• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک فرضی قصہ تھا مگر اس کے اندر علامتوں، معانی اور تشریحات کی ایک دنیا آباد تھی اس لئے اسے بہت شہرت ملی۔ انگریزی ادیب جوناتھن سوئفٹ کی ’’گلیورز ٹریولز‘‘ کو ادب اور سیاست دونوں میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ سوئفٹ نے للی پٹ (Lilliput) کے ایک جزیرے کاذکرکیاہے جہاں چھ انچ قد کے بونے آباد تھے۔ ان کی اپنی اقدار اور اصول تھے۔ سوئفٹ نے بونوں کے دیس کی کہانی اپنے تخیل کی بنیاد پر لکھی اور اس کہانی کی علامات کے ذریعے برطانیہ اور دیگر ریاستوں کے اندر درباری سازشوں، خوشامدیوں اور مصنوعی کرداروں پرتنقید کی۔ یہ بونے فرضی اور تخیلاتی تھے مگر پروفیسر یوول نوح حراری کی تازہ کتاب "Sapiens" ’’انسان کی مختصر تاریخ‘‘ میں یہ سائنسی انکشاف کیاگیا ہے کہ ارتقا کے مراحل سے گزرتے ہوئے آج کے انسان (Homo sapiens)سے 12ہزارسال پہلے فلور جزیرے پربونوں کی ہڈیاں او رآثار ملے ہیںالبتہ بونوںکی اس نسل کے جین آج کی انسانی نسل میںبھی موجود ہیں۔ سوئفٹ کے بونے ہوںیا پروفیسرحراری کے اصلی انسانی بونے، یہ عقل میں پورے انسان تھے ان کے صرف قد چھوٹے تھے، دماغ اتنے ہی بڑے تھے جتنے آج کی انسانی نسل کے ہیں۔

مشہور مقولہ ہے کہ بونے کا قد نہیں دل ناپو تبھی اس کے ارادوں کا علم ہوگا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ بونے ہمیشہ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں خود ایک بونا ہوں اوربونوں کے دیس میں رہتا ہوں۔ اس دیس کے بونے صرف قد کے نہیں عقل کے بھی بونے ہیں۔ نفرت سے بھرے، حسد سے لتھڑے، سازش سے لدے اورشرکی دولت سے مالامال، اپنے کسی بھی ہم ذات کی ترقی سے خوفزدہ، اس کی جیت پر رنجیدہ اورہروقت آمادۂ بغاوت، شوریدہ سربھی نہیں اور مطمئن وقانع بھی نہیں، تضادات سے بھرپور ہم بونے خود کوبہت بڑا سمجھتے ہیں۔ اتنا بڑاکہ ہم اپنی خامیوں کاجائزہ لینے کوہی تیارنہیں۔

پروفیسر یوول نوح حراری کے مطابق آج تک کی سائنسی تحقیق کے مطابق جو قدیم ترین انسانی نام سامنے آیا ہے وہ ’’کشتم‘‘ ہے۔ اسی طرح جوسب سے پرانی تحریر دستیاب ہوئی وہ گندم کے حساب کتاب پر مبنی ہے اور انسانی موجودگی کا سب سے پہلا احساس نشان انگوٹھا لگا کر کیاگیا۔ یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ چھ قسم کی انسانی نسلوںاور قسموںکا سراغ ملتاہے جن میں بونوں کی نسل کے علاوہ پانچ اوربھی قسمیں تھیں لیکن بالآخر موجودہ انسانی نسل Homo Sapiens نے سب کی جگہ لے لی اور پچھلے سینکڑوںسالوں سے پوری دنیا میں ایک بھی ذی نفس ایسا نہیں ملتا جس کا تعلق کسی اور انسانی قسم سے ہو۔ بونے قد کے باشندوں کے دیس میں اگر فیصلے بالشتیے قد کے لوگ کریںتو کوئی حیرانی نہیں کہ ہم سب بالشتیے ہیں۔ حیرانی اورپریشانی تب ہوتی ہے کہ ہم قد کے بالشتیے ، سوچ کے بھی بالشتیے اور فکر کے بھی بونے نکلتے ہیں۔ ہمیں اپنی ناک سے آگے کچھ نظر نہیں آتا، قد کا بالشتیہ ہوناکوئی بری بات نہیں لیکن سوچ اورفکر کا بالشتیہ یا بونا ہوناملک وقوم کو نقصان دیتاہے۔

بونوںکے انتخابات ہوئے۔ سب بونوں کوتوقع ہے کہ اب ایک نیا ملک بنے گا جہاں کرپشن ہوگی نہ بے انصافی ، جہاں روزگار ملے گا اور خوشحالی ہوگی۔ بظاہر یہ سہانا خواب پورا ہونے میں چند ہی دن باقی ہیں لیکن بونوں کی ذہنیت وہی رہی، وہی سازشیں، وہی دھرنے، وہی بائیکاٹ اور وہی اقتدار کی رسہ کشی جاری رہی تو احتمال ہے کہ بونوںکا نیا دیس ٹوٹ پھوٹ کررہ جائے گا۔

ضلع گجرات کے نواح میں جگہ جگہ لمبی لمبی قبریں نظر آتی ہیں۔ مشہور یہی ہے کہ یہ نوگزوں کی قبریں ہیں اور ساتھ ہی یہ روایت بھی بیان کی جاتی ہے کہ ایک زمانے میں انسان کا قد بہت لمبا یعنی نوگز کے قریب ہوتا تھا۔ پروفیسر یوول نوح حراری یا کسی اورسائنسی تحقیق یا دریافت میں البتہ ابھی تک یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ انسانی نسل کی کوئی اتنی لمبی قسم کبھی اس دنیا میں رہی ہو۔ سائنسی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ سوائے بونوںکے انسان کا قد کم و بیش اتنا ہی رہا ہے جتنااب ہے۔ اصل تبدیلی دماغ کے سائز میں آئی۔ دماغ کاسائز بڑا ہوا تو سوچ و بچار اور سماجی رابطہ اور گپ شپ کا سلسلہ شروع ہوا، جس سے انسانوں کے گروہ میں تعاون بڑھا اور پہلے قبیلے اور پھرمعاشرے بنتے گئے۔ انسانی نسل کی ترقی میں ایک بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب اس نے چارپایوں کے بجائے دوپایوں پرچلناسیکھ لیا۔ دوہاتھ فارغ ہوئے تو دماغ اور دو فارغ ہاتھوں سے اوزار بنائے اور نت نئی ایجادات شروع کردیں۔

یاد رکھیں کہ بونوںوالی سوچ بدلنا ہوگی ظالمانہ احتساب کے نام پرہر اپوزیشن کو انتقام کا نشانہ بنانا آسان ہے اور اس کی بجائے اپنے سمیت سب کا منصفانہ احتساب کرنا مشکل ہے۔ دنیا بھر کے پیمانے، معیارات اور روایات بدل چکیں۔ ہمیں بھی بالشتیوں سے انسان بننا ہوگا۔ ہمیں بھی چھوٹے قد اور چھوٹے ذہن سے آگے بڑھ کر قدآور بننا ہوگا۔ ایک ایسے ملک اورایسی ریاست کی بنیاد رکھناہوگی جس میں سب کا تحفظ اور سب کا احترام ہو۔ حکومت محب وطن اوراپوزیشن غدار قرار نہ دی جائے۔ جہاں ریاست کے طاقتورگروہ، عوام کے منتخب نمائندوں کوشریک ِاقتدار نہ کریں بلکہ انتقال اقتدارکریں۔

ہم بونے ضرور ہیں مگر ہم اگراپنی سوچ بڑی کرلیں، دماغ کو کھول لیں تو ہم بھی دنیا بھر کی طرح بدل سکتے ہیں۔ اس دیس میں بھی سازشوں، دہشت گردی اور بے یقینی کے سائے ہمیشہ کے لئے ختم ہوسکتے ہیں۔ ہم وہ قوم ہیں جنہیں بدلنے اور اپنے آپ کو بہتر کرنے کے بے شمارمواقع ملتے رہے ہیں اور ہم ہر موقع کو ضائع کرتے رہے ہیں۔ جب بھی ایسا موقع ملا ہم نے اپنے ذہن کو نہیں بدلا اور وہی غلطیاں دہرائیں جوپہلے دہراتے رہے۔ ہم بونوںکو ایک بار پھر سے نیا موقع ملا ہے ۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں توتوقعات اور خوشحالی کا سفرشروع ہو سکتا ہے۔ ہم بھی مہذب جمہوری، معاشرہ بن سکتے ہیں۔ہم بھی اپنے معاملات خود بیٹھ کر طے کرسکتے ہیں۔ اگر جنوبی افریقہ میں کالے اورگورے نسلی منافرت ختم کر سکتے ہیں تو ہم سرخ ، سبز اور سیاہ کے دائروں سے نکل کر ایک قوم کیوں نہیں بن سکتے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین