• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کنول بہزاد،لاہور

آج یونی ورسٹی میں حورعین کا پہلا دِن تھا اور وہ اس مصرعے کی عملی تفسیر بنی ہوئی تھی؎ ’’محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی‘‘یہ ویسی مادرِ علمی تو نہیں تھی، جس کا اُس نے خواب دیکھا تھا، یہاں نظر آنے والے اکثرطلبہ تو کسی اور ہی منزل کے مسافر دکھائی دے رہے تھے۔مغرب کی اندھا دھند پیروی نے اُن سے اُن کی پہچان تک چھین لی تھی۔ لباس اور حلیے کے ساتھ انہوں نے زبان بھی دوسروں سے مستعار لے رکھی تھی۔ یہ سب کچھ دیکھ کر خوشی کی بجائے ایک اضطراب نے اُسے اپنے حصار میں لے لیا۔ اُس نے اپنی کلاسز کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور بے دِلی سے کلاس روم کی جانب چل دی، جہاں دس منٹ بعد کلاس شروع ہونی تھی، وہاں کچھ طلبہ پہلے سے موجود تھے اور کچھ آرہے تھے۔وہ آگے جاکر ایک خالی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ حورعین شروع ہی سے خاموش طبع اور حسّاس سی لڑکی تھی۔ کسی سے دوستی میں پہل کرنا، اُس کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ اُس نےکن اکھیوں سے اپنے ارد گرد بیٹھی لڑکیوں کو دیکھا کہ شاید ان میں کوئی اُس جیسی بھی ہو، مگر نگاہیں مایوس ہی پلٹ آئیں۔ فل میک اپ کیے پٹاخہ سی لڑکیاں اُسے اپنے آپ سے بہت فاصلے پر محسوس ہوئیں۔ یہ نہیں تھا کہ وہ کوئی بہت ہی تنگ نظر سی لڑکی تھی، اُس کا تعلق ایک پڑھے لکھے اور روشن خیال خاندان سے تھا۔ ہاں، اُس کا اپنا ایک نقطۂ نظر تھا، ایک دائرہ تھا، جس کے اندر رہنا ہی وہ مناسب خیال کرتی تھی۔

اگلے کئی دِن بھی اُس کا اضطراب کم نہ ہوا۔ اُسے یوں محسوس ہوتا کہ وہ یہاں ’’مِس فٹ‘‘ سی ہے۔ لڑکے، لڑکیوں کی ایک دوسرے کے ساتھ اس قدر بے تکلفی اُسے کھٹکتی تھی۔ چند دِن ہی میں اُس کی کلاس بھی کئی گروپس میں بَٹ گئی ،جو لڑکے لڑکیوں کے مخلوط گروپس تھے۔اس پر بھی اُسے اعتراض نہیں تھا۔ اسے تو بس اعتراض ان سب کے انداز و اطوار پر تھا۔ ایک دوسرے کے ساتھ جُڑ کر بیٹھے ہوئے، ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنستے ہوئے، ذاتیات پر گفتگو کرتے ہوئے، وہ لوگ اُسے کسی اور ہی دنیا کی مخلوق لگتے، جب کہ طرفہ تماشا یہ تھا کہ وہ سب حورعین کو عجیب وغریب نگاہوں سے دیکھتے۔ اُس پر اس طرح کہ ریمارکس پاس کیے جاتے تھے، جیسے وہ سب نارمل اور حورعین ان سب کے درمیان ایب نارمل ہو، مگر پھر ایک دِن اُسے بھی اِک ہم نَوا مِل ہی گیا۔ حجاب میں ملبوس، سادہ سے چہرے والی فالحہ میں کوئی تو ایسی بات تھی کہ حورعین نے پہلی بار خود سے اُس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ وہ ٹھنڈے میٹھے چشمے جیسی لڑکی دھیرے دھیرے اُس کے دِل میں اُترنے لگی۔

دراصل فالحہ نے کلاسز کچھ تاخیر سے جوائن کی تھیںکہ وہ عُمرے پر گئی ہوئی تھی۔ ان کے گھر میں دین کو ہرچیز پر فوقیت حاصل تھی۔ اسلام کی اصل روح کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے والے یہ لوگ بڑے خالص تھے۔ اُن کی زندگیوں میں ایک توازن، ایک خُوب صُورتی تھی۔ اللہ کی رضا کے عین مطابق خود کو ڈھال لینے میں کتنی عافیت، کتنا سُکون تھا، یہ اُس نے فالحہ سے سیکھا۔ دوست کی صحبت کا اثر تو ہرحال میں ہوتا ہے۔ سو، حورعین بھی متاثر ہورہی تھی۔ گو، حورعین لباس کے معاملے میں خاصی محتاط تھی۔ ستر پوشی کا مطلب بخوبی سمجھتی تھی، دوپٹّا بھی پھیلا کر لیتی، مگر اس قدر اہتمام سے نہیں۔ کبھی سَر سے اُتر بھی جاتا، تو اتنی پروا نہیں کرتی تھی۔ فالحہ کے ساتھ رہ کر اُس نے جانا کہ عورت کے لیے حجاب کیوں ضروری ہے۔ پھر اُس کا دِل بھی خودبخود’’حجاب‘‘کی طرف مائل ہونے لگا۔ اُس نے جب فالحہ سے اس بات کا اظہار کیا، تو وہ بہت خوش ہوئی اور اگلے ہی دِن اُس کے لیے ’’حجاب‘‘ کا تحفہ لے آئی۔

اس روز جب وہ ’’حجاب‘‘ لے کر یونی ورسٹی کے لیے تیار ہوکر نکلنے لگی، تو سب گھر والے جیسے اُس کے سَر ہوگئے۔ ’’یہ کس حلیے میں یونی ورسٹی جارہی ہو تم؟‘‘ سب سے پہلے اس کی چھوٹی بہن قراۃ العین (عینی) نے اُسے ٹوکا۔’’کیوں کیا ہوا؟‘‘حورعین نے حیران ہوکر پوچھا۔’’ہماری فیملی میں کون حجاب لیتا ہے؟ہم پڑھے لکھے روشن خیال لوگ ہیں، تم کیوں خود کو نشانہ بنانے پر تُلی ہو؟ سب باتیں کریں گے۔‘‘ عینی بولی۔’’مجھے لوگوں کی پروا نہیں کہ یہ اللہ کا حکم ہے ۔اور جہاں تک پڑھائی لکھائی اور روشن خیالی کا تعلق ہے، تو حجاب اسی کا عکّاس ہے۔ زیب و زینت کی نمایش زمانۂ جاہلیت کی باتیں ہیں۔‘‘ حورعین نے اعتماد سے کہا۔ امّی نے بھی عینی کی طرح حجاب کی مخالفت کی۔ بس ایک ابّو ہی تھے، جو خاموش رہے اورحور عین نے اس خاموشی ہی کو اپنےحق میں گردانا اور اپنے موقف پر ڈٹ گئی۔ یونی ورسٹی پہنچی، تو فالحہ نے بڑی محبّت سے اُس کا خیر مقدم کیا۔’’بہت ہی پیاری لگ رہی ہو حورعین، بالکل سیپ میں بند موتی کی طرح۔‘‘’’مجھے خود بھی بہت اچھا محسوس ہورہا ہے، جیسے میرے وجود کے گرد حفاظت کا ایک قدرتی حصار قائم ہوگیا ہو۔ ایک عافیت، ایک سُکون کا احساس دِل میں جاگزین ہے۔‘‘ حور عین نے کہا۔

یونی ورسٹی کے دو سال کیسے گزر گئے، پتا ہی نہ چلا۔ پڑھائی سے فارغ ہوئی، تو گھر میں اُس کی شادی کی باتیں ہونے لگیں۔ امّی کو تو جیسے بہت ہی جلدی تھی۔ ایک دِن اُن کی کالج کی پُرانی دوست ملنے آئیں، تو پہلی نظر میں حورعین کو اپنے بیٹے کے لیے پسند کرلیا۔ پڑھے لکھے، خوش حال اور جانے پہچانے لوگ تھے۔سو، فوراً ہاں بھی کردی گئی۔ اُس کی ہونے والی ساس آکر اُسے انگوٹھی بھی پہنا گئیں۔ حورعین کا منگیتر مُلک سے باہر تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو بس تصاویر کی حد تک ہی دیکھا تھا۔ کچھ مہینوں بعد اس کی پاکستان آمد پر شادی کا فیصلہ کیا گیا۔ شادی کے دِن بس قریب ہی تھےکہ ایک روز حورعین کی ہونے والی ساس کا فون آگیا کہ میرے بیٹے نے شادی کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ دلہن شادی کے بعد حجاب نہیں لے گی۔حورعین کے گھر والے تو اس شرط پر راضی تھے کہ وہ پہلے ہی اس حق میں نہ تھے۔ مگر حورعین نے یہ شرط ماننے سے صاف انکار کردیا، نتیجتاً رشتہ استوار ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا۔

گھر کے سب افراد اس سلسلے میں حورعین ہی کو قصور وار گردان رہے تھے، لہٰذا گھر میں ایک عجیب سی فضا قائم ہوگئی۔ سب اُس سے کھنچے کھنچے رہنے لگے۔ ایک سرد مہری سے دِلوں میں براجمان ہوگئی۔ حورعین نے سب کچھ معمول پرلانے کی اپنی سی کوشش کی، مگر سب کچھ ویسا ہی رہا۔ پھر اُس نے ماحول سے فرار کی خاطر ایک اسکول میں ملازمت کرلی۔ ہفتے، مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلنے لگے، تو گھر والوں کے رویّوں کے ساتھ لہجے بھی بدلنے لگے۔ اب امّی کُھلے لفظوں میں اُسے اس بات پر معتوب ٹھہراتیں کہ اُس نے اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ بہن کی زندگی بھی خراب کرڈالی ہے کہ اگر اُس کا کہیں رشتہ ہوتا، تو چھوٹی کی بات بھی کہیں ٹھہرتی۔ حورعین اندر ہی اندر ٹوٹ رہی تھی۔ اُسے لگتا کہ امّی ٹھیک کہتی ہیں۔ اُس کی ذات عینی کی خوشیوں میں بھی رکاوٹ کا باعث بنی ہوئی ہے۔ فالحہ بھی مُلک سے باہر تھی، ورنہ وہ اس سے اپنا دُکھ بانٹ لیتی۔

طویل عرصے بعد خالہ کے توسّط سے اس کے لیے ایک مناسب رشتہ آیا، تو خالہ نے تنبیہہ کی کہ بڑے ماڈرن لوگ ہیں، اُن کے آگے حجاب لینے کا ذکر بھی نہ ہو۔ حورعین خود سے لڑتے لڑتے تھک چکی تھی۔ اُس نے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا اور دلہن بن کر میکے کی دہلیز پارکر گئی۔ اُس کا جیون ساتھی سکندر ہر لحاظ سے اچھا انسان تھا، مگر حجاب کے حق میں نہ تھا۔ اتنا عرصہ حجاب لینے کے بعد اب اُس کے بغیر گھر سے نکلنا حورعین کے لیے سوہانِ روح تھا، مگر وہ مجبور تھی۔ بس دِل ہی دِل میں دُعاگو رہتی۔ شادی کو محض دو ہی ماہ ہوئے تھے کہ ایک دِن سکندر نے اُسے عُمرے پر جانے کی خوش خبری سُنائی۔ دراصل، سکندر جس ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم تھا، وہ کمپنی ہر سال اپنے ملازمین کا ایک گروپ بمع بیگمات عمُرے پر بھیجتی تھی۔فیصلہ قرعہ اندازی کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ اس بار سکندر کا نام بھی خوش نصیبوں میں شامل تھا۔ حورعین کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنی بڑی سعادت کے حصول کے لیے جارہی ہے۔ عُمرے کی نیّت کرکے جب وہ احرام میں ملبوس سکندر کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئی، تو دِل کی کیفیت عجیب سی تھی۔ کبھی خود بخود ہونٹوں پر مُسکان سج جاتی تھی، تو کبھی بے وجہ ہی آنکھیں نَم ہوجاتیں۔ پھر وہ لازوال لمحات بھی آہی گئے، جب خانہ کعبہ(اللہ کا گھر)اُس کی نظروں کے سامنے تھا۔ اُسے اپنے ہی مقدر پر رشک آنے لگا۔ ’’خانہ کعبہ پر پہلی نظر ڈالتے ہی جو بھی دُعا مانگو قبول ہوتی ہے۔‘‘اُسے جیسے کسی نے یاد دلایا۔ اُس نے اپنے ساتھ کھڑے سکندر کی طرف دیکھا اور دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھادیئے۔ ایک بے خودی، ایک سرشاری کی کیفیت میں عُمرے کے سارے مراحل طے ہوتے چلے گئے۔ دنیا کے حسین ترین مقام پر، وہ دونوں زندگی کے خُوب صُورت ترین تجربے سے گزر رہے تھے۔ ان لمحوں کا کوئی مول ہی نہیں تھا، دِلوں کی کیفیت ناقابلِ بیان تھی۔

عُمرے کی ادائیگی کے بعد سکندر نے حورعین کی طرف دیکھا، تو جیسے نظر ہٹانا بھول گیا۔ کتنی جاذبیت اور دِل کشی تھی، اُس کے چہرے پر۔ ایک تقدّس، ایک پاکیزگی نے اس کے چہرے کے گرد ہالہ سا بنا رکھا تھا۔’’لگتا ہے، آج آپ نے مجھے پہلی بار دیکھا ہے؟‘‘ حورعین نے حیا آلود، لہجے میں کہا۔’’ہاں، واقعی۔ اس رُوپ میں تو پہلی بار ہی دیکھا ہے۔ تم اتنی مختلف، اتنی پاکیزہ لگ رہی ہو کہ مَیں نظریں ہٹانا ہی بھول گیا۔‘‘یہی تو میرا اصل رُوپ ہے۔ میرے رب کا ودیعت کردہ، میری فطرت کے عین مطابق، میرے نبی پاکﷺ کی تعلیمات کا عکّاس۔‘‘ حورعین ایک جذب کی سی کیفیت میں بولی۔’’ آج سے مجھے تمہارا وہی روپ پسند ہے، حورعین، جو میرے رب کی رضا کا مظہر ہے۔ مجھے معاف کردو کہ میں تمہارے حجاب لینے کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنا رہا۔ تم معاف کردوگی تو یقیناً میرا رب بھی مجھے معاف کردے گا۔‘‘ سکندر کے لہجے میں ندامت گھلی ہوئی تھی۔اورحورعین کو یوں لگا، جیسے سارا غُبارِ کُلفت دُھل گیا ہے اور وہ سَحابِ رحمت تلے آگئی ہے۔ اُس کا دِل بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز تھا کہ کیسے اللہ نے اُس کی دُعا کو شرف قبولیت بخشا تھا۔’’مَیں نے آپ کو معاف کیا سکندر…‘‘۔وہ دھیرے سے بولی، تو سکندر اُس کی طرف دیکھ کر طمانیت سے مُسکرادیا۔

تازہ ترین
تازہ ترین