• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان کا قوم سے پہلا خطاب جو عام آدمی کا نقطۂ نظر ہے، انتہائی متّاثرکن اور امید افزا تھا۔ اس تقریر سے عوام خصوصاً نوجوانوں کی توقعات بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ ان بلندو بانگ عزائم کے اہم مقاصد میں حزب اختلاف کی ممکنہ احتجاجی تحریک کو غیر مؤثر بنانا اور بلدیاتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ معیشت کی بحالی عام آدمی کی فلاح و بہبود اور پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے عظیم مقاصد کے حصول کیلئے ہم 6تجاویز پیش کر رہے ہیں جن پر اگلے 45دنوں میں لازماً عملدرآمد کرنا ہو گا۔

(1)لوٹی ہوئی اور ناجائز دولت سے ملک کے اندر بنائے ہوئے اثاثوں پر مروّجہ قوانین کے تحت ٹیکس اور حکومتی واجبات وصول کرنے ہوں گے۔ ان اثاثوں کی مکمل تفصیلات ریکارڈ میں موجود ہیں۔ اگر وزیراعظم سیکریٹریٹ کی نگرانی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ان ناجائز اثاثوں کی نشاندہی کر کے جو ٹیکس حکام سے خفیہ رکھے گئے ہیں، حکومتی واجبات کی وصولی شروع کر دی جائے تو اگلے چند ماہ میں کم از کم 1500ارب روپے کی اضافی آمدنی ہو سکتی ہے۔ اس رقم سے کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ قدم نہ اٹھایا گیا تو یہ ایک قومی المیہ ہو گا۔ بدقسمتی سے گزشتہ چند روز میں اس ضمن میں منفی اشارے ملے ہیں کیونکہ اس سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ یہ نئی حکومت کا ٹیسٹ کیس ہو گا۔

(2)معیشت کی بحالی کیلئے بنیادی نوعیت کی کچھ اصلاحات کرنا انتہائی ضروری ہیں۔ ان میں وفاق اور صوبوں کی سطح پرہر قسم کی آمدنی پر مؤثر طور سے ٹیکس عائد اور وصول کرنا، جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 7.5فیصد سے زیادہ نہ رکھنا، معیشت کو دستاویزی بنانا، سرمائے کے فرار اور کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنا، انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4)کو منسوخ کرنا، غیر منقولہ جائیدادوں کی رجسٹریشن مارکیٹ کے نرخوں سے کم پر نہ کرنا اور باہر سے آنے والی ترسیلات کو تجارتی خسارے کو کم کرنے کے بجائے ممکنہ طور پر سرمایہ کاری کیلئے استعمال کرنا شامل ہیں۔ گزشتہ 25برسوں سے مختلف حکومتیں ان میں سے بیشتر اصلاحات کرنے کے وعدے کرتی رہی ہیں۔ آئی ایم ایف بھی اس ضمن میں حکومتوں پر رسماً دبائو ڈالتا رہا ہے۔ ان اصلاحات سے معیشت لازماً بہتر ہو جاتی چنانچہ فنڈ نے ان شرائط پر کبھی اصرار نہیں کیا۔ یہ امر بھی مسلّمہ ہے کہ ان اصلاحات سے طاقتور طبقوں اور اشرافیہ کے مفادات متّاثر ہوتے ہیں چنانچہ مختلف حکومتوں نے بھی ان سے اجتناب ہی کیا ہے۔ گزشتہ 5برسوں میں تحریک انصاف کی حکومت نے بھی ان اصلاحات سے اجتناب کیا ہے جو آئین میں اٹھارہویں ترمیم اور ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے بعد سے صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں اور وہ تحریک انصاف کے 2013کے منشور کا حصّہ بھی تھیں۔

(3)اگلے چند ہفتوں میں وفاق اور تینوں صوبوں کے نظرثانی شدہ بجٹ پیش کئے جانے چاہئیں۔ ان میں نکتہ نمبر 2میں پیش کی گئی تجاویز شامل کی جائیں۔ تحریک انصاف کے 2013کے منشور میں تعلیم و صحت کی مد میں جی ڈی پی کا 7.6فیصد اور پیپلز پارٹی نے 11فیصد مختص کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر ان کو پورا کرنے کی کوشش گزشتہ برسوں میں کی ہی نہیں گئی۔ اب کم از کم اس مد میں جی ڈی پی کا 7.6فیصد لازماً مختص کیا جائے۔

(4)وزیراعظم عمران خان کی تقریر میں ناجائز دولت بیرونی ملکوں سے واپس لانے کے عزم کا اظہار متعدد بار کیا گیا ہے۔ نئی حکومت اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ان رقوم کی واپسی پر بہت زیادہ انحصار کررہی ہے حالانکہ اگلے چند برسوں میں اس ضمن میں کسی بڑی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ قانون سازی کر کے ملک سے سرمائے کے فرار کو روکا جائے۔ ہم برس ہا برس سے یہ تجویز دیتے رہے ہیں کہ کھلی منڈی سے خریدی ہوئی بیرونی کرنسی کو بینکوں کے کھاتوں کے ذریعے تعلیم و علاج معالجے کے علاوہ کسی اور مقصد کیلئے ملک سے باہر بھیجنے پر پابندی لگا دی جائے۔ اب یہ قدم فوری طور پر اٹھانا ہو گا۔

(5)نیب کو مضبوط بنانے کا وزیراعظم کا عزم خوش آئند ہے مگر اس سے پہلے نیب کے ایگزیکٹو بورڈ اور انتظامیہ کا احتساب ضروری ہے۔ نیب کے موجودہ چیئرمین نے دعویٰ کیا ہے کہ اپنے قیام سے اب تک نیب نے قومی خزانے میں 269ارب روپے جمع کرائے ہیں۔ حالانکہ قومی خزانے میں جمع کرائی جانے والی مجموعی رقوم کا حجم 12ارب روپے سے بھی کم ہے۔ گزشتہ برسوں میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے نیب سے متعلق جو ریمارکس دیئے ہیں ان کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔

(6)لوٹی ہوئی دولت کو قومی خزانے میں واپس لانے کے نام پر جاری کردہ ایمنسٹی اسکیم میں حیرت انگیز تیز رفتاری کے ساتھ نگراںحکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے توسیع کرا دی تھی حالانکہ اوّل ملکی اثاثوں پر جن کی تفصیلات ریکارڈ میں موجود ہیں ایمنسٹی دینے کا کوئی جواز تھا ہی نہیں ،ملکی اثاثوں پر غیر ضروری ایمنسٹی دینے سے قومی خزانے کو 500 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہےاور دوم یہ شق برقرار رکھی گئی کہ ایمنسٹی حاصل کرنے کے باوجود ناجائز رقوم باہر ہی رکھی جا سکتی ہیں۔۔یہ ایک قومی المیہ ہے کہ ایک طرف پاکستانی شہریوں کی بیرونی ملکوں میں رکھی ہوئی ناجائز دولت کی معلومات حاصل کرنے اور واپس لانے کی بہ ظاہر کوششیں کی جا رہی ہیں اور دوسری طرف ایمنسٹی اسکیم کے تحت ان ناجائز رقوم کو باہر ہی رکھنے کی بھی اجازت دے کر قومی مفادات کا سودا کر لیا گیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ صدارتی آرڈیننس کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے لوٹی ہوئی دولت کو پاکستان واپس لانے کیلئے ازخود نوٹس آئین کی شق 184(3)کے تحت لیا تھا یعنی ان ناجائز رقوم کو باہر رکھنے سے عوام کے بنیادی حقوق متّاثر ہو رہے ہیں۔ نئی حکومت کو یہ تمام حقائق سپریم کورٹ کے سامنے بھی رکھنے چاہئیں۔وزیراعظم عمران خان کے پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے وعدے سے ملک کے طول و ارض میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے مگر مندرجہ ذیل حقائق سے صرف نظر بھی نہیں کیا جا سکتا۔

(1)قرآن کے احکامات کے تحت حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صاحب نصاب مسلمانوں سے زکوٰۃ وصول کرےاور ان رقوم کومسلمان مستحقین تک پہنچانے کا نظام وضع کرے(9:103)ہم نے اپنے 24؍مئی 2018کے کالم میں اس ضمن میں قابل عمل تجاویز پیش کی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نظام زکوٰۃ کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کیلئے حکومت کیا اقدامات اٹھاتی ہے۔

(2)یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ملک میں کئی سو قوانین قرآن و سنت کے خلاف ہیں۔ وطن عزیز میں سودی نظام معیشت و سودی نظام بینکاری پوری آب و تاب سے پروان چڑھ رہے ہیں۔ حالانکہ آئین کی شق (F)30میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ ربوٰ کا جلدازجلد خاتمہ کر دیا جائے۔ وزیراعظم کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ وفاقی کابینہ اور ان کے مشیروں میں وہ صاحبان تو شامل نہیں ہیں (الف)جو غیر اسلامی متوازی نظام بینکاری کے اجراکے ذمہ دار ہیں (ب)جن کے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی مقدمہ زیر سماعت ہے اور (ج)جنہوں نے انتہائی مالدار ہونے کے باوجود بینکوں سے قرضے معاف کرائےہیں۔

(3)پاکستان میں سب سے پہلے ہم نے کہا تھا کہ یہ متوازی نظام بینکاری غیر اسلامی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ کے چیئرمین اور ممبران اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ متوازی نظام غیر اسلامی ہے مگر برس ہا برس سے وہ اس غیر اسلامی نظام کی پشت پر موجود ہیں۔ سود کا مقدمہ وفاقی شرعی عدالت میں گزشتہ 16برس سے التوا کا شکار ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ نئی حکومت سود کو حرام قرار دینے اور اسلامی بینکاری کو شریعت کے تابع بنانے کیلئے مشاورت کر کے پارلیمنٹ میں قرارداد منظور کرائے اور شرعی عدالت سے یہ مقدمہ واپس لے لیا جائے۔

تازہ ترین