ڈاکٹر رضوانہ انصاری،حیدرآباد
اندھیرے سے روشنی میں داخل ہوں تو کتنا خوبصورت لگتا ہے نا! رات کے ختم ہوتے ہی سورج کی کرنوں کے طلوع ہونے پر نئے روشن سویرے کی منزہ روشنی میں ہر چیز کتنی اجلی کتنی نکھری لگتی ہےاور اجالا اور بھی روشن لگنے لگتا ہے جب اس میں امید کی روشنی بھی شامل ہوجاتی ہے… روشنی کے ہاتھ میں ادھورے خواب تکمیل کی جانب بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی امیدوں اور ایسی روشنی بھری صبحوں کا انتظار ہم ہر چند سالوں بعد شروع کردیتے ہیں… اس بار اس صبح کے اجالے میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ پاکستان کی 46فی صد آبادی 15 سے 25سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے اور حالیہ انتخابات میں نوجوانوں کی بڑی تعداد منتخب ہوکر ایوانوں میں پہنچی ہے…
پاکستان کے ریگزار، کوہسار، میدان، وادیاں، کچے علاقے، بازار، مارکیٹیں، قصبے اور شہر، یہ دیکھتے آرہے ہیں کہ جب بھی عوام کو موقع ملا ہے، انہوں نے رجعت پسند قوتوں کو دھتکار دیا ہے علیحدگی پسندوں اور صعبتوں کو مسترد کردیا ہے۔ کرپٹ اور غاصبوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔وہ آگے بڑھنے والوں کے ساتھ رہے ہیںانہوں نے آنے والی کل کے ساتھیوں کی پزیرائی کی اور ان کی طاقت بڑھائی ہے، مگر ان کی بدقسمتی یہ بھی رہی کہ روشنی کی بات کرنے والے خود ہی اندھیروں میں پناہ لینے لگتے ہیں۔ اس بار چنائو میں عوام نے نوجوانوں کو قیادت کا اہل جانا کہ ان کی چمکدار آنکھیں، روشن پیشانیاں ان کے مضبوط، طاقتور، دلیر اور بہادر ہونے کا اعلان بھی ہیں اور ثبوت بھی ،اسی لئے انہوں نے اپنا مستقبل اپنے مستقبل کے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔ ان پر اعتبار کرکے بڑی توقعات اور امیدیں باندھ لی ہیں…
امید کی شمع ہمیشہ روشن رہنی چاہئے مشکلات اور مصائب کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی امید اور بہتری کی شمع جلتی رہنی چاہئے، کیونکہ امید دراصل یقین سے جنم لیتی ہے اور یقین ایمان سے جنم لیتا ہے یعنی امید کا دیا ایمان اور یقین کی حرارت سے روشن رہتا ہے۔ یہی ایمان اور یقین ہمارے چہروں سے ناامیدی کے سائے ہٹاکر پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے پرامید کردیتا ہے۔یہی امیدہمیںایوانوں میں پہنچنے والے نوجوانوں سے بھی ہے کہ ان میں جوش، جذبہ، توانائی اور ولولہ تجربے سے زیادہ ہے۔ ان کے پاس تعلیم اور معلومات تک رسائی کے مواقع بھی پہلے سے زیادہ ہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ توانائی اور ولولہ بے قابو ہوجائے تو راہ سے ہٹا دیتی ہے۔یوں کامیابی کی راہ مسدود ہوجاتی ہے اس لئے اس توانائی اور ولولے کو قابو کرنے کے لئے تحمل اور تدبر ضروری ہے… ووٹ دینے اور نہ دینے والے دونوں افراد ان نوجوانوں کی طرف نظریں اٹھائے دیکھ رہے ہیںکہ اب ان کے حالات بدل جائیں گے۔
عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا۔ تعلیم اور صحت کا حصول ان کا اور ان کے بچوں کا حق ہوگا۔ اب وہ بیماریوں اور آلودگی سے پاک فضاء میں سانس لے سکیں گے اب انہیں ملاوٹ سے پاک اشیاء خوردونوش اور دوائیں میسر ہوںگی۔ اب انہیں پینے کو صاف پانی ملے گا۔ اب وہ خوف اور دہشت کی زندگی نہیں گزاریں گے اور وہ بحیثیت پاکستانی دنیا میں سر اٹھاکر کھڑے ہوسکیں گے۔ وہ ساری امیدیں جو قائداعظم محمد علی جناح کو نوجوانوں سے تھیں، پوری ہوجائیں گی… اور یہ نوجوان اقبال کے شاہین بن جائیں گے۔ ستاروں پر کمندیں ڈالنے لگیں گے، کیونکہ یہ جوان تازگی، جذبہ، جنون ہمت اور ولولے سے سرشار ہیں ،اسی لئے یہ سب کرسکتے ہیں،
مگر یہ امیدیں بھی ٹوٹنے سی لگتی ہیں جب الیکشن کے بعد بھی مخالفین پر بات کرتے ہوئے تحقیر آمیز جملے اور نامناسب زبان استعمال کی جائے… یہ روشنی کچھ کم سی ہونے لگتی ہے جب طاقت اور اقتدار کے نشے میں نہتے شہری پر تھپڑوں کی بارش ہونے لگے۔ تبدیلی کا تاثر گھٹنے لگتا ہے، جب طاقتور قانون کی پاسداری کے بجائے قانون نافذ کرنے والوں کیلئے سزا تجویز کرنے لگے۔ جب یہ محسوس ہونے لگے کہ نوجوانوں کی کردار سازی میں کہیں کسر رہ گئی ہے۔ اور اخلاقیات زوال پذیر ہے یہ خنجر زنی اب بند ہونی چاہئے ورنہ لوگ سوچنے لگیں گے کہ، نوجوانوں نے اس مٹی سے اور اس مٹی کے لوگوں سے وفا کرنا سیکھی ہی نہیں۔ یہ درست ہے کہ آپ کو مخالف سے جتنا بھی اختلاف ہو، مگر اسے آپ بولنے کے حق سے محروم نہ کریں تو جمہوری معاشرہ بنتا ہے ۔تعصب کی عینک نہ اتاری جائے تو معاشرہ روز بروز متشدد ہوجاتا ہے۔ فرقہ واریت، لسانیت، حسد اور نفرت فروغ پاتے ہیں اور یوں معاشروں میں انارکی پیدا ہوجاتی ہے۔ سچے معاشرے اور ان کے اندر سچ بولنے والے غیر متعصب افراد ہی قوم کو صحیح راہ دکھاتے ہیں… دنیا کے مہذب ممالک میں سچ، تحمل اور تدبر کی بنیاد پر ہی سماج کو سدھارنے کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اپنی غلطیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں ٹھیک کرنے کی کوشش سے ہی نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے، دوسری صورت میں معاشرے تضادات کا شکار رہتے ہیں۔
نئے پاکستان کے سفر کے دوران ہی تو نوجوانوں پر اپنی چھپی صلاحیتوں کا ادراک ہوگا، ابھی انہیں بہت سے منصوبے بنانا ہیں، جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھ کر ان کی تکمیل کےلئے کوششیں کرنی ہیں۔اس لیےاب انہیں روشنی کے حصول کے لئے اندھیروں کو ختم کرنا ہوگا۔ خوبصورتی کے حصول کےلئے بدصورتی سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ یہ ایک طویل سفر ہے اور اس سفر میں ہی تو نوجوانوں کی آزمائش ہے۔ اور یہ ہی ان کی قوت برداشت اور صبر کا امتحان بھی ہے اس امتحان میں کامیابی کی کنجی تو وہی ہے جو قائد کا فرمان ہے۔
یقین، اتحاد اور تنظیم
جو اقبال نے بھی بتلایا کہ
یقین محکم عمل پہیم محبت قاتح عالم
اور اس کامیابی کے حصول کیلئے صرف ایک طاقت، جو دنیا کی ہر طاقت پر فوقیت رکھتی ہے۔ جی ہاں ’’محبت‘‘ جو وقت سمیت ہر مخالف کو اپنا تابع بنالیتی ہے۔ تو میرے نوجوان میرے وطن کی عزت کے رکھوالو! تم ہماری امید، توقعات اور ہماری آرزو ہو۔ ساری قوم ہی نہیں ساری دنیا کی نظریں تم پر ہیں۔ تم آسمانوں پرنظر رکھو۔ کتاب سے دوستی، علم کی جستجو، دلیل کی طاقت اور تدبر کی روشنی میں۔ عہد حاضر کا زرد چہرہ نکھارنے کیلئے آگے بڑھو… کامیابی کے یقین کے ساتھ کہ
ضعیف اور مردار ڈھانچوں نے
حکمرانی کا دور دیکھا
وہ انقلاب عظیم پھر سے
پکارتا ہے
مزاج بدلو…
کہ کل بھی بدلا تھا تم نے مل کر
اسی طرح سے یہ آج بدلو…
غلام رہنے کی ریت بدلو
اداسیوں کا رواج بدلو
یہ وحشتوں کا یہ نفرتوں کا
یہ ظلمتوں کا سماج بدلو…!