• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی بھی دوسرے جمہوری ملک میں منتخب حکومت کی مدت ختم ہونے کے قریب ہواور نئے انتخابات قریب تو حسب اقتدار اور حسب اختلاف دونوں جماعتیں، عوام تک اپنی اپنی جماعتوں کے منشور پہنچانے اور عوامی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے جتن کرتی نظر آتی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اس دور کو بھی ایک دوسرے پر بلا جواز اور بے مقصد تنقید کے لئے استعمال کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ آئندہ آنے والے انتخابات کو ہی لے لی جیئے، ہم ممکنہ انتخابات سے کچھ بہت زیادہ دور نہیں کھڑے (بہت سی قوتوں کی خواہشات کے برعکس اور وفاقی دارلحکومت کی فضا میں پھیلی انتخابات کی منسوخی کی افواہوں سے قطع نظر انتخابات اپریل، مئی2013 ء میں متوقع ہیں) ایک نئے انتخابی مینڈیٹ کو حاصل کرنے اور چھ ماہ بعد اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے امیدوار سیاسی راہنماء تاحال قوم کے مسائل کے حل کے لئے اپنی پارٹی کی تجاویز جو کہ سیاسی منشور کی صورت میں عوام تک پہنچتی ہیں، دینے میں ناکام ر ہے ہیں جو کہ بہت افسوسناک امر ہے۔
ایک سیاسی حکومت کے خاتمے پر ہونے والے انتخابات اس لحاظ سے بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ ایک ڈکٹیٹر کے جانے کے بعد ہونے والے انتخابات میں شاید سیاسی جماعتیں جمہوری نظام کی بحالی کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہیں نہ کہ سیاسی نظام کو موثربنانے کی جنگ۔ اب جب انتقال اقتدار بیلٹ سے بیلٹ کو ہو گا تو یہ عمل اس بات کا متقاضی ہے کہ سیاسی جماعتیں عوام کی بہتری کے لئے تجاویز کی بنیاد پر ووٹ کی جنگ لڑیں۔ پاکستان کو درپیش مسائل کے حل کے لئے جس قومی جدوجہد کی ضرورت ہے اس کاآغاز آنے والے الیکشن کی مدد سے کیا جا سکتا ہے۔ قومی سطح کے ایشوز کے بارے میں انفرادی جماعتوں کی رائے جان کر عوام یہ فیصلہ بہتر انداز میں کر سکتے ہیں کہ پاکستان کے مسائل کے حل کے لئے کون انہیں بہتر لیڈر شپ مہیا کر سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے توانائی کے بحران، ٹیکس کے نظام کی اصلاحات،دہشت گردی کے خلاف جنگ، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں پالیسی سازی، سفارتی تعلقات او ر دیگر مسائل پر اپنے موقف اور منصوبہ بندی کو واضح کرنے سے نہ صرف اس سیاسی جماعت کو فائدہ ہوگا بلکہ عوامی مسائل کے حل کے لئے مختلف جماعتوں کے منشورپاکستان میں مسائل کے حل پر ایک نئی بحث کو جنم دیں گے۔ جو ایک بہت مثبت قدم ہوگا۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ایک دوسرے کے ماضی کے قصے دوہرا کراور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر ہی سیاسی میدان مارا جا سکتا ہے جو کہ نہ صرف ایک بہت قابل افسوس امر ہے بلکہ بطور قوم ہمارے زوال پذیر ہونے کا باعث بھی ۔
میں نے اپنی زندگی میں بہت سے انتخابات دیکھے ہیں، پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو جمہوری نظام کو مضبوط کرنے کا جو موقع یہ انتخابات فراہم کریں گے اس سے قبل شاید ہماری تاریخ میں نہیں کر سکے۔ اگر آئندہ آنے والی حکومت بھی محض نعرے بازی اور ذات برادری کی بنیاد پر قائم کی جائے گی تو اس سے پاکستان کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اگرچہ کئی دہائیوں سے لگی بے جا بے جا اور رہ جا رہ جا کی رٹ لگانے کی بری لت ایک دم سے نہیں چھوڑی جا سکتی لیکن پھر بھی پاکستان کی قومی اور علاقائی دونوں سیاسی جماعتوں کو اب مسائل پر بات کرنی چاہیئے۔ اس وقت پاکستان اس بات کا متحمل نہیں ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے الزامات کا پینڈورا باکس کھول دیا جائے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا المیہ ہے کہ ہم مستقبل سے زیادہ ماضی کی فکر اور خبر رکھتے ہیں اور سازشی تھیوریوں پر بحث کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آنے والے انتخابات سے قبل ملک میں ہونے والی بحث مستقبل کے بارے میں نہیں بلکہ اسی اور نوے کی دہائی کی کہانیوں اور کرپشن کے خاتمے کے نعروں پر ہے جس کی بناء پر چار جمہوری حکومتوں کو گھر بھیجا گیا ، مگر حل پھر بھی نہ نکلا۔ اگر سچ کہا جائے تو آج کے سیاستدانوں میں کوئی بھی تو ایسا نہیں کہ جو اسی اور نوے کی دہائیوں کی الف لیلوی داستانوں میں کردار نہ نبھا چکا ہو، تو پھرکیوں یہ سیاستدان ماضی کی راکھ کریدتے ہیں اور ایک دوسرے کے کپڑے اتارکر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
کیا بہتر نہیں ہوتاکہ انتخابات سے چھ ماہ قبل سیاسی جماعتوں کے راہنما اپنی پارٹی کے منشور جاری کر چکے ہوتے، سیاسی پارٹیوں کے ورکرز گھر گھر جا کر عوام کو اپنے منشور کے مقاصد کے لئے ووٹ دینے پر آمادہ کرتے ۔ ٹیلی ویژن کی سکرین پر سیاسی جماعتوں کے عہد یدار اپنی اپنی تجاویز کے حق میں دلائل دیتے نظر آتے تاکہ عوام بہتر انداز میں ان کے ویژن کو سمجھ سکتے۔ پاکستان کو اس وقت ایک ایسے بحران کا سامنا ہے جس کے حل کے لئے محض صلاحیت مند نہیں بلکہ غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کی ضرورت ہے۔ کیا سیاستدان ایسے میں صرف ماضی کی کہانیوں کے سہارے ووٹ مانگتے ہوئے ذرا بھی شرمندہ نہ ہوں گے؟
آج ہم بطور ایک ریاست جتنے کمزور ہیں،اس سے قبل کبھی نہیں تھے ۔بارود کے ڈھیر پر بیٹھ کر ماچس کی تیلیوں سے کھیلنے کا شوق ہمیں اس مقام تک لے آیا ہے کہ اگر ہم آج بھی دنیا کے نقشے پر موجود ہیں تو خدائے بزرگ و برتر کے بعد یہ صرف اس ملک کے عوام کی حوصلہ مندی کے باعث ہے۔ لیکن چونکہ دنیا میں کچھ بھی لافانی نہیں ہے تو اس حوصلے اور برادشت کو زیادہ دیر تک آزمانا نہیں چاہئے، اگر عوام کے حوصلے کی دیوار بھی گر گئی تو آنے والا وقت پھر صرف خون خرابہ ہی لائے گا۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں آنے والے وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے طرز عمل میں تبدیلی لائیں، سیاسی میدان میں ذاتی حملوں کی بجائے ملکی مسائل کے حل پر بازی لڑی جائے تاکہ عوام انتخابات میں ایشوز کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کے لئے تیار ہو جائیں کہ اگلے پانچ سال تک کون ان کی امنگوں کا امین ہو گا۔سابق امریکی صدر ایزن ہوور نے کہا تھا: "اگر کسی سیاسی جماعت کی بنیاد اس مصمم ارداے میں نہیں کہ وہ ایک صحیح اور اخلاقی طور پر درست مقصد کے لئے جدو جہد کر رہی ہے تو وہ ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ اقتدار حاصل کرنے کی ایک سازش ہے" ۔۔۔۔۔اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے کی سازش کی بجائے اس امر پر توجہ دیں کہ اقتدار ملنے کی صورت میں وہ ملک کو موجودہ صورتحال سے نکالنے کے لئے کیا کر سکتی ہیں۔
تازہ ترین