انتخابات کے بعد توقع کی جار ہی تھی کہ ایک مضبوط اپوزیشن وجود میں آئے گی۔ تاحال ایسا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ خاص طور پر اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں(مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی) اپنے وجود کا احساس دلانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں ۔ پیپلز پارٹی کا سکوت تو قابل فہم ہے۔آصف زرداری صاحب انتہائی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ جعلی بینک اکائونٹس کیس کی تلوار ان کے سر پر لٹک رہی ہے۔ ایف۔آئی ۔اے اور نیب کا شکنجہ انکے گرد کسا جا چکا ہے۔ نہ صرف زرداری صاحب بلکہ انکی بہن محترمہ فریال تالپور بھی حفاظتی ضمانت پر ہیں۔NRO سے متعلق کیس ایک دوسری افتاد ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے زرداری صاحب کے اثاثوں سے متعلق پیش کردہ حلف نامہ مسترد کردیا ہے۔ حکم صادر کیا ہے کہ گزشتہ دس برس کے اثاثوں کی تفصیلات بمعہ ذریعہ آمدن عدالت کے حضور پیش کی جائیں۔ دوران سماعت یہ عندیہ بھی دیا جا چکا ہے کہ انکی صداقت اور امانت کو (نواز شریف اور جہانگیر ترین کی طرح) آئین کے آرٹیکل 62 (1)(f) کی کسوٹی پر پرکھا جا سکتا ہے۔ ایسے حالات میں پیپلزپارٹی کسی احتجاجی تحریک کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یوں بھی پیپلز پارٹی کے لئے حالیہ انتخابات گھاٹے کا سودا ہر گز نہیں تھے۔ اسے امید سے بڑھ کر کامیابی حاصل ہوئی۔ ناقص حکومتی کارکردگی اور کرپشن کی داستانوں کے با وجود اسکا سیاسی کھونٹا ( سندھ کا اقتدار) برقرار ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی اس بار 2013 سے زیادہ نشستیں اسکے حصے میں آئی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ایسا کچھ نہیں کھویا جس پر اسے شکوہ ہو۔ سو اس جماعت کا عدم تحرک اچنبھے کی بات نہیں۔
حیرانی مگر اس بات پر ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور اسکی قیادت کیوں قومی سیاسی منظر نامے سے غائب ہے؟ اس جماعت کا دعویٰ تو یہ تھا کہ اسکے ساتھ نہایت زیادتی ہوئی ہے۔ نہ صرف انتخابات سے پہلے، بلکہ بعدمیں بھی۔اچھی بات ہے کہ شدید تحفظات اور مولانا فضل الرحمن کی ترغیب کے باوجود اس نے پارلیمنٹ میں جانے کا فیصلہ کیا۔ حب الوطنی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ دھرنے، لاک ڈائون، جلائو گھیرائو، پارلیمنٹ کی لعن طعن اور کنٹینر سیاست سے گریز کیا جائے۔ ملک کا مفاد اسی میں ہے کہ سیاسی معاملات کو سیاسی اور پارلیمانی دائرہ کار میں رہتے ہوئے حل کیا جائے۔ البتہ سنجیدہ اور جواب طلب معاملات پر مسلم لیگ (ن)کا چپ سادھے رہنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر( جو حکومتی اراکین کے ہنگامے کی نذر ہو گئی تھی) کے بعد سے سیاسی منظرنامے سے غائب ہیں۔ انکا کوئی پالیسی بیان تک میڈیا پر دکھائی نہیں دیتا۔ حد تو یہ ہے کہ وہ معلومات اور موقف جو مسلم لیگ(ن) کی طرف سے آنا چاہیے ، وہ بھی دیگر ذرائع سے میسر آتا ہے۔ مثال کے طور پر دی نیوز کے تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ کے توسط سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ صوابدیدی فنڈز جس پر پابندی عائد کرنے کا " اعلان" تحریک انصاف کی حکومت نے کیا ہے، وہ فنڈ نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں ختم کردیاتھا۔ سینئر صحافی اور کالم نگار سلیم صافی یہ معلومات افشا کرتے ہیں، کہ نواز شریف اپنی وزارت عظمیٰ کے چار سال، وزیراعظم ہائوس میں ہونے والا اپنا اور اپنے اہل خانہ کا خرچ اپنی جیب سے ادا کیا کرتے تھے۔
یہ سوال بھی جیو کے اینکر شاہزیب خانزادہ نے اٹھایا کہ کہاں ہیں نواز شریف کے وہ 300 ارب روپے جن کا تحریک انصاف کی قیادت بار بارحوالہ دیتی ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے، جے۔آئی ۔ٹی رپورٹ اور نیب ریفرنسز میں اس رقم کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے ۔موجودہ کے بجائے سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو وضاحت کرنا پڑتی ہے کہ جناب عالی! وزیروں کے بیرون ملک علاج پر گزشتہ کئی سالوں سے پابندی عائد ہے۔ اور فرسٹ کلاس ہوائی سفرکا بھی کوئی تصور موجود نہیں ۔اور یہ کہ موجودہ حکومت ان اقدامات کا کریڈٹ لینے کی کوشش نہ کرے۔ شاہ صاحب کو ہی بتانا پڑتا ہے کہ ملٹری سیکرٹری کا گھر(جہاں عمران خان مقیم ہیں)، وزیر اعظم ہائوس سے کسی طور کم نہیں ہے۔ اور یہ کہ وزیر اعظم ہائوس کا 75 فیصد حصہ تو وزیر اعظم آفس پر مشتمل ہے، جو سرکاری کاموں کیلئے استعمال ہوتا ہے اور آج کل بھی ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) ان تمام حقائق سے لاعلم تھی (اور ہے) جو اس نے اپنا موقف دینے کی زحمت گوارہ نہیں کی؟
دیگر سنجیدہ معاملات پر بھی مسلم لیگ (ن) کی خاموشی نا قابل فہم ہے۔ مثال کے طور پر امریکی وزیر خارجہ اور عمران خان کے درمیان گفتگو سے پیدا ہونے والے تنازع پر بھی شیری رحما ن کو بولنا پڑا۔عمران خان اور چیئرمین نیب کے مابین ہونے والی ملاقات کے بارے میں سوال بھی عوامی نیشنل پارٹی کے زاہد خان کو اٹھانا پڑا۔ یہ بھی ایک بڑے انگریزی روزنامے کو بتانا پڑا کہ 90 فیصد سے زائد فارم 45 پر پولنگ ایجنٹوں کے دستخط موجود نہیں ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ اس انکشاف کے بعد بھی مسلم لیگ(ن) کے ٹھہرے سمندر میں لہر نہیں اٹھی۔ قوم کو کچھ خبر نہیں کہ دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے قیام کا مطالبہ کسی فورم پر زیر بحث ہے بھی یا نہیں؟۔ اس حقیقت کا تذکرہ بھی نہایت واضح الفاظ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان کو کرنا پڑا کہ نیب کورٹ نے تو فیصلہ دے دیا ہے کہ نواز شریف نے کسی قسم کی کرپشن نہیں کی اور نیب نے اس فیصلے کے خلاف اپیل نہ کر کے خود مان لیا ہے کہ نواز شریف کرپشن کے الزامات سے بری کر دئیے گئے ہیں۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اتنی بڑی بات کو پوری قوت کیساتھ عوام تک پہنچائے۔ تب بھی اسکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی جب میاں نواز شریف کو بکتر بند گاڑی میں احتساب کورٹ لایا گیا اور یہ انکشاف بھی میڈیا کو ہی کرنا پڑا کہ ذوالفقا ر علی بھٹو(جن پر قتل کا الزام تھا ) انہیں ایک بڑی سیاہ مرسڈیز کار میں عدالت لایا جاتا تھا۔ اسکے مخالفین تکرار سے کہتے ہیں کہ نواز شریف کسی قسم کے NRO کی امید نہ رکھیں۔ تاہم مسلم لیگ (ن) یہ یاد دہانی کروانے سے قاصر رہتی ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز اپنی مرضی اور منشا سے گرفتاری دینے وطن واپس آئے تھے۔ NRO ہی درکار ہو تا تو وہ لندن جیسے محفوظ ملک سے واپس ہی نہ آتے۔( یو ں بھی NRO جیسے معاہدے کی پیشکش کرنا، سیاسی حکومتوں کے بس کی بات نہیں ، یہ صرف آمروں کی صوابدید اور استحقاق ہوا کرتے ہیں)۔مسلم لیگ (ن) کی ایسی "کارکردگی "دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ نواز شریف کا بیانیہ انکے ساتھ ہی اڈیالہ جیل کی کسی کوٹھڑی میں بند ہو گیا ہے۔ اور ایک متحرک ، فعال اور کارکنوں کے جذبات کو زندہ رکھنے والی جماعت، مریم نواز کیساتھ ہی کال کوٹھڑی میں پابند سلاسل ہے۔
حکومت کے اعمال پر نگاہ رکھنااور متحرک سیاسی کردار ادا کرنا مسلم لیگ(ن) کی بنیادی ذمہ داری ہے اسلئے کہ وہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے اس جماعت کے صدر میاں شہباز شریف قائد حزب اختلاف ہیں۔لیکن اب تک تو یہی سامنے آیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور اسکی قیادت کو اپنے اس کردار کے تقاضوں کا کچھ ادراک نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن)کا اصل المیہ یہ ہے کہ وہ نواز شریف کے جیل میں جانے کے بعد بری طرح بے سمتی کا شکار ہے۔ حکومت کی گرفت کرنا اور قومی معاملات پر نگاہ رکھنا تو دور کی بات اسے خوداپنی بھی کوئی خبر نہیں کہ حالات کا تقاضا کیا ہے اور اسے کس طرح ایک زندہ اور متحرک سیاسی جماعت کا کردار ادا کرنا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)