے ہر دلعزیز شاعر جناب منیر نیازی نے کہا تھا (غلطی ہو تو معذرت خواہ ہوں):

اس شہر سلاسل کو جلا دینا چاہئیے

پھر اس کی خاک کو اُڑا دینا چاہئیے

غالباً مُنیر بھائی فرمان اِلٰہی سے متاثر ہوئے جس میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ وہ جب بارش برساتا ہے تو ہر چیز سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے مگر جب اس کو خشک کردیتا ہے تو وہ خاک بن کر ہوا میں اُڑتی پھرتی ہے۔چند دن پہلے مجھے واٹس ایپ پر کراچی سے متعلق ایک پیغام ملا، پرانی یادیں تازہ ہو گئیں، ہر مرتبہ پڑھتا، آنکھیں بند کرکے اپنے پرانے کراچی کو یاد کرتا، نگاہوں کے سامنے اس وقت کی ہر خوبصورت شے سامنے آجاتی۔ آپ کی خدمت میں وہ پیغام پیش کرتا ہوں مجھ جیسے عمر رسیدہ لوگوں کے لئے یہ ایک سنہرا خواب ہے۔

’’ایک خانہ خراب شہر کی یاد میں، جب یہ شہر قاری ظاہر قاسمی کی تلاوت پرجاگتا تھا اور بندو خان کی سارنگی سن کر سوتا تھا۔ جب رشید ترابی، احتشام الحق تھانوی اور شفیع اوکاڑوی خطابت کے جوہر دکھاتے تھے اور مفتی محمدشفیع اور بابا ذہین شاہ تاجی علم کے گوہر رولتے تھے۔ جب شاہد احمد دہلوی موسیقی کے سبق یاد کرواتے تھے اور استاد جھنڈے خان کے قصے سناتے تھے۔ جب مولوی عبدالحق مشفق خواجہ کو تحقیق کے گر سکھاتے تھے اور جمیل جالبی اور ابوالخیر کشفی تنقید کے نئے نئے دبستانوں سے روشناس کرواتے تھے۔ جب کرار حسین، سید سبط حسن اور حسن عسکری علم کے دریا بہاتے تھے اور سلیم احمد اور قمر جمیل نئی شمعیں جلاتے تھے۔ جب سیماب اکبرآبادی وحی منظوم لکھتے تھے اور آرزو لکھنوی سریلی بانسری بجاتے تھے۔ جب جوش ملیح آبادی یادوں کی برات سناتے تھے اور قصر جلالوی شاگردوں کی منڈلیاں سجاتے تھے۔ جب ابن صفی عمران اور فریدی کی داستان سناتے تھے اور شکیل عادل زادہ استاد بٹھل اور بابر زماں خان کے قصے رولتے تھے۔ جب ملا واحدی دلی کی بھولی بسری کہانیاں سناتے تھے اور بہزاد لکھنوی، لکھنؤ کے حکیم بڈھن سے ملواتے تھے۔ جب ابراہیم جلیس، ابن انشا اور مشتاق احمد یوسفی گدگداتے تھے اور ظریف جبل پوری، سید محمد جعفری اور دلاور فگار پھلجھڑیاں چلاتے تھے۔ جب خواجہ معین الدین اور احمد علی اسٹیج پر مسکراہٹ بکھیرتے تھے اور حسینہ معین اور کمال احمد رضوی چھوٹی اسکرین پر۔ جب حکیم مولانا مولوی مرزا ماہر بیگ ماہر جا بجا ہر مسافر پر ہے لازم صبر کرنا چاہئے کے مصرے لکھتے پھرتے تھے اور سلطنت مغلیہ کے چشم و چراغ اور وارث اصلی استاد محبوب نرالے عالم شہر کی سڑکوں پر چنا جور گرم کی صدائیں لگاتے تھے۔ جب فضل احمد کشمیر والا کو نہرو کی یتیم بیٹی کو سمجھانے کے لیے خطوط لکھتے تھے اور علامہ مشرقی کے فرزند شہر کی دیواریں سیاہ کرکے شفاف تحریک چلاتے تھے۔جب ماہر القادری اور ادیب رائے پوری آمنہ کے لال کی مداح سرائی کرتے تھے۔ اور آل رضا اور نسیم امروہوی محمد کے نواسے کے مرثیے سناتے تھے۔ جب وحید ظفر قاسمی اور خورشید احمد نعتوں کی نوا سنجی کرتے تھے اور کجن بیگم سوز و سلام اور سچے بھائی نوحے پڑھتے تھے۔ جب غلام فرید صابری عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار پر بھردو جھولی مری یا محمد کا نذرانہ پیش کرتے تھے اور ان کے بعد ان کا بیٹا امجد، علی کے ساتھ زہرا کی شادی کی روایت سناتا تھا۔ جب شوکت صدیقی خدا کی بستی آباد کرتے تھے اور قراۃ العین حیدر ہاؤسنگ سوسائٹی کی بنیادیں رکھتی تھیں۔ جب ہاجرہ مسرور اور فردوس حیدر کہانیاں سناتی تھیں اور زہرا نگاہ اور پروین شاکر اپنی غزلوں سے شاعری کو مالا مال کرتی تھیں۔ جب سراج الدین ظفر اور عزیز حامد مدنی غزل کو نیا لہجہ عطا کرتے تھے اور رسا چغتائی اور جون ایلیا غزل کے پرانے مضامین کو تازگی عطا کرتے تھے۔ جب محسن بھوپالی نظمانے اور حمایت علی شاعر ثلاثی ایجاد کرتے تھے اور احمد ہمیش، قمر جمیل اور افتخار جالب نثری نظم کی تحریک چلاتے تھے۔ جب تابش دہلوی اور محشر بدایونی دن کو رات بناتے تھے اور عبید اللہ علیم اور جمال احسانی راتوں کو دن میں بدلتے تھے۔ جب رئیس امروہوی روز ایک تازہ قطعہ لکھ کر عوام اور ارباب حکومت کو آئینہ دکھاتے تھے اور شوکت تھانوی اور مجید لاہوری طنز و مزاح کے تیر برساتے تھے۔ جب جمیل الدین عالی جیوے جیوے پاکستان اور دوہے سناتے تھے اور صہبا اختر میں بھی پاکستان ہوں، تو بھی پاکستان ہے اور نظموں سے مشاعروں کو گرماتے تھے۔ جب وحید مراد اور ندیم بڑی اسکرین پر جگمگاتے تھے اور مہدی حسن اور احمد رشدی پس پردہ گنگناتے تھے۔

جب زیبا، دیبا اور شمیم آرا فلموں میں چہچہاتی تھیں اور شہناز اور مہناز بیگم سر بکھراتی تھیں۔ جب علن فقیر اور عابدہ پروین شاہ کی دیوانی گاتے تھے اور عالم گیر اسپین اور شہکی اور حسن جہاں گیر ایرانی دھنوں پر دھوم مچاتے تھے۔ جب فضل احمد کریم فضلی فلمی دنیا میں چراغ جلاتے تھے اور الیاس رشیدی ان کی روشنی اپنے نگار خانے میں محفوظ کرتے تھے۔ جب انوار احمد خان اور اصلاح الدین تمغوں پر تمغے جیت کر وطن کی جھولی میں ڈالتے تھے اور روشن خان اور جہانگیر خان ریکارڈز پر ریکارڈز توڑتے چلے جاتے تھے۔ جب اتوار کی صبح کا آغاز حامد میاں کے گھر سے ہوتا تھا اور عاشور کی شام غریباں کا اختتام ناصر جہاں کے سلام آخر پر۔ جب صادقین مصوری میں شاعری کرتے تھے اور گل جی، آذر زوبی، بشیر مرزا اور علی امام نئے دبستانوں کی کھوج لگاتے تھے۔ جب رتھ فاؤ جذامیوں کےعلاج کے لئے اسپتال بناتی تھیں اور جمشید نصروانجی بابائے کراچی کہلاتے تھے۔ جب ایدھی نوزائیدہ بچوں کو جھولے اور نازائیدہ بچوں کو کفن دیتا تھا اور حکیم محمد سعید اور سرجن جمعہ مسیحائی کرتے تھے۔ جب محمد علی حبیب اور آغا حسن عابدی نئے نئے بینک بناتے تھے اور آدم جی، عائشہ باوانی اور داؤد صنعتوں کے ساتھ ساتھ شہر میں تعلیمی ادارے بھی قائم کرتے تھے۔ جب بیکن ہائوس اور سٹی اسکول نہیں بلکہ پیلے اسکولوں میں پڑھنا باعث افتخار سمجھا جاتا تھا اور اے ایم قریشی اور مولوی ریاض الدین اسلامیہ اور جناح جیسے کالجوں میں مستقبل کے معمار تیار کرتے تھے۔ جب زیڈ اے بخاری، ضیاء محی الدین اور طلعت حسین آواز کا جادو جگاتے تھے’عرش منیر‘ صفیہ معینی اور رینوکا دیوی بیگم خورشید مرزا کے روپ میں ہر گھر میں احترام کا مرکز بن جایا کرتی تھیں اور ہمارے لطف اللہ خان چپکے چپکے ان کی آوازیں محفوظ کرتے تھے۔ جب فاطمہ جناح آمریت کو للکارتی تھیں اور بے نظیر بھٹو مارشل لاء کی سختیاں سہتی تھیں۔ جب علی مختار رضوی صدر کے قہوہ خانوں میں چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرتے تھے اور معراج محمد خان تن تنہا انقلاب کی آمد کی چاپ سنتے تھے۔ جب ادیب الحسن رضوی مشتاق احمد گورمانی کی کار کو آگ لگاتے تھے اور کشور غنی، منور غنی، خوش بخش عالیہ، شفیع نقی جامعی، ظہور الحسن بھوپالی اور دوست محمد فیضی کی کامیابی ہر گھر کے بچوں کی کامیابی سمجھی جاتی تھی۔

آپ میں سے پیشتر نے وہ زمانہ دیکھا ہے اور کچھ نے یقیناً نہیں۔ جنہوں نے وہ زمانہ دیکھا ہے ان کے لئے شکور پٹھان کی کتاب میرے شہر والے، ایک شہر آشوب ہے اورجن لوگوں نے وہ زمانہ نہیں دیکھا ان کے لئے ایک جہانِ حیرت ہے۔ اسے پڑھیے اور سوچئے کہ ہم نے بیسویں صدی سے اکیسویں صدی میں قدم رکھا ہے یا شاید اچانک کئی صدی پیچھے چلے گئے ہیں۔‘‘

یہ سب واقعات نگاہوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔ ساتھ ہی ڈی جے کالج، اپنے پیارے مہربان اساتذہ، دوست، برنس روڈ کی جلیبیاں، بوہری بازار میں آلو اور گوشت کے چھوٹے چھوٹے گرم گرم کباب، لسی اور کیفے جارج اور دلی کے کالی کٹ ہوٹل کا قورمہ، کولڈ کافی سب ہی یاد ہے۔ قارئین، تمہیں وہ دن یاد آتے تو ہوں گے۔ خوابوں میں تم کو ستاتے تو ہوں گے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین