اپنے پرائے کا غم کھانے والے ،یتیموں کے والی ،غلاموں کے مولیٰ،سیّدِ عرب و عجم، حضرت محمد ﷺ نے دین کی دعوت اوراسلام کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں عدل و مساوات، انسانی عزّت و وقار کی بحالی، امن کے قیام، ظلم کے خاتمے ،مظلوموں ،معذوروں اور بے کسوں کی مدد اور داد رسی کو بنیادی اہمیت دی۔ آپﷺ کی دنیا میں تشریف آوری اور بعثت سے ایک مثالی اور مہذّب دور کا آغاز ہوا، جس میں عدل و مساوات کے قیام، ظلم و بدامنی کے خاتمے اور معاشرے کے بے کس افراد ،معذوروں اور مظلوموں کی داد رسی کو بنیادی اہمیت دی گئی۔
ارشاد ِربانی ہے:’’اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائوگے۔سب تعریفیں اللہ رب العزت کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب اور پالنے والا ہے۔انسان کو خالق کائنات نے دنیا میں اشرف المخلوقات بناکر بھیجا۔ اسے قوتِ گویائی بھی عطا کی اور قوت سماعت بھی عطا کی ،قوت بصارت عطا کی تو دماغ کو نظام اعصاب کا مرکز بنایا۔(سورۂ رحمن)
ایک مقام پر یوں فرمایا گیا:ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔(سورۃ التین)سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے:اور یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی۔ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ خالقِ کائنات نے نفس انسانی کو بہت عزت و تکریم اور احترام و احتشام سے نوازا ہے۔
دینِ اسلام ہمیں انسانیت کی تکریم کا جو درس دیتا ہے، وہ رنگ و نسل اور مذہب وملت کی تفریق سے پاک ہے۔ انسان کا احترام اُس کے رنگ، اُس کی نسل، خاندان یا مذہب کے باعث نہیں،بلکہ انسانیت کا احترام اس کے انسان اور متقی و پرہیزگار ہونے کے باعث ہے۔انسانی معاشرے کا وہ حصہ جسے مادہ پرستی کے اس دور میں نظر انداز کردیا گیا ہے،وہ معذور اور بے کس افراد ہیں، یہ سماج کے اس طبقے میں وہ افرادہیں، جو رفتارِ زمانہ اور زندگی کی دوڑ میں اپنی طبعی دائمی اور پیدائشی مجبوریوں کی بناء پر پیچھے رہ گئے ، بینائی، شنوائی سے محروم، بے دست وپا دماغی طور پر مفلوج، دائمی روگ میں مبتلا افراد عام طور پر اس میں داخل مانے جاتے ہیں۔
معذوری کا لفظ اردو زبان میں دماغی اور جسمانی عارضے کو کہتے ہیں اور جسے یہ عارضہ لاحق ہو ،وہ معذور کہلاتا ہے، عربی میں ایسے شخص کو (عاجزمن العمل)جو کام کرنے سے عاجزاور کمزور ہو،کہا جاتا ہے،اسی طرح(الّذی لہ عذر)یعنی جو صحیح طور پر کام انجام نہ دے سکتا ہو۔
اقوام متحدہ کے چارٹر (برائے معذور افراد کے حقوق)کے مطابق معذور وہ شخص ہےجسے طویل المیعاد جسمانی ‘ذہنی کمزوری ہو اور وہ معاشرے میں کردار ادا کرنے میں رکاوٹ کا سبب ہو۔اس کائناتِ ارضی وسماوی میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کی تعلیمات وہدایات کامل ومکمل ہیں اور اسلام ہی روئے زمین پر وہ مذہب ہے جو معذورین سمیت پوری انسانیت کا مسیحا ہے۔ اسلام نے معذورافراد کے مختلف حقوق ومراعات وضاحت کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ اسلام نے معذور افراد پر کسی طرح کا معاشی بار نہیں رکھا، کسبِ معاش کی الجھنوں سے انہیں آزاد رکھاہے، وہ تمام قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ جن میں کمزوروں، بے سہاروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان پر انفاق کی تلقین کی گئی ہے، معذورین بھی ان کے مفہوم میں داخل ہیں۔
حضرت عبداللہ بن اُمِ مکتومؓ نابینا صحابی تھے۔وہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا کچھ مدعا بیان کرنا چاہتے ہیں اور تعلیماتِ رسولؐ سے بہرہ مند ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔ بینائی نہ ہونے کی وجہ سے اُنہوں نے حاضرِ خدمت ہو کر اپنا مدعا بیان کرنا شروع کر دیا، عین اُسی وقت کچھ اشرافِ قریش بھی آپﷺ کے پاس بیٹھے تھے ،جنہیں آپ ﷺدین حق کی تبلیغ فرما رہے تھے۔ دعوتِ حق کی حکمت عملی اور محویت کے باعث آپﷺ عبداللہ ابن مکتوم ؓکی طرف توجہ نہ دے سکے اور اُن کے سوالات کا جواب بھی نہ دیا، بلکہ ابن مکتوم کی بار بار نِدا اَور مداخلت سے سرکارِ دوعالم ﷺ کو قدرے ناگواری ہوئی۔بس اتنا ہونا تھا کہ سورہ ٴ عبس کا نزول ہوا۔ روایات میں ہے کہ اس کے بعد جب وہ نابینا آپ ﷺ کی خدمت میں آتے تو آپ ﷺ بہت تعظیم وتکریم سے پیش آتے اور فرماتے: خوش آمدید اے وہ رفیق جس کے بارے میں پروردگار نے مجھے متوجہ فرمایا۔رسولِ پاک ﷺجب غزوہٴ احد کے لیے روانہ ہوئے تو اپنی جگہ انہی نابینا ابن ام مکتومؓ کو اپنا نائب مقررفرمایا۔ غور کیجیے کتنا بڑا منصب ایک نابینا شخصیت کے سپرد کیا جارہا ہے اور تو اور ایک جُذامی آدمی کو بھی آپ نے اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرمایا ہے۔
ایک صحابی ؓجن کی بینائی میں نقص تھا اور کچھ ذہن بھی متاثر تھا ،وہ خریدوفروخت میں اکثر دھوکا کھاجاتے تھے، آپ ﷺ نے ان کی اور ان جیسے افراد کی خاطر، خریدوفروخت میں خیارِ شرط مشروع فرمایا، جس کی رو سے بیچنے والے یاخریدنے والے کو بیع کی قطعیت کے لیے تین دن کی مہلت مل جاتی ہے۔اسلام نے معذور افراد کو الگ تھلگ کسمپرسی کی زندگی گزارنے کے بجائے اجتماعی معاشرت کا حوصلہ دیا، ان کے مقام ومرتبے کے مناسب معاشرتی کام بھی تفویض کیے، احساسِ کمتری اور معاشرتی سردمہری کا شکار بننے سے انہیں تحفظ فراہم کیا۔
حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں عام حکم تھا اور اس کی ہمیشہ تعمیل ہوتی تھی کہ ملک کے جس قدر اپاہج، ازکارِرفتہ، مفلوج وغیرہ ہوں سب کی تنخواہیں بیت المال سے مقرر کردی جائیں،ہزاروں سے متجاوز افراد کے نام رجسٹر میں داخل تھے ،جنہیں گھر بیٹھے وظیفہ ملتا تھا، بلاتخصیص مذہب حکم تھا کہ بیت المال سے ان کے روزینے مقرر کردیے جائیں ۔غرض حکومتی سطح پر جو معاشی مراعات مسلم معذورین کو حاصل تھیں، پوری رواداری کے ساتھ غیرمسلم معذور رعایا بھی اس سے نفع اندوز ہوتی تھی۔یہ قاعدہ تھا کہ جو مسلمان اپاہج اور ضعیف ہوجاتا اور محنت ومزدوری سے معاش نہیں پیدا کرسکتا تھا، بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر ہو جاتا ، اسی قسم کی، بلکہ اس سے زیادہ فیاضانہ رعایت ذمیوں کے ساتھ بھی تھی۔ حضرت عمرؓ نے ایک غیرمسلم بوڑھے نابینا کو ایک دروازے پر بھیک مانگتے دیکھا، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ یہودی ہے، آپ نے اس سے پوچھا: تمہیں کس چیز نے اس حالت تک پہنچایا؟ اس نے جواب دیا: جزیہ، ضرورت اور بڑھاپا، حضرت عمرؓ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور اتنا کچھ دیا جو اس کی ضروریات کے لیے کافی تھا، پھر آپ نے بیت المال کے خزانچی کو کہلا بھیجا کہ اس شخص اور اس جیسے دوسرے اشخاص کی طرف توجہ کرو، خدا کی قسم، یہ انصاف کی بات نہیں کہ ہم ان کی جوانی کی کمائی کھائیں اور بڑھاپے میں انہیں دُھتکار دیں۔ آپ نے اس فرد اور اس جیسے دوسرے افراد کو جزیہ سے بری قرار دے دیا، جب آپ نے دِمَشق کا سفر کیا تو ایک ایسی بستی سے گزرے ،جہاں کچھ جُذام کے مریض عیسائی بستے تھے، آپ نے حکم دیا کہ انہیں راشن جاری کیا جائے۔ حضرت ابوبکرؓکی خلافت کے زمانے میں حضرت عمرؓ مدینے کی ایک اندھی عورت کی خبرگیری کیا کرتے تھے، پھر ایسا ہونے لگا کہ جب بھی آپ پہنچتے یہ دیکھتے کہ حضرت ابوبکرؓ آکر اس کے کام کاج کر جاتے ہیں۔
عزوہٴ تبوک کے موقع پر آپﷺ نے معذورین کے بارے میں جہاد میں شریک لوگوں سے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ تمہارے پیچھے مدینہ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ تم جس وادی کو بھی طے کرتے ہو اور جس راستے پر بھی چلتے ہو تمہارے ساتھ وہ اجر میں برابر کے شریک ہیں، صحابہٴ کرامؓنے عرض کیا، یہ کیوں کر ہوسکتا ہے جب کہ وہ مدینہ میں بیٹھے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: عذر نے انہیں وہاں روک دیا ہے۔ (صحیح بخاری )
قرآن حکیم نے اسلامی ریاست کے فروغ اور غلبہ دین حق کی جدوجہد کے لیے جہاد میں حصہ لینے کو ایمان و استقامت کی جانچ کے معیار کے طور پر بیان کیا اور اس بنیادی ذمہ داری سے راہِ فرار اختیار کرنے کو عذاب الیم کا سبب قرار دیا۔ تاہم معذور اَفراد کو اس کلیدی اور بنیادی ذمہ داری سے مستثنیٰ قرار دیا گیا : (ترجمہ)’’(جہاد سے رہ جانے میں) نہ اندھے پر کوئی گناہ ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی گناہ ہے اور نہ (ہی) بیمار پر کوئی گناہ ہے، اور جو شخص اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے گا،اللہ اسے جنت میں داخل فرما دے گا، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، اور جو منہ پھیرے گا ، اسے وہ درد ناک عذاب دے گا‘‘۔(سورۃ الفتح)گویا قانونِ اسلام نے معذوروں کے ناقابل برداشت ذمہ داریوں سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کو ان کا بنیادی حق قرار دیا۔اسلام معذور اَفراد کو معاشرے کا قابلِ احترام اور باوقار حصہ بنانے کی تلقین کرتا ہے۔اس امر کی تعلیم دیتا ہے کہ معذور افراد کو خصوصی توجہ دی جائے اور انہیں یہ احساس قطعاً نہ ہونے دیا جائے کہ انہیں زندگی کے کسی بھی شعبے میں نظر انداز کیا جارہا ہے۔معاشرتی اور قومی زندگی میں ان پر کسی بھی ایسی ذمہ داری کا بوجھ نہ ڈالا جائے جو ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہو۔آج انسانی حقوق اورمعذورافرادکے حقوق کے علم بردار اپنی طاقت کے نشے میں نہ صرف معذوروں سمیت بستی کی بستی اور ملک کے ملک اجاڑ رہے ہیں،بلکہ ہلاکت خیز کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ذریعے، نسلوں کو معذوربنا کر بے یار و مدد گار چھوڑ دیتے ہیں۔
محسن انسانیت ﷺکی تعلیمات میں معذوروں کے حقوق کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے،آپ ﷺنے چہرے پرمارنے سے سختی سے منع کیا ہے،کیوںکہ یہ معذوری کا سبب بن سکتا ہے۔اسی طرح کنکریوں سے کھیلنے سے حضور ﷺ نے سختی سے منع کیا ہےکیونکہ یہ بھی معذوری کا سبب بن سکتا ہے، کسی کی آنکھ پھوڑ سکتا ہے‘اسی طرح سرعام اسلحہ لہرانے سے منع کیا گیااور تلواروغیرہ کو عام حالات میں میان میں رکھنے کی ترغیب دی گئی کہ کہیں کسی کو زخم نہ دے دے۔علمائے کرام نے معذورں کی خدمت و دیکھ بھال اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دی کہ یہ اللہ کی تقسیم ہے انہیں طعن و تشنیع مت کرواور ان کے لیے تعلیم وتعلم کا انتظام کرو،نہ کہ ان کے ہاتھ میں کشکول پکڑا دو کہ وہ لوگوں سے مانگتےپھریں اور لوگوں سے قسم قسم کی باتیں سنتے پھریں ۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ کسی مسلمان کے لیے اتنی برائی ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔(صحیح مسلم)
اس کائناتِ ارضی وسماوی میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کی تعلیمات وہدایات تضاد ونفاق کے جراثیم سے مکمل پاک ہیں اور اسلام ہی روئے زمین پر وہ مذہب ہے جو معذورین سمیت پوری انسانیت کا مسیحا ہے، آج شرط ہے اس کے نظام کو اپنانے اور برتنے کی ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج احترام انسانیت اور انسانی حقوق کے نام پر جو تشہیری مہم جاری ہے،وہ محض دکھاوا اور نام نمود سے بڑھ کر کچھ نہیں۔اسلام امن وسلامتی کا داعی اور انسانی حقوق کا حقیقی علم بردار ہے،اس نے معاشرے کے ہر فرد کو مساوی حقوق دے کر ہر طبقے کو جینے کا بنیادی حق اور زندگی کا سلیقہ عطا کیا۔ دنیا اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کی تعلیمات کو اپنا کر ہی پرامن اور انسان دوست معاشرہ تشکیل دے سکتی ہے ۔