• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برلن شہر میں آپ جہاں بھی نکل جائیں ایک عمارت آ پ کو ہر جگہ سے نظر آ جائے گی، روشنیوں سے جگمگاتی پُرشکوہ اور بلند و بالا یہ عمارت جرمن ریلوے کا صدر دفتر ہے اور Deutsche Bahnکہلاتا ہے، اس کی پیشانی پر DBکے سرخ حروف کنداں ہیں، یہ یورپ کی سب سے بڑی ریلوے کمپنی ہے جس کی وساطت سے ہر سال قریباً دو ارب لوگ سفر کرتے ہیں۔ اگر آپ اپنا ریل کا نظام ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو نقل کرنے کے لئے یہ ماڈل بہترین ہے۔ Ryan Airکا مرکزی دفتر ڈبلن میں ہے ،1985میں قائم کی گئی اِس ایئر لائن کا نیٹ ورک 37ممالک میں پھیلا ہے، یہ ایک کم خرچ ایئر لائن ہے جو اپنے مسافروں کو سستی ٹکٹیں فراہم کرنے کے لئے مشہور ہے،2016میں ریان ایئر کے ذریعے سفر کرنے والوں کی تعداد دنیا کی کسی بھی دوسری ایئر لائن کے مقابلے میں زیادہ تھی ،اس کے پاس 444جہاز ہیں اور ملازمین کی تعداد 13,000ہے اور یوں فی جہاز ملازمین کی شرح 29 ہے جو دنیا میں سب سے کم ہے۔ پی آئی اے میں یہ شرح 400سے اوپر ہے۔ اگر آپ اپنا پی آئی اے کا نظام ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو ریان ایئر کا ماڈل دستیاب ہے۔ زرمت ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، سویٹزر لینڈ کی پہاڑیوں میں واقع ہے، یہاں تک پہنچنے کے لئے آپ کو گلیشیر ایکسپریس میں سفر کرنا پڑتا ہے جو خوبصورت پہاڑوں کے بیچوں بیچ بل کھاتی ہوئی زرمت کے چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن میں داخل ہوتی ہے، اسٹیشن کے ساتھ ہی محکمہ سیاحت کا ایک دفتر ہے جہاں سے آپ کو زرمت میں ہونے والی تمام تفریحات کا ایک پمفلٹ تھما دیا جاتا ہے جسے دیکھ کر آپ حیرت میں ڈوب جاتے ہیں کہ اس چھوٹے سے قصبے میں اتنی سیاحتی سرگرمیاں کیسے ممکن ہیں، یہاں دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کا داخلہ منع ہے، 5,800کی آبادی کے اِس قصبے میں سینکڑوں ہوٹل ہیں۔ اگر آپ نتھیا گلی کو بین الاقوامی ٹورسٹ سپاٹ بنانا چاہتے ہیں تو زرمت حاضر ہے۔ سوشل سیکورٹی کا بہترین نظام ناروے نے بنایا ہے، اس نظام کے تحت نجی و سرکاری اداروں میں کام کرنے والوں کی تنخواہ کا کچھ حصہ ( 8سے25%تک) ایک فنڈ میں جمع ہو جاتا ہے، اسی فنڈ میں کمپنی بھی تقریباً 14%تک حصہ ڈالتی ہے اور یوں ہر شخص کا ایک قسم کا بیمہ ہو جاتا ہے، ملازمت سے فارغ ہونے کی صورت میں یا ناگہانی موت یا معذوری کی صورت میں اِس فنڈ سے ادائیگی کی جاتی ہے، کمی بیشی حکومت پوری کرتی ہے، یہ ایک خاصا پیچیدہ نظام ہے جس میں پوائنٹس کا ایک سسٹم ہے جس کے تحت ہر شخص کی محنت اور آمدن کے حساب سے اسے ادائیگی کی جاتی ہے، بے روزگاری الاؤنس بھی ملتا ہے، بچوں کی تعلیم بھی مفت ہے، علاج معالجے کی بہترین سہولتیں بھی انہی انشورنس کے پیسوں سے پوری کی جاتی ہیں، کسی کو بھیک مانگنی نہیں پڑتی، اس نظام کا مکمل خاکہ انٹرنیٹ پر دستیاب ہے، عمل کرنا چاہیں تو ڈاؤن لوڈ کر لیں۔ لیکن یہ سب کام یوں ممکن نہیں ہو سکیں گے۔ کیوں؟

آج کل کی جدید دنیا میں کوئی بھی کام ایسا نہیں جس کا کامیاب ماڈل موجود نہ ہو، ایکسپورٹ بڑھانا چاہیں تو سنگا پور سے سیکھ لیں، آبادی کم کرنا چاہیں تو چین کا قانون نافذ کر دیں، آزادیٔ اظہار امریکہ سے ادھار لے لیں، پارلیمانی جمہوریت کے انداز سیکھنے کے لئے برطانیہ سے مدد مانگ لیں، ٹیکنالوجی کا گُر جاپانی بتا سکتے ہیں، صنعتی ترقی کا راز جاننے کے لئے جرمن قوم کی شاگردی اختیار کر لیں اور اگر قانون کی عملداری کا نظام اپنانا ہو تو سکینڈے نیوین ممالک کا ماڈل بہترین ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اب تک ان میں سے کوئی ایک بھی ماڈل نہیں اپنا سکے؟ سیاستدان تو ہوتے ہی ’’نا اہل‘‘ اور ’’کرپٹ‘‘ ہیں سو انہیں اُن کے حال پر چھوڑتے ہیں، مگر ان طالع آزماؤں کو کیا ہوا جنہوں نے 1958، 1977اور پھر آخری مرتبہ 1999میں یہ تمام ماڈل پاکستان میں نافذ کرنے کا وعدہ کیا تھا؟ اِن کو تو دیوتا کا درجہ حاصل تھا، اختیارات بھی لامحدود تھے اور دیانت داری ایسی تھی کہ سنا ہے جب دامن نچوڑتے تو فرشتے وضو کرتے تھے اور حوریں شرما کر دائیں بائیں ہو جاتی تھیں۔ تو کیا 2008میں پاکستان ناروے جیسی فلاحی ریاست بن گیا تھا جہاں بھیک مانگنے والے ختم ہو گئے تھے، جہاں غریبوں کے لئے گھوٹکی میں فائیو سٹار اسپتال بن چکے تھے، جہاں ٹرینیں بلوچستان کے پہاڑوں کو چیرتی ہوئی وقت پر آتی تھیں، جہاں پی آئی اے نے امارات کو پچھاڑ دیا تھا، جہاں یونیورسٹیوں میں سائنسی ایجادات ہوا کرتی تھیں، جہاں مدارس سے ابن عربی پیدا ہوا کرتے تھے، جہاں بوئنگ کی طرز پر ہوائی جہاز بنانے کی فیکٹریاں لگ چکی تھیں اور جہاں گرامر اسکولوں میں غریبوں کے بچے مفت پڑھتے تھے؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر مسئلہ وہ نہیں تھا جو اِس قوم کو بتایا گیا تھا، مسئلہ کچھ اور تھا۔

مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی آدھا تیتر اور آدھا بٹیر نہیں چلتا۔ ہم آبادی کم کرنا چاہتے ہیں مگر چین کی طرح زیادہ بچے پیدا کرنے پر پابندی کا قانون پاس نہیں کر سکتے، ہم جرمنی کی طرح ترقی تو کرنا چاہتے مگر جرمنوں کی طرح کام نہیں کرنا چاہتے، ہم ملک کو سویٹزر لینڈ کی طرح سیاحتی مرکز تو دیکھنا چاہتے ہیں مگر سیاحوں کے لئے کسی قسم کی کوئی سہولت دینے کے لئے تیار نہیں، ہم امریکہ کی آزادیٔ اظہار کو آئیڈلائز تو کرتے ہیں مگر اس کو یقینی بنانے کے لئے آئین میں وہ ترمیم کرکے لاگو نہیں کر سکتے جیسی امریکیوں نے کر رکھی ہے، ہم برطانیہ کی طرح قانون کی عملداری تو چاہتے ہیں مگر خود کسی قانون پر عمل کرنے کو تیار نہیں، ہم ناروے کی سوشل سیکورٹی کا نظا م تو چاہتے ہیں مگر اس نظام کے لئے ٹیکس دینے کو تیار نہیں ،ہم CERNجیسی جگہیں تو بنانا چاہتے ہیں جہاں دنیا کے سائنس دان تحقیق کریں مگر اپنے تعلیمی اداروں میں مکالمے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ فلاحی ریاست محض اچھے اسپتالوں، سوشل سیکورٹی، سیاحتی مراکز اور مفت تعلیم دینے کا نام نہیں، اگر ایسا ہوتا تو دنیا چند اسلامی ممالک کو فلاحی ریاست مان لیتی جہاں تیل کی آمدن نے بہاریں دکھائی ہیں۔ دنیا میں فلاحی ریاستیں اُن کو کہا جاتا ہے جہاں اِن سہولیات کے علاوہ کچھ بنیادی انسانی حقوق بھی یقینی بنائے گئے ہوں، مثلاً،حقیقی فلاحی ریاست میں ہر فرد کو شخصی آزادی حاصل ہوتی ہے، اقلیتوں کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جاتا ہے، کسی کے گھر کو عقیدے کی بنیاد پر آگ نہیں لگائی جاتی، لوگ محض زبانی کلامی ہی نہیں بلکہ حقیقت میں اپنے مذہب، مسلک اور ثقافت کے مطابق زندگی بسر کرنے میں آزاد ہوتے ہیں اور ایسی ریاست میں مکمل آزادیٔ اظہار کے ساتھ ساتھ بہتان تراشی پر بھی سخت اور یقینی سزا ہوتی ہے۔ یورپ کے جن ممالک کی ہم اٹھتے بیٹھتے مثالیں دیتے ہیں وہاں کوئی جعلی پولیس مقابلے میں مارا جاتا ہے اور نہ اس کا مجرم دندناتا پھرتا ہے، وہاں کسی کی زبان بندی کی جاتی ہے اور نہ کسی موضوع پر اظہار خیال کی ممانعت ہے اور وہاں مذہب لوگو ں کا ذاتی معاملہ ہے۔

سو۔۔۔اگر محض خوبصورت پہاڑوں اور معدنیات کے خزانوں کی بنیاد پر کسی ریاست کے شہریوں کی خوشحالی ماپی جا سکتی ہوتی تو ہمالے کی گود میں بسا نیپال اور ہیروں سے مالامال ڈی آر کانگو سرفہرست ہوتے، حال مگر یہ ہے کہ نیپال ایک چڑی نہیں مار سکتا اور ڈی آر کونگو میں 60لاکھ افراد خانہ جنگی کی نذر ہو چکے ہیں ۔

چیونٹیاں اینٹ کے نیچے سے نکل کر اوپر آ جاتی ہیں تو ہم چیونٹیوں کو مار دیتے ہیں، اینٹ اٹھا کر نہیں دیکھتے کہ نیچے کیا ہے جہاں سے چیونٹیاں بار بار آ جاتی ہیں۔دنیا میں کامیاب ماڈل والے ملک موجود ہیں مگر اُن کی کاپی اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک ہم مسئلے کی جڑ نہیں پکڑتے۔ جڑوں میں زہر ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین