• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرح ریحان

والدین کے لیےبیٹی بہت بڑا سرمایہ ہے۔بیٹی رحمت بن کر گھر میں آتی ہے اس لئے اسلام میں بیٹی کی پیدائش پر مایوسی کے اظہار کو سخت منع فرمایا گیا ہے۔ گھر کی رونق بیٹی کے دم سے برقرار رہتی ہے۔اس کے پیا دیس سدھارنے کے بعد باپ کا گھر، صحن اور گلیاں سونی ہوجاتی ہیں۔ دنیا کا دستور ہے کہ ہربیٹی کو بیوی، ماں، بھاوج، نند اور بہو کی ذمہ داریاں سنبھالنی ہوتی ہیں۔اگرچہ اولاد کی بہتر تربیت مشکل کام ہے، لیکن بیٹی کی تربیت کے مسئلہ پر اکثر والدین، ہمیشہ فکر مند دکھائی دیتے ہیں۔ بالخصوص مائیں اس محاذ پر خود کو ناکام سمجھتی ہیں مگر ایسا ہر خاتون کے ساتھ نہیں ہوتا۔ کوئی بھی ماں، اپنی بیٹی کے مستقبل سے کھلواڑ نہیں کرتی۔ آج کی لڑکی کو کل کی کامیاب عورت (بیوی اور ماں ) بنانا، ماں کی ذمہ داری ہے۔بیٹیاں، چھوٹی سےچھوٹی اور بڑی سے بڑی بات یا اپنی پریشانی،ماں سے ہی شیئر کرتی ہیں۔

اس لئے بیٹی کو ماں کی سہیلی کہا جاتاہے۔ یہ بات طے ہے کہ لڑکیوں کو مستقبل میں ایک کامیاب اور مکمل عورت کا روپ دھارنے کے لیے ماحول بنیادی و اہم جز ہے۔ بہتر ماحول کے بغیر لڑکی، کامیاب بیوی،ماں کا روپ اختیار نہیں کرسکتی، اس لئے والدین پر یہ لازم ہے کہ وہ گھر کے ماحول کو پرسکون،آرام دہ اور صاف ستھرا بنائیں ۔ لڑکوں کے بہ نسبت لڑکیاں بہت زیادہ حساس ہوتی ہیں اس لئے وہ ماحول کے اثرات کو بہت جلد قبول کرتی ہیں۔ اسی طرح ان کی تعلیم و تربیت پر بھی خصوصی توجہ دینا اور بچپن سے ہی صبر،استقامت،ایثار و قربانی کے جذبات ان کے اندر پیدا کرناضروری ہے۔ انہیں یہ بتائیں کہ نامساعد حالات میں کس طرح ثابت قدمی سے رہا جاتاہے۔

ہر لڑکی کو ایک نہ ایک دن اپنے باپ کا گھر چھوڑنا ہی پڑتا ہے۔والدین کو چاہیئے کہ شادی سے قبل بیٹی کو اپنے شوہر،ساس اور سسر کی اطاعت کرنے کی نصیحتیں کریںاور لڑکیوں کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ سسرال ہی تمہارا دائمی گھر ہے جب کبھی باپ کے گھر آؤ گی ،تم مہمان بن کر ہی آؤگی۔ سسرالی رشتہ داروں سے بہتر و خوشگوار تعلقات استوار کرنے کی ہدایات دیتے رہیں۔ والدین اگر ناخواندہ بھی ہوں تو اپنی بیٹی کو کم از کم گریجویشن ضرورکروائیں۔ تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے جہالت،غربت ناخواندگی اور دیگر سماجی و معاشرتی برائیوں کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے،کیوں کہ ایک تعلیم یافتہ بیوی،شوہر کی بند تقدیر کے تالے کو کھول سکتی ہے، وہیں وہ معاشرہ کوصالح بھی بنا سکتی ہے۔ اولاد کی بہتر تعلیم و تربیت ایک تعلیم یافتہ ماں بہتر انداز میں کرسکتی ہے۔ اگر لڑکی کسی بھی معاملہ میں دباؤ کا شکار ہے تو آپ اس میں بیجا مداخلت نہ کریں بلکہ اسے دباؤ کے ماحول سے از خود باہر آنے دیں، آپ کی مداخلت سے بیٹی کا اعتماد نہیں بڑھے گا۔ پریشانی کے وقت وہ، والدین کی مدد و تعاون حاصل کرتی رہے گی اس لئے پریشانی اور دباؤ سے نمٹنے کیلئے اس کی مدد نہ کریں بلکہ اسے ان مسائل سے نمٹنے کا عادی بنائیں۔ اگر آپ اکلوتی بیٹی کے والدین ہیں تو اسے اس بات کا احساس دلائیں کہ تنہائی بری چیز نہیں ہے بلکہ اس تنہائی سے بھی بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ گھروں میں بیٹیوں کے ساتھ خشک رویہ اختیار نہ کریں۔ اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ کام کے دوران بیٹی کے ہاتھ سے کوئی چیز ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے تو ماں گھر کو سرپر اٹھالیتی ہے ہیں ،بیٹی کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کا رویہ نہ رکھیں بلکہ اس کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیں۔ اگر بیٹی سے کوئی شئے خراب بھی ہوجاتی ہے تو اس پر غصہ نہ کریں بلکہ محبت سے یہ سمجھائیں کہ بیٹا! کام آہستہ کرو، آئندہ ایسی غلطی مت کرو، صرف اتنا کہنا ہی کافی ہے۔

عموماً لڑکیاں گھریلو کاموں میں ماں کا ہاتھ بٹانے سے گریز کرتی ہیں، یہ بیجا لاڈ پیار کا نتیجہ ہے۔ آپ کی بیٹی چاہے بڑے عہدہ پر ہی فائز کیوں نہ ہو،اگر اسے کھاناپکانا نہیں آتا تو پھر وہ ایک کامیاب ماں اور بیوی نہیں بن سکتی۔ بچپن سے ہی بچیوں کو پڑھائی کے ساتھ گھریلو کام کرنے کا عادی بنائیں۔انہیں پکوان کا ماہر بنائیں ۔ کھانا پکانے میں ماہر لڑکی ہمیشہ اپنے شوہر کے دل پر راج کرتی ہے۔ مثل مشہورہے کہ شوہر کادل جیتنے کا راستہ اس کے معدے سے ہوکر گذرتا ہے۔ اس لئے ہر لڑکی کوتعلیم کے ساتھ گھریلو امور خاص کر ککنگ میں بھی ماہر ہونا چاہئے۔ ہر ایک کی زندگی میں نشیب و فراز آتے ہیں۔ لڑکیوں کو بھی زندگی میں آنے والے اُتار چڑھاؤ میں ثابت قدم رہنے کی تعلیم دیں کیونکہ مستقل مزاجی سے کئی مسائل حل ہوتے ہیں۔ بیٹی کی زندگی کو کامیاب بنانا والدین کے ہاتھو ں میں ہے۔ اگر والدین، بیٹی کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کریں گے اس کے اندر جذبہ ایثار،صبر و شکر کو پیدا نہیں کریں گے اور اس کو شوہر اور دیگر سسرالی رشتہ داروں کی خدمت کے لیےتربیت کا سامان فراہم نہیں کریں گے تونتائج منفی آنے کا مکان رہتا ہے۔

تازہ ترین