• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ہائیکورٹ، نواز شریف، مریم، صفدر کی سزائیں معطل کرنے کی درخواست پر فیصلہ موخر، عید جیل میں گزاریں گے

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو عیدالاضحی اڈیالہ جیل میں گزارنا پڑیگی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے انکی ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی سزا کی معطلی اور ضمانت پر رہائی کی درخواستوں پر فیصلہ موخر کر دیا ہے۔ عدالت عالیہ کے ڈویژن بنچ نے ان درخواستوں کو موسم گرما کی تعطیلات کے فوری بعد مرکزی اپیلوں کے ساتھ سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم دیا ہے۔ فاضل بنچ نے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ نیب آرڈیننس 1999 کی دفعہ 32 میں اپیلوں کے فیصلے کا ٹائم فریم موجود ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا ڈویژن بنچ پہلے ہی احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کو موسم گرما کی تعطیلات کے بعد سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم دے چکا ہے ، اپیلوں کے فیصلے میں تاخیر کی صورت میں درخواست گزار سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کی درخواستوں پر زور دے سکتے ہیں۔ فاضل عدالت نے رجسٹرار آفس کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلوں اور سزا معطلی و ضمانت پر رہائی کی درخواستوں کو موسم گرما کی تعطیلات کے بعد پہلے عدالتی روز ہی سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم دیا ہے۔ دوران سماعت ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے عدالت سے استدعا کی کہ نواز شریف اور دیگر ملزمان کو جیل میں ہی رکھا جائے اور سزا معطل کرنے کی درخواستوں کو خارج کیاجائے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ابھی کوئی فیصلہ فریقین کو متاثر کرسکتا ہے ، عام تعطیلات کے بعد یہ درخواستیں اپیل کے ساتھ سن لیتے ہیں۔ پیر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے شریف خاندان کی سزا کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت کی تو نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر شریف خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کئے اور عدالت عظمیٰ کے حکم پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی۔ لندن فلیٹس نیلسن اور نیسکول کے نام پر تھے۔ ہم نے دستاویزات سے ثابت کردیا کہ ان کمپنیوں کے مالک نواز شریف ہیں اور یہ فلیٹس انہی کی ملکیت میں ہیں جبکہ ان فلیٹس کی ملکیت ثابت کرنا نواز شریف کا ہی کام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جائیدادیں بے نامی دار تھیں ، نیلسن کمپنی فلیٹ نمبر 16 کی 1995 سے مالک ہے ، یہ ٹائٹل دستاویز 13 دسمبر 2017 میں جاری ہوئی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ نیلسن لمیٹڈ کی ملکیت کسی شخص کی تو نہیں ہے۔ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ فلیٹس جس کے قبضے میں ہیں کمپنی کا مالک بھی وہی ہو گا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نیب پراسیکیوٹر سے کہا کہ اپنے آپ کوسزا معطلی تک محدود رکھیں۔ سردار مظفر عباسی نے کہا کہ ہمارا کیس یہ ہے کہ یہ جائیداد ان کی ملکیت ہے، ایم ایل اے کے ذریعے معلوم ہوا کہ نیلسن اور نیسکول مریم کی ملکیت ہے، دستاویزکے مطابق فلیٹ نمبر 16 اے کی ملکیت31 جولائی 1995 سے نیلسن کے پاس ہے، 2006 میں بینیفشل مالک ہونے کوظاہر کرنا ضروری تھا ، عدالت میں پیش کی گئی 2006 کی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ 2012 میں خط لکھا کیوں گیا تھا؟ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ایف آئی اے نے باہر رجسٹرڈ کمپنیوں سے متعلق معلومات کیلئے عمومی خط لکھا تھا ، میں ٹرائل کورٹ میں جمع شدہ دستاویزات کے حوالے دے رہا ہوں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مزید استفار کیا کہ سپریم کورٹ میں والد نے بچوں کے موقف کو اختیار کیا؟ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ان کی تقاریر میں وضاحتیں دی گئی ہیں کہ جائیدادیں کیسے بنائیں ، نوازشریف نے اولاد کے موقف کو غلط قرار نہیں دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ دفاع کا کیس ہے ضروری عوامل کی تفتیش نہیں کی گئی۔ نیب پراسکیوٹر نے کہا کہ یہ ان کا موقف ہے، معاہدہ سرے سے موجود ہی نہیں ، 12 ملین درہم کی بات بھی درست نہیں ہے ، ان کا ذریعہ بھی ہم نے غلط ثابت کیا اور ثبوت بھی لائے ، ہم معلوم ذرائع آمدن کا ثبوت بھی لائے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ معلوم ذرائع آمدن کیا ہیں؟ نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ معلوم ذرائع آمدن چارٹ میں ہیں۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے پوچھا کہ آپ ہمیں کیا دکھانا چاہتے ہیں؟ سردار مظفر نے کہا کہ میں آپ کو1980 کا جعلی معاہدہ دکھانا چاہتا ہوں۔ اس موقع پر نیب پراسیکیوٹرنے 1980 کے معاہدے سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹ کی تفصیلات عدالت کو بتائیں۔ جسٹس میاں گل اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے منی لانڈرنگ کی اپیل نہیں ہے ، سزا معطلی کی حد تک رہیں۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ جو ٹرائل کورٹ میں ہوا وہ بتائیں، ہمیں صرف ٹرائل کورٹ کا ریکارڈ دیکھنا ہے، سپریم کورٹ نے نتیجہ نہیں نکالا ، معاملہ ٹرائل کورٹ کو بھیجا ، ہمیں اب صرف ٹرائل کورٹ کا نتیجہ ہی دیکھنا ہے۔

تازہ ترین