2018کے عام انتخابات کے بعد ارکان پارلیمنٹ حلف اُٹھا چکے ہیں۔ کابینہ بن گئی ہے۔کام کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے والوں میں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔کم و بیش تمام سیاسی جماعتوںنے اپنی الیکشن مہم میں نسل نو کو بہت اہمیت دی تھی۔ نوجوانوں نے بھی نہ صرف سیاسی جلسے جلوسوں، ریلیوں میں شرکت کی بلکہ انتخابات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، سیاسی جماعتوں نے نوجوانوں کو پارٹی ٹکٹ دے کر انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیا۔
اسمبلیوں میں تمام جماعتوں کی جانب سے کثیر تعداد میں نئے چہرے متعارف کرائے گئے ہیں۔ان نوجوانوںکا تعلق چاہے کسی بھی جماعت سے ہو، لیکن یہ ملک کے عوام بالخصوص نوجوان طبقے کی امیدوں پر پورا اتریں گے۔ قوی امید ہے کہ یوتھ پالیسی، تعلیمی بجٹ، طلباء یونینز کی بحالی وغیرہ جیسے اہم مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کریں گےاور وطن عزیز کے نوجوانوں کی حقیقی معنوں میں ایوان میں نمائندگی کریں گے۔ذیل میں صوبائی و قومی اسمبلی کا انتخاب جیتنے والے چند نوجوانوںکا مختصر تعارف نذر قارئین ہے۔
بلاول بھٹو زرداری
بلاول بھٹو زرداری کسی تعارف کے محتاج نہیں، وہ 21ستمبر 1988 کو ۔حالیہ انتخابات میں پہلی مرتبہ انہوں نے حصہ لیا اور لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کی نشست اپنے نام کی۔بلاول بھٹونے ابتدائی تعلیم کراچی گرامراسکول سے حاصل کی۔2007میں بلاول بھٹو نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے سب سے اہم کالج کرائسٹ چرچ کا میں داخلہ لیااور وہاں سے’ ’جدید تاریخ اور سیاست ‘‘کے شعبے میں’’بی اے آنرز‘‘ کی ڈگری حاصل کی اور 2015میں ماسٹرز کیا۔ وہاں وہ طلباء یونین میں سرگرم رہے۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد بلاول بھٹو 2011میں وطن واپس آئے ، 2012میں کراچی میں ایک جلسے سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔پارلیمان کا رُکن بننے کے لیے کم از کم عمر25سال ہے، جس کی وجہ سے وہ 2013 کے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکےتھے ۔ حالیہ انتخابات میں لاڑکانہ کے حلقے این اے 200سے قومی اسمبلی کی نشست کا الیکشن لڑااور کام یابی حاصل کی۔ بلاول بھٹو زرداری اپنی والدہ شہید بے نظیر بھٹو کی وفات کے بعد 30 دسمبر2007کو پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ نامز دہوئےتھے۔ وہ پارٹی کے تمام معاملات اور سیاست میں گہری دل چسپی لے رہے ہیں، جب کہ انہوں نے بارہا اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ صوبے کے نوجوانوں کو بااختیار بنائیں گے۔
ثانیہ عاشق
ثانیہ عاشق مسلم لیگ (ن) کی جانب سےخواتین کی مخصوص نشستوں پر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئی ہیں ، یہ سب سے کم عمر رکن اسمبلی ہیں۔ ثانیہ نے پنجاب اسمبلی میں حلف اٹھایا۔ وہ مسلم لیگ ن کے ہر جلسے میں مریم نواز کے ساتھ اسٹیج پر نظر آتی تھیں۔حلف اٹھانے کے بعد ثانیہ عاشق نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میںکہا، کہ حلف لینے کے بعد کندھوں پر بھاری ذمے داری آجاتی ہے۔ میں پنجاب اسمبلی کے پلیٹ فارم سے پنجاب کے لوگوں کی خدمت کرنے کی بھرپور کوشش کروں گی اور اپنی لیڈر شپ کی توقعات پر پوری اتروں گی، اللہ میرا حامی و ناصر ہو ۔‘‘ حلف اٹھانے کے بعد ثانیہ عاشق نےعزم کیا کہ وہ خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے ایوان میں آواز اٹھاتی رہیں گی۔
چوہدری حسین الٰہی
چوہدری حسین الٰہی ، مسلم لیگ (ق) کے صدرچوہدری شجاعت حسین کے چھوٹے بھائی چوہدری وجاہت کے صاحبزادے ہیں، انہوں نے حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ (ق)کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 68گجرات سے الیکشن میںکام یابی حاصل کی۔وہ قومی اسمبلی کی تاریخ کے کم عمر پارلیمنٹیرین ہیں۔ واضح رہے کہ آئین کے تحت قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لیے کم سے کم عمر 25 برس ہے۔26 سالہ چوہدری حسین الٰہی کا کہنا ہے کہ ’’ میری کوشش ہوگی کہ حلقے کے عوام کی امیدوں پر پورا اتروں۔ہمارا خاندان ہمیشہ سے اسمبلی کا حصہ رہا ہے، میری بھی خواہش ہےکہ میں ملک وقوم کی خدمت کروں۔ حلقے کے عوام نے مجھے منتخب کیا ہے، میں انہیں مایوس نہیں کروں گا۔مجھے اسمبلی میں ان کی نمائندگی کرنے کا موقع ملا ہے،میں ملکی سیاست میں ایسا کردار ادا کروں گا کہ آئندہ انتخابات میں عوام کو جواب دے سکوں۔ اپنے حلقے کے لوگوں کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں۔میں ان کے ووٹوں کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔
سمیرا شمس
ڈاکٹر سمیرا شمس کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے،وہ 19اگست 1991کوپیدا ہوئیں۔ انہیں خیبرپختونخوا اسمبلی کی کم عمر ترین ایم پی اے ہونے اکااعزاز حاصل ہے، 27سالہ سمیرا شمس خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ان کا تعلق خیبرپختونخوا کے پس ماندہ ضلعے لوئر دیر سے ہے، طب کے پیشے سے وابستہ ڈاکٹر سمیرا شمس کا شمار ان چند خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے لوئر دیر میں پہلی بار ووٹ ڈالا ۔وہ 9 سال قبل انصاف یوتھ ونگ سے وابستہ ہوئی تھیں۔ 2015میں ضلعی کونسلر منتخب ہوئی تھیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ سمیرا شمس کا تعلق تو شعبہ طب سے ہے ،لیکن امور نوجوانان میں ان کازیادہ تجربہ ہے۔رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ میری زندگی کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے صوبے کے پس ماندہ اضلاع میں خواتین کے لیےیونیورسٹیاں قائم کرنا۔اب خواتین کی مایوسی امید میں تبدیل ہوگی، اور ان کا سیاست میں واضح مقام متعین ہوگا۔
عمار صدیق خان
عمار صدیق خان، وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم غلام سرور خان کے بھتیجے ہیں۔انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر راولپنڈی کے حلقے پی پی 19سے الیکشن لڑا اور صوبائی اسمبلی کی نشست اپنے نام کرنے میں کام یاب ہوئے۔وہ کہتے ہیں، نوجوانوں کا جوش و جذبہ ملک و قوم کی تقدیر بدلنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے، کیوں کہ جب وہ صدق دل سے کچھ کر دکھانے کی ٹھان لیتے ہیں ، تو پھر وہ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے دل و جان سے جت جاتے ہیں۔عمار صدیق خان نے پنجاب اسمبلی میں دومرتبہ حلف اُٹھایا۔یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ایسا کرکےانہوں نےحلف سے وفاداری کی ایک اعلی مثال قائم کر دی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ حلف برداری کی تقریب میں تاخیر سے پہنچے تھےاور ابتدائی چند سطور کا حلف نہیں اٹھا سکے تھے۔اس لیے عبارت کا عہد کرنے کے لیے دوسری بار حلف اٹھایا ۔
وزیر زادہ کالاش
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کیلاش کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان وزیر زادہ، اقلیتوں کے لیے مخصوص نشست پررکن اسمبلی بن کر ایک تاریخ رقم کر دی ہے۔ان کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے، انہوں نے چترال سے میٹرک اور گریجویشن کیا،بعد ازاں پشاور یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا۔ایل ایل بی میں بھی داخلہ لیا، مگر وہ تعلیم مکمل نہ کر سکے ۔34سالہ وزیر زادہ کا شمار علاقے کے مشہور اور فعال سماجی کارکنوں میں ہوتا ہے، انہوںنے کیلاش کا روایتی لباس پہن کر اسمبلی کا حلف اٹھایا۔ وزیر زادہ کالاش کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کیلاش قبیلے کو پہلی مرتبہ نمائندگی ملی ہے ،چترال کی ترقی اور کیلاش کلچر کے تحفظ کے حوالے سے میرے دل میںبہت سی خواہشیں ہیں،میںپورے کیلاش کی آواز بنوں گا،خصوصاًکیلاش کلچر کے تحفظ کے لیے اسمبلی میں آواز اُٹھاؤں گا۔کیلاش قبیلے نے چترال پر طویل عرصے تک حکمرانی کی اور اس دوران بہت سے ترقیاتی کام کیے ، جن میں پُلیں ،نہریں اور عمارات ثقافتی ورثوں کی صورت میں موجود ہیں ۔کیلاش کی وادیوں سمیت چترال کی ترقی میری ترجیح ہوگی ۔ بہ طور اقلیتی رکن اسمبلی صوبے کے تمام اقلیتوں کے مسائل کے حل پر بھر پور توجہ دوں گا اور احسن طریقے سے ذمےداریاں انجام دینے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانے کی بھر پورکوشش کروں گا، کیوں کہ ترقی کرنے کے لیے امن بنیادی اہمیت کاحامل ہے ۔ کیلاش قبیلے کے علاوہ مقامی مسلم کمیونٹی بھی وزیر زادہ کے منتخب ہونے پر انتہائی خوش ہیں۔
مومنہ باسط
مومنہ باسط پاکستان تحریک انصاف ، ہزارہ ریجن کی صدر ہیں، وہ حالیہ انتخابات میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر خیبر پختونخوا اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔انہوں نے او لیول کیا ہوا ہے۔وہ گزشتہ کئی برسوں سےپی ٹی آئی کی رکن ہیں ۔وہ ایک ایسے علاقے (ہزارہ) جسے ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے سے بہ طور صدر فرنٹ لائن پر پارٹی کو لیڈ کر رہی اور علاقے کے لوگوں کے لیے انتھک محنت کر رہی ہیں۔
زرتاج گل
زرتاج گل اخوند کا شمار مضبوط نوجوان سیاست دانوں میں ہوتا ہے ۔شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی زرتاج نے تعلیم لاہور سے حاصل کی اور پھر تحریک انصاف میں بہ طورر رضاکار شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے پہلی مرتبہ 2013 میں ڈی جی خان سے الیکشن لڑا، لیکن کام یاب نہ ہو سکیں۔ 2018 کے انتخابات میں عمران خان نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے 42 خواتین کو ٹکٹ دئیے، ان میں زرتاج گل بھی شامل تھیں۔ 25 جولائی کو قومی اسمبلی کی نشست این اے 191 (ڈیرہ غازی خان) سے انہوں نے ن لیگ کے صفدر اویس خان لغاری کو شکست دی، حالاں کہ اویس خان لغاری اس حلقے سے تین مرتبہ کام یاب ہو چکے تھے۔ ان کے والد فاروق لغاری صدر پاکستان تھے۔زرتاج گل کو ابتداء سے ہی اندازہ تھا کہ اس حلقے سے ان کے لیے کام یابی حاصل کرنا آسان نہ ہوگا ۔1970 میں این اے 191 میں جماعت اسلامی کے ڈاکٹر نظیر احمد کامیاب ہوئے تھے ،تاہم اس کے بعد سے اس حلقے سے ہمیشہ لغاری خاندان ہی کامیاب ہو رہا تھا۔
میاں فرخ حبیب
فرخ حبیب کا شمار انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانی ارکان میں ہوتا ہے، 2018کے انتخابات میں فیصل آباد کے حلقے این اے 108سے قومی اسمبلی کاالیکشن لڑااورمسلم لیگ ن کے عابد شیر علی کو شکست دی۔ ان کا کہنا ہے کہ میں طلباء تنظیموں پر پابندی کے خلاف ہوں، میرا ارادہ طلباء یونین کی بحالی اور یوتھ پالیسی کے حوالے سے اسمبلی میں بل لانے کا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو طلباء تنظیموں کی بحالی کے لیے مل جُل کر کوشش کرنی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کی تربیت ہو سکے ۔
مخدوم سید مصطفیٰ محمود
پاکستان مسلم لیگ (ف)سے تعلق رکھنے والے نوجوان سیاست دان مخدوم سید مصطفیٰ محمود 29جون 1986کو پیدا ہوئے۔ وہ پہلی بار 2012میں ضمنی انتخابات میں رحیم یار خان کے حلقے این اے 195سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ 2013 کے عام انتخابات میں بھی اسی حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور اب حالیہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رحیم یار خان کے حلقے این اے 178سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔
ارسلان گھمن
نوجوان رکن اسمبلی ارسلان گھمن 3 جون 1985 کو کراچی میں پیدا ہوئے،ان کا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے ہے۔ انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے، انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر پہلی مرتبہ 2013کے عام انتخابات میں پی ایس 118سے الیکشن لڑا جس میں وہ کام یاب نہ ہو سکے۔ 2010میں پاکستان میں آنے والے سیلاب میں انہوں نے اور ان کی ٹیم نے گلشن اقبال میں ایک ریلیف کیمپ بھی قائم کیا،جب وہ انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر تھے، تو اس دوران انہوں نے نوجوانوں کے کئی مسائل کو اجاگر کیا، بالخصوص تعلیمی اداروں میں ہونے والی شدت پسندی، تعلیمی بجٹ، امتحانی مراکز میں نقل وغیرہ کے خلاف کھل کر آواز اُٹھائی۔ ارسلان نے ہمیشہ ہی جاگیردارانہ نظام اور شاہزیب خان قتل کیس کے خلاف آواز اُٹھائی۔حالیہ انتخابات 2018میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کےحلقہ پی ایس 118سے انتخاب لڑا اور صوبائی اسمبلی میں اپنی نشست پکی کروالی۔