• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ہائیکورٹ، نواز، مریم ، صفدر کی اپیلوں کو ملتوی کرانے کیلئے نیب کی درخواست مسترد

اسلام آباد(صباح نیوز)سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا کیخلاف اپیل پر سماعت کے دوران تینوں کے وکلا نے دلائل مکمل کر لیے۔ عدالت نے نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی اپیلوں کی سماعت ملتوی کرنے کی نیب کی درخواست مسترد کر دی۔ دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ جب اثاثوں کی قیمت ہی معلوم نہیں تو پھر تضاد کیسا؟ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کر رہا ہے۔ دوران سماعت ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر عباسی نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی درخواست پر پیرا گراف وائز کمنٹس کے لیے وقت مانگا اور استدعا کی کہ جواب داخل کرنے کے لیے 2 دن کا التوا دیا جائے جسے عدالت نے مسترد کردیا۔ سردار مظفر عباسی نے التوا کا عذر پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقت پر وکیل صفائی سے درخواست کی کاپی نہیں ملی اس لیے سماعت ملتوی کی جائے جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ التوا کے لیے گراونڈ نہیں بنتا اور نیب وکیل صفائی پر ایسے انحصار نہیں کرسکتا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں شہر سے بھی باہر تھا تاہم عدالت نے آج سماعت سے التوا کی درخواست مسترد کردی جسکے بعد نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل شروع کیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے نواز شریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق نواز شریف کی ملکیت سے متعلق ریکارڈ پر کچھ نہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جی نیب گواہان نے تسلیم کیا کہ نواز شریف کے خلاف براہ راست ثبوت نہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ʼ عام آدمی سمجھتا ہے جائیداد بچے کی ہے تو باپ جواب دے، قانون وہ نہیں کہ جس کی پراپرٹی ہے ثبوت بھی وہی دے لیکن سپریم کورٹ کا بنایا ہوا قانون مختلف ہے اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کہا کہ بچوں اور نواز شریف کے معلوم ذرائع نیب ریکارڈ پر لے کر آئی ہے۔ جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ کو بتانا ہے کہ کیسے معلوم ذرائع ریکارڈ پر لائے، یہ منی لانڈرنگ کا کیس نہیں ہے جس پر سردار مظفر نے کہا کہ میں آپ کو وجوہات بتاوں گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ جب اثاثوں کی قیمت ہی معلوم نہیں تو پھر تضاد کیسا؟ آپ کو عدالت کو بتانا ہے کیسے بغیر اثاثے معلوم کیے تضاد سامنے آیا۔نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیانے اثاثوں کا چارٹ پیش کیا اور نہ ہی اس کا حوالہ دیا جس پر فاضل جج نے استفسار کیا کہ یہ چارٹ جے آئی ٹی نے بنایا تھا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ جے آئی ٹی نے تیار کیا لیکن واجد ضیانے پیش کیا اور نہ اس کا حوالہ دیا جبکہ جے آئی ٹی رپورٹ میں اس چارٹ پر اعتراض کیا اور یہ اعتراض ابھی بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔جسٹس میاں گل حسن نے دوران سماعت مریم نواز اور کیپٹن (ر)صفدر کے وکیل امجد پرویز سے پوچھا کہ یہ 23 جون کا خط کدھر ہے؟امجد پرویز نے کہا کہ یہ خط ہمیں نہیں دیا گیا، ٹرائل کورٹ میں اس پر اعتراض کیا تھا اور اس حوالے سے مریم نواز کی درخواست بھی مسترد کی گئی۔امجد پرویز نے کہا کہ یہ خط جے آئی ٹی نے براہ راست پیش کیا۔جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ اس پر نوٹری پبلک کی تصدیق تھی؟امجد پرویز نے جواب دیا کہ یہ قابل شواہد دستاویز نہیں ہے۔جسٹس میاں گل حسن نے پوچھا کہ چیرمین نیب نے یہ نہیں لکھا؟ وفاقی حکومت کا اجازت نامہ کہاں ہے؟جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی کو یہ اختیار کہاں پر دیا؟نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نیب نے یہ اجازت نامہ ٹرائل کورٹ میں پیش کیا۔مریم نوازاور کیپٹن(ر) صفدر کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی ہر خط کا اندراج ڈائری میں کرتی ہے لیکن اس خط کا اندراج نہیں کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی سربراہ نے تسلیم کیا کہ انہیں معلوم نہیں خط کب اور کس نے والیم فور میں شامل کیا۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ مریم نواز اور نواز شریف کا ان جائیدادوں سے متعلق تعلق ریکارڈر پر کیا ہے؟امجد پرویز نے کہا کہ ریکارڈ پر کچھ بھی نہیں ہے، مجھ پر قانون کے تحت معاونت کا بھی الزام نہیں لگایا جا سکتا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب کا کیس یہ ہے کہ مریم نواز بینیفیشل آنر ہے، جس پر امجد پرویز نے کہا کہ جی ایسا ہی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے نیب پراسیکیورٹر سردار مظفر کو ہدایت کی کہ یہ سب نوٹ کریں پھر جوابات دینا، آپ نے نواز شریف اور مریم نواز کا کردار علیحدہ علیحدہ کر دیا۔

تازہ ترین