تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ (قسط نمبر25) سیدنا عمر فاروقؓ کا استقبال کرنے والا لاٹ پادری صفریانوس فتح بیت المقدس کے موقع پر یروشلم کے کنیسۃ القیامہ میں عیسائیوںکے لاٹ پادری صفریا نوس (Sophronius of Jerusalem) اورعمائدین روم نے یروشلم آمد پر امیرالمومنین کا استقبال کیا۔ اور بغیر کسی مزاحمت کے شہر یروشلم کی چابیاں آپ کے حوالے کردیں۔اور عیسائی عوام اور ان کی عبادتگاہوں کیلئے امن طلب کی ۔ آپ نے بتادیاکہ اسلام میں کسی غیرمسلم کی عبادتگاہ کو بلا وجہ منہدم کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔لیکن اس کا اصرار ہوا کہ ہمیں امان نامہ لکھ کردیاجائے ۔توامیرالمومنین نے وہ معاہدہ تحریر کردیا۔ جسے العھدۃ العمریہ کہا جاتا ہے ،یہ لاٹ پادری صفریانوس 560تا638)عربی النسل تھا۔ دمشق میں پیدا ہوا ۔یروشلم کا لاٹ پاردی تھا۔اس نے مصرمیں 580میں رہبانیت اختیار کی تھی ۔اور پھر بیت اللحم میں تھیوڈوسس کی خانقاہ میں چلا گیا۔ اس نے ایشیائے کوچک ، مصر اور روم کے خانقاہی مراکز کا سفر کیا تھا ۔ اس کے ساتھ بازنطینی وقائع نگار بشپ جان بھی تھا ۔ اس نے چند کتابیں بھی لکھی ہیں۔ Leimon of John Moschus Synodical Letter Christian-Muslim Relation, a Bibliographical History ( مسیحی مسلم تعلقات ۔ ایک کتابیاتی تاریخ ۔ Holy Baptisam of Epiphany یہ خطبہ 637میں نی زبان میں لکھا گیا تھا جس میں وہ مسلمانوں کو خدا سے نفرت کرنے والے اور بدلہ لینے والا کہتا ہے وہ سامعین کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ ان سب کا ہونا خود ہمارا اپنا رویہ ہے ۔’’در حقیقت ہم خود ان سب باتوں کے ذمہ دار ہیں اور آخرت میں ہمارے دفاع میں کوئی لفظ بھی نہیں کہا جائے گا ‘‘یہ کتاب یونانی زبان میں لکھی گئی ہےاس میں جہاں مسیحیت کے اختلافات کا ذکر ہے وہاں دوسری طرف محمد ﷺ اسلام اور مسلمانوں کابھی ذکر کرتا ہے ۔ وہ الزام عائد کرتاہے کہ مسلمانوں نے قتل وغارت کا بازار گرم کررکھاہے (یہ تفصیلات میں آزاد دائرۃ المعاف ویکی پیڈیا سے لی گئی ہیں)۔ امیر المومنین کے بارے میں پادری صفریانوس نے بہت کچھ سنا تھا اور اپنی مذہبی کتابوں میں فاتح بیت المقدس کی نشانیاں پڑھی ہوئی تھیں انہیں بنفس نفیس دیکھنا چاہتاتھا جب امیرالمومنین تشریف لائے تو اس نے وہ پیشین گوئیاں اپنی آنکھوں سے سچ پائیں یہ امیرالمومنین سے بہت متاثر ہوا۔ حضرت عمرفاروقؓ نے اس کی درخواست پر معاہدہ لکھ اوراس دستاویز پر بطور گواہ تاریخ اسلام کے عظیم کمانڈر وں سپہ سالار اعظم حضرت خالد بن ولید،حضرت عمرو بن عاص اور علاقہ شام کے گورنرحضرت معاویہ بن ابی سفیان، اور یکے از عشرہ مبشرہ مشہور صحابی عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنھم اجمعین کے دستخط ہیں ذرا ان اسماء گرامی پر ایک بار پھر نظر ڈالیے اور امیرالمومنین عمر بن خطاب کی معاملہ فہمی اور دور اندیشی کی داد دیجئے کہ اس اہم دستاویز پر کس کس کے دستخط لیے گئے اور کیوں۔ اس معاہدہ کی ایک شق یہ بھی تھی کہ تمہاری کنیسائوں اور عبادت گاہوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ تمہاری جان و مال کی حفاظت کی جائے گی۔ پادری صفریانوس یروشلم میں638 میں فوت ہوا۔ معاہدہ العمریہ کی دستاویز جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔اسلامی رواداری کی انوکھی مثال تھی کہ فتح کے وقت یہاں صرف عیسائی تھے یہود یوںکا یہاں کوئی نمائندہ تھا، نہ یروشلم کے لوگوں میں ان کا اثر و رسوخ، لیکن فاروق ؓاعظم نے ان کی غیر موجودگی میں بھی انہیں شریک معاہدہ کرلیا حالانکہ رومیوں کی طرف سے یہود پر پابندی تھی کہ وہ بیت المقدس کی صرف زیارت کرسکتے ہیں یہاں ٹھہر سکتے ہیں نہ یروشلم میں مقیم ہوسکتے ہیں۔لیکن حضرت عمرفاروقؓ نے انہیں یہاں رہنے کاحق بھی دے دیا …اور…آج اسی عالم یہود نے نہ صرف مسجد اقصی پر قبضہ کیا ہوا ہے بلکہ پورے فلسطین پر اپنے خونی پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ برسات میں گھر جلنے کا تماشا اس معاہدے کی مسلمانوں کے تمام سپہ سالاروں نے ہمیشہ پاسداری کی ، غیر مسلم کے مذاہب اور ان کی عبادتگاہوں کا احترام کیالیکن اس کے جواب میں غیرمسلموں نے موقع ملتے ہی مسلمانوں کی عبادتگاہیں تو رہیں ایک طرف ، خود مسلمانوں کا نام و نشان مٹاڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ہندوستان میں چارسو سالہ بابری مسجد شہید کردی گئی ، سپین و اندلس میں اسلامی یادگاروں کو مٹادیاگیا، فن تعمیرکانادر نمونہ مسجدقرطبہ کی ہیئت بدل دی گئی ۔ آج وہاں اذان دی جاسکتی ہے نہ دو رکعت ادا کرنے کی اجازت ، سرزمین اندلس سے چن چن کر مسلمانوں کوختم کردیاگیا۔ ان کی لائبریاں جلا دی گئیں ، ان کی مقدس کتاب قرآن کریم کے تقدس کو پائمال کر دیا گیا آج بھی ہالینڈ میں رسول رحمت کے خاکوں کا توہین آمیزمقابلہ کروایاجاتاہے ۔ اور پادری قرآن جلانے اور اس کی بیحرمتی کرنے کیلئے کمپٹیشن کی کھلے عام تاریخیں دیتے ہیں روس میں ستر سال تک اسلام کے نام پر پابندی رہی۔ ترکی سے خلافت اسلامیہ کاخاتمہ کرادیا، عربی قرآن اور لٹریچر تو کجا اس زبان کااستعمال ممنوع کردیاگیا۔ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی تو صدیوں سے ہوتی آرہی ہے اس سب کے باوجود دہشت گردی کاالزام امت اسلام پر ہی لگایاجاتاہے ۔برعکس نام نہند زنگی کافور را نہ مصطفےٰ، نہ رضا شاہ میں نمود اس کی کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی از ما بگو سلامی آں ترک تند خو را کہ آتش زد از نگاہی یک شہر آرزو را (اس تندخو ترک ( اتاترک مصطفیٰ کمال پاشا)کو ہمارا سلام کہنا جس نے اپنی ایک نگاہ سے ہمارے ایک آرزؤں بھرے شہر آرزو میں آگ لگا دی )چنانچہ اسی دوران میں جب نماز کا وقت آیا تو لاٹ پادری صفریانوس نے مشورہ دیا کہ آپ چرچ ہی میں نماز پڑھ لیں لیکن سیدنا وامامنا عمربن خطابؓ نے وہاں نماز ادا کرنے سے انکار کردیا کہ مبادا بعد میں مسلمان اس چرچ پر اپنا حق جتائیں کہ امیرالمومنین نے یہاں نماز ادا کی تھی لہذا یہ چرچ کی جگہ ہمارا ورثہ ہے۔حضرت فاروق اعظمؓ نماز کے لیے چرچ سے باہر نکلے اور چند گز دور ایک جگہ صاف کرواکے وہاں نماز ادا کی۔امیر المومنین کے اس عمل سے نماز کی اہمیت اور حکمرانوں کیلئے اس کی پابندی کرنے کاامر بھی عیاں ہوتا ہے کہ اس سفر میں جہاں بھی حضرت عمرؓ گئے وہاں انہوں نے نماز کے وقت کا خیال کیااور بلاتاخیر نماز ادا کی ۔ آج مسلمان حکمرانوں کی بدقسمتی کہ انہیں نماز سے غرض ہے نہ اس کا اہتمام کی عادت بلکہ انہیں نماز پڑھنا ہی نہیں آتی ۔ سعودی عرب کا بادشاہ سلیمان بن عبدالعزیز امریکی صدر باراک اوباماکااستقبال چھوڑکر اللہ احکم الحاکمین کے سامنے سجدہ ریز ہونے کیلئے چلا جائے تو لوگ اسے بنیاد پرستی کہیں ۔حالانکہ کم ازکم ان سعودی حکمرانوں نے اسلام کی لاج تو رکھ لی ۔حضرت عمرؓ کی سنت کی یاد تو تازہ کردی ۔ہمارے جاہل اور پرچی ریڈر حکمران تو ان امریکی حکمرانوںکے سامنے اللہ و رسول کانام لینے کی جرات بھی نہیں کرسکتے نماز کہاں پڑھیں گے۔موجودہ حکمرانوں کو ہی لے لیجئے انہیں نماز تو کیا کلمہ اسلام تک نہیں آتا ساری دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوںسے ڈگریاں حاصل کیے ہوئے ہیں ، آکسفورڈ اور کیمبرج کے تعلیم یافتہ ہیں لیکن سورہ فاتحہ تک نہیں پڑھ سکتے ۔ مزاروں پہ سجدے کسی کی اقتدا میں تو کرلیں گے لیکن اللہ احکم الحاکمین کے سامنے جھکنے کا سلیقہ نہیں آتا ، بیرسٹری میں تو کمال حاصل ہے ، دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کے اٹارنی جنرل اور وزیر قانون بن جائیں گے لیکن قل ھو اللہ احد کی تلاوت نہیں کرسکتے ۔بتائیے اس قدر غفلت و جہالت کاعالم ہے ،تو عالم اسلام پر برکتیں کیسے نازل ہوں ۔ سورہ الحج میں اللہ تعالیٰ نے اسلامی حکمرانوں کا منصب یہ بیان کیا ہے کہ وہ نماز قائم کرواتے اور زکوٰۃ وصول کرتے ہیں اور نیکی کا حکم دیتے اور برائیوں سے منع کرتے ہیں {الذین ان مکناھم فی الارض اقاموا الصلوٰۃ واتو الزکوٰۃ وامروا بالمعروف ونھو اعن المنکر۔آیت نمبر41} بقول حکیم الامت علیہ الرحمۃ وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہوکر تم خوار ہوئے ہو تارک قرآن ہوکر خوار از مہجوری قرآن شدی شکوہ سنج گردش دوران شدی تو در بغل داری کتاب زندہ ای چوں شبنم بر زمین افتندہ ای جبکہ ہمارے حکمرانوں کو بس جمہوریت کا راگ الاپنا یاد رہتاہے ، نیا پاکستان پرانے کرپٹ اور بے دین مستریوں کے ہاتھوں سے تعمیر کرواناہے۔ کرپشن سے پاک نظام ان وزیروں کے ذریعے لانا ہے جونہیں جانتے کہ اللہ و رسول کے احکامات کیا ہیں ،اگر کوئی اہم مسئلہ شیڈول سے خارج ہے تو وہ اللہ احکم الحاکمین کا دین ہے۔ اللہ و رسول کے احکام کی پیروی کا ذرا خیال نہیں آیا اور نہ ترجیحات میں شامل ہے ،بالکل اس طرح جیسے قوم موسیٰ میدان تیہ میں چالیس سال گھومتی رہی ۔تھک ہار کر جب واپس آئی تو اسی جگہ پرپہنچی تھی جہاں سے سفرشروع کیا تھا۔یہی حال ہماری قوم کاہے ۔ چالیس سال پہلے روٹی کپڑے اور مکان کا نعرہ تھا اب بھی وہی فسون ساحری ہے ۔حضرت عمرؓ کے نماز کے بروقت اہتمام سے دنیا کے حکمرانوں کیلئے ایک پیغام تھا کہ عزت چاہتے ہو تو اللہ کی طرف آؤ تندرستی اورتیمارداری چاہتے تو اللہ کی طرف آؤ۔ حی علی الصلاۃ… حی علی الفلاح۔ جیسا کہ شاعر مشرق نے مرید ہندی سے سوال کرایا۔ پڑھ لیے میں نے علوم شرق و غرب روح میں باقی ہے درد و کرب پیر رومی کا جواب تھا دست ہر نااہل بیمارت کند سوئے مادر آ تیمارت کند ہر نالائق لیڈر نے تجھے غلط جہت بتاکرگمراہ کردیا ،اب اس کاحل صرف ایک ہے کہ ماں (دین و شریعت) کے پاس آجو تیری تیمارداری کرے گی تجھے دوا کی نہیں مزاج پرسی کی ضرورت ہے ۔حضرت فاروق اعظم نے اپنے ساتھیوں سمیت اس جگہ (جہاں آج مسجد عمرہے اور ہم جہاں بیٹھ کر اپنی گمشدہ تاریخ کا ماتم کررہے ہیں) نماز اداکی۔ بیت اللحم تشریف لے گئے تو وہاں بھی نماز کا وقت آگیا تو نماز ادا کی ۔ لاٹ پادری صفریانوس کے ہمراہ یروشلم کا دورہ کرتے ہوئے جب عیسائیوں کے چرچ ( کنیسۃ القیامۃ) میں آگئے۔ لاٹ پادری حضرت عمرؓ کی دور اندیشی اور دیانتداری سے اتنا متاثر ہوا کہ اپنے چرچ کی چابیاں بھی آپ کے حوالے کردیں حضرت عمرؓ نے وہ چابیاں وہاں پہ مقیم ایک مدینہ کے خاندان کے حوالے کردیں اور آج تک اسی خاندان کے پاس موجود ہیں جس طرح خانہ کعبہ کی چابیاں عتیبی خاندان میں چودہ سو سال سے موجود ہیں۔ یروشلم کے باسیوں نے اسلام کے اس عظیم سپوت اور تاریخ اسلام کے اس عظیم محسن کے اس اقدام کو یاد رکھا۔ اس جگہ پر نشانی لگادی ۔خلیفہ مروان بن الحکم کے زمانہ تک یہاں صرف لکڑی کاایک ڈھانچہ بطور علامت نصب رہا۔بعد کے ادوار میں یہاں چھوٹی سی مسجد بطور علامت موجود رہی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے بیٹے الافضل صلاح الدین نے 1193میں ایک بڑی خوبصورت مسجد بنوا دی ۔بعد ازاں عثمانی سلطان عبدالمجید اول نے اپنے دور میں اس کی تزئین و آرائش کی ۔یہاں بھی فاروقی سجدے کا نشان ہے اور بیت اللحم میں بھی مسجد عمر،فاروقی سجدے کی نشان کے طور پر موجود ہے ۔یہی علامت ہے صحیح لیڈرکی ۔ داغ سجود تری جبین پر ہوا تو کیا کوئی ایسا سجدہ کر کہ زمین پر نشان رہے اب اسی خوبصورت مسجد حضرت عمر فاروقؓ میں ہم گناہ گار آج بیٹھے ہوئے اپنے شاندار ماضی کویاد کررہے ہیں۔