• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر کوئی یہ کہے کہ گزشتہ حکومتوں نے خاص طور سابق حکومت نے جو بڑے بڑے پروجیکٹس میں دانستہ بگاڑ پیدا کیا ہے اور جس طرح ٹیکس کی رقم کو اڑایا گیا اس کا فرنزک آڈٹ نہ ہوا اور ذمہ داروں کو کڑی سزا نہ ہوئی اور ان سے زرمبادلہ کی شکل میں ازالہ نہ کیا گیا تو کیا جمہوریت ناکام جائے گی ،انراکی ہوگی یا پھر انقلاب کی ضرورت ہوگی؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ آپ دیکھئے کہ ڈیم نہیں بنائے گئے پانی ذخیرہ نہیں کیا گیا اور نعرہ لگادیا گیا کہ گیارہ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی گئی ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اس کا ڈسٹری بیوشن سسٹم اتنا ناقص ہے کہ وہ فاضل بجلی کی ترسیل کر ہی نہیں سکا۔یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان 25ارب روپے پاکستان میں ایسے سیاست دانوں اور لکھاریوں کو دیتا رہا ہے۔ جو ڈیم بنانے کے خلاف کام کرتے رہے۔ ادھر ہندوستان ڈیم بناتا رہا مشرف حکومت سے لے کر نواز حکومت تک بروقت کوئی نہیں بولا۔کیا اسے ہم معاشی عدم دل چسی کہیں یا معاشی بربادی؟ پاکستان کے عوام مستقبل میں جن پریشانیوں اور عذابوں کا سامنا کریں گے ان میں سب زیادہ دروناک مسائل بجلی ، پانی اور جہالت کا غلبہ ہوگا۔ لوگوں کے دماغ اس قدر بند کردیئے گئے اور اس قدر کرپشن نچلی سطح تک پھیلائی گئی کہ اب سادہ زندگی کا اکثر لوگ مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔ بیوروکریسی ، اشرافیہ اور حکمران طبقے سادگی کے لفظ سے الرجک ہیں۔ حد سے زیادہ عیاشی بنگلوں گاڑیوں کے علاوہ بیرونی ملکوں میں اثاثہ جات کی کرپشن معاشرے کے اونچے طبقات میں سرایت کرچکی ہے کہ وہ اب فروعی باتوں پر الٹے سیدھے تبصرے کرتے نظر آتے ہیں، تو پھر کوئی بھی ذی فہم اندازہ کرسکتا ہے کہ ملک میں معمولی تبدیلی لانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بجلی کے بعض پروجیکٹس ایسے بھی ہیں جو 40روپے فی یونٹ میں پڑیں گے۔ سی پیک کے حوالے سے بات کرنا گناہ سمجھا جاتا ہے جس کے تمام معاہدے ری وزٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ قطر سے جو گیس منگوائی جارہی ہے اس کے معاہدات کو بھی گہری نظر سے دیکھنا ہوگا۔اندازہ کیجئے کہ سابق کے ای ایس سی کے سربراہ تنظیم نقوی نے 12سال پہلے ٹیلی ویژن پروگرام میں کہا تھا کہ بجلی جتنی پیداور کرلو اگر کاپر کے ذریعے ڈسٹری بیوشن سسٹم ٹھیک نہ ہوا تو ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ان مفاد پرستوں نے جس جگہ پر معیشت کولا چھوڑا ہے وہ نہایت ہی خطرناک موڑ ہے، کیونکہ عصر حاضرمشینی ٹیکنالوجی کا انقلاب کا دور ہے اس انقلاب سے سوسائٹی ایٹموں میں تقسیم ہوگئی ہے گھر کا ہر فرد مزدوری اور ملازمت کے لئے شہر شہر بکھر کر رہ گیا ہے۔ کنبے کے ٹوٹنے سے صدیوں پرانے اخلاقی اور قانونی ضابطے بھی بکھر کر رہ گئے ہیں جو صرف کنبے کی مضبوطی کے لئے آئے تھے، اس میں یہ پہلو بہتر ہوا کہ مکینوں کی نقل مکانی کے ساتھ جاگیردارانہ اور شاہی نظام بھی بکھر گیا لیکن سامراج نے اجارہ داریوں کے ذریعے نئے جاگیردار اور سکہ شاہی نظام کی بنیاد رکھ دی۔ وفاداریوں کے پرانے سسٹم ٹوٹ پھوٹ جانے سےذاتی مفاد کا خوفناک سسٹم سرمایہ داری کی کئی صورتوں میں ٓنچلے طبقوں پر غالب ہوگیا ہے۔ محنت کش اور ملازمت پیشہ افراد جدید غلامی میںانتہائی پریشانیوں سے دو چار ہوگئے۔ اگر موجودہ حکومت رویے تبدیل کرنے والے اقدامات اٹھا رہی ہے لیکن ضروری ہے کہ انرجی کی ڈسٹری بیوشن اور ا سے نتھی امور کو نہ دیکھا تو ترقی خاص طور پر برآمدات اور ملکی پیداوار کا بڑا بحران ملک میں انارکی پیدا کرسکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جن مجرمان نے پاکستان میں لوٹ مار کی ہے ان کے ساتھ سلوک تو انقلاب ہی کرسکتا ہے ۔ موجودہ جمہوریت میں سازشیں اور دولت کا غلط استعمال کوئی کام کرنے نہیں دے گا۔

مفتاع اسماعیل سابق حکومت کے آخری وزیر خزانہ تھے، انہوں نے دانستہ بجٹ ایسا تشکیل دیا ناقص ناقص تھا اور روپے کی قدر میں کمی بھی ان طبقوں کے لئے ہوئی جنہوں نے اس سے فائدہ اٹھالیا۔ اب نیا بجٹ بنانا آسان کام نہیں ہے نئے وزیر خزانہ اسد عمر کو مفتاع اسماعیل کے بجٹ میں ایڈجسٹمنٹ کرنی ہوگی خود وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ گزشتہ حکومت نے جوسال بھرکے لئے بجٹ بنایا وہ نہایت غیرحقیقی ہے، اسے جون میں بنانا تھا اور عجلت میں چھ ہفتے قبل 26اپریل 2018ء میں بنادیا گیا۔ اس میں پی ایم ایل (ن) کے وزیر خزانہ نے دھاندلی یہ کی کہ ضرورت سے زیادہ ٹیکس میں کمی کردی تاکہ انہیں ووٹ زیادہ مل سکیں۔ اس طرح جہاں بہت سے خسارے چھوڑ کر جارہے تھے،وہاں 91 ارب روپے ریونیو میں ایک فاضل خسارہ چھوڑ گئے۔ عوام کی سپورٹ کی خاطر (PSDP) پی ایس ڈی پی میں 50ارب روپے کا اضافہ کردیا جس میں 230ارب روپے غیرحقیقی طور پر سیلف فنانسنگ کا کئی شعبوں میں اعلان کردیا۔ جس کے منفی اثرات کارپوریشنز پر پڑیں گے ا ورا ن کے اپنے بجٹوں کے لئے کھربوں روپے کی ضرورت ہوگی جس کے لئے آئی ایم ایف کے پاس جانا ضروری ہوجاتا ہے۔ زر تلافی میں ایک عرصے سے بعض شعبوں میں آئی ایم ایف کی ہدایت پر کمی کی جارہی تھی ۔ مفتاع اسماعیل نے جاتے جاتے 27 ارب روپے کا اضافہ کردیا۔ اس وقت ماہرین کا خیال تھا کہ اگر ن لیگ واپس اقتدارمیں آگئی تو اسے بجٹ کو یکسر تبدیل کرنا پڑے گا۔ اب بجٹ میں ایڈجسٹمنٹ یا کوئی تبدیلی کرنی ہے تو اس کی منظوری پارلیمینٹ سے لینی ہوگی ،اس لئے ہوسکتا ہے کہ تحریک انصاف کو اپنی ترجیحات بدلنی پڑے۔ یہ تو درست ہے کہ تحریک انصاف کو ورثہ میں کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ، توازن ادائیگیوں کا خسارہ 95 ارب ڈالر کا قرض ،سی پیک کے قرضے اور معاہدے، اندرونی خسارے خاص طور پر بجٹ کا خسارہ مہنگائی اور بے روزگاری ملےہیں لیکن اس کے لئے ایجنڈے سے ہٹ کر بھی اقدام کرنے ہوں گے۔ وزیراعظم عمران خان کے وژن کے مطابق 5سال میں 50لاکھ گھر ، ایک کروڑ ملازمتیں اور سیاحت کے پروگراموں کو اگر کچھ وقت کے لئے موخر بھی کرنا پڑا لیکن حکومتی اخرجات میں بہت زیادہ کمی اور برآمدات میں اضافہ کرنا زیادہ ضروری ہوگا۔

زرمبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہیں، البتہ ترسیلات زر میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ وزیر خزانہ اسد عمر سکوک بانڈز وغیرہ ملک کے اندر اور باہر بھی جاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جسےجلد جاری کردیا جائے تو ایجنڈے پر کام کرنا آسان ہو جائے گا، تاہم پولیس کو پنجاب میں درست کرنا بہت بڑا مسئلہ ہے مگر جلد حل ہوگیا تو پنجاب میں بہتر صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ بیوروکریسی کے بارےمیں سب جانتے ہیں۔وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کوانتخاب میں میرٹ دیکھنا ہوگی۔ اچھے لوگ موجود ہیں وہ مل سکتے ہیں اس کے بعد ہی حکومت کفایت شعاری کی حکمت عملی اور غیرپیداواری اخراجات میں فوری کمی میں کامیاب ہوسکتی ہے اربوں روپے دوروں پر بغیر کسی کامیابی کےگزشتہ دس سال میں خرچ کئے گئے ہیں ان کا آڈٹ کرکے رقوم واپس لی جائیں۔ اسٹریٹ بچوں کے لئے بھی بندوبست کرنا ایجنڈے میں شامل ہے۔ اسے عمل میں لانے کے لئے انقلابی اقدامات کرنے ہوںگے لیکن بگڑا ہوا اور مختلف سطحوں پر پھیلا ہوا کرپٹ طبقے کو قابو میں لانا صرف عوام کی مدد سے ہوسکتا ہے۔ ان میں وہ صنعتی اور تجارتی حلقے شامل ہیں جو اربوں روپے کا ٹیکس چوری کرتے ہیں اور کم از کم 35لاکھ افراد براہ راست ٹیکس ادا نہیں کرتے، بلکہ سیلز ٹیکس جو عوام سے لیا جاتا ہے وہ بھی ہضم کرجاتے ہیں۔ اس میں ٹیکس محکمہ اور ایف بی آر کے لوگ بھی شامل ہیں۔ اندازہ کیجئے ملک کیسے ترقی کرسکتا ہے جب حالت زار اس بیان سے بھی زیادہ خراب ہو، یہ تو ہو نہیں سکتا۔ قرضوں کے ضمن میں عالمی مالیاتی ادارے سود میں کمی کردیں یا پرنسپل امائونٹ کم کر لیں یا موخر کردیں۔ گزشتہ 5سال میں 30ارب ڈالر قرض لیا گیا۔ اسٹیٹ بینک اور دیگر بینکوں سے الگ قرض لئے گئے ۔

موجودہ حکومت کو اس پر بھی اقدامات اٹھانے ہوں گے کہ سرحدوں پر جو کچھ ہورہا ہے اس کا تدارک ہو۔ ایک طرف اسمگلنگ نے حالت خراب کر رکھی ہے دوسری جانب افغانستان اور ہندوستان نے بارڈر پر حالات خراب کر رکھے ہیں۔ اس وقت ایران سے گیس اور پٹرول لینا اور بہت سی اشیاء برآمد کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ بیرون ملک جو غیرقانونی 200ارب ڈالر رکھے گئے ہیں ان کےسلسلے میں سنجیدہ کوشش شروع کی جائے۔ اس تناظر میں متحدہ عرب امارات اور برطانیہ سے تعلقات بہت بہتر کرنے ہوں گے ،تب ہی پیش رفت ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ دنیا کی ہر زندہ معیشت میں قومی خارجہ پالیسی تجارت کے تعاقب میں تشکیل پاتی ہے۔ یورپ ، امریکا ،جاپان کی خارجہ پالیسی اور سفارتی تاریخ کا مطالعہ کریں سب تجارت کے تعاقب میں منڈیوں میں اپنا حصہ لینے کے لئے جدوجہد کرتےہیں،ان کے تمام ادارے نئی سے نئی ٹیکنالوجی کے سانچوں میں اقتصادی نمو کو اوپر لے جانے کے لئے ایک دوسرے کے مددگار ہیں وہاں عوام، اسلحہ اور فوج کی طاقت صنعتی اور تجارتی مفادات کے فروغ کے تابع ہیں اورتمام ادارے اپنی قوت صنعت و تجارت کے فروغ سے حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس کے خلاف سب ادارے ایک دوسرے سے اور خود اپنے مقاصد سے متصادم ہیں۔ پولیس عوام کی خدمت کرنے کے بجائے ان سے خدمت کرواتی ہے۔ صنعتیں اور کاروباری حلقے بینکوں کے نادہندہ ہیں اور بینک عام آدمی کے لئے (کریڈٹ کارڈ اور سود) عذاب جاں ہیں۔ٹیکس چوری ، بجلی چوری اور گیس چوری کلچر بن چکی ہے۔ مالدار طبقے زیادہ کرتے ہیں۔ غریب کےبس میں علاج معالجہ ، پڑھانا اور بل ادا کرنا محال ہوگیا ہے، بلکہ وہ توگندگی میں پرورش پاتے ہیں اور بیماریوں سے اٹے ہوئے ہیں ۔ سرکاری اسکول اوطاق بن گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ، پاکستان کیا ا شرافیہ کے لئے بنایا گیا ہے؟ تعلیم ترقی کا ذریعہ بننے کے بجائے قومی وسائل پر بوجھ ثابت ہورہی ہے۔ والدین کے لئے فیسوں کی ادائیگی انتہائی مشکل ہوگئی ہے۔ بیوروکریسی بجٹ کے فروغ میں مددگار ہونے کی بجائے حملہ آور رہتی ہے بجٹ سے تنخواہیں اور مراعات بڑھانے کے لئے دبائو ڈالتی ہے۔

پاکستان کے سالانہ بجٹ میں آمدنی کے ذرائع پر نظر دوڑائیں تو اس کی بے مائیگی کی جڑیں ننگی نظر آتی ہیں۔ پاکستان کے قومی بجٹ کی آمدنی کا انحصار اوّل قومی برآمدات پر ہے،جوبہت کم ہیں سفارت خانے اس سلسلے میں کچھ نہیں کرتے اور برآمدکنندگان بھی اپنے مفادات کو ملکی مفاداست پر مقدم رکھتے ہیں۔ دوسرے نمبر ترسیلات زر ہیں جو محنت کش بھیجتے ہیں اور محنت کش پاکستان کے ہر بجٹ میں گم شدہ ہندسے ہیں۔ تیسرے نمبر داخلی و بیرونی قرضوں کے انبار ، اور آخر میں اہم نکتہ بلواسطہ عوام پر ٹیکس ہے، دستاویزی معیشت سے ہر بےایمان حلقہ خوف کھاتا ہے اس لئے کہ وہ پاکستان کو کچھ دینے کو تیار نہیں کیونکہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکمران اور بیوروکریسی بھی ان ٹیکسوں کا فائدہ خود ہی ہضم کرجاتے ہیں۔ جب ترسیلات زر میں آتی ہیں تو ڈالر تجارتی ادائیگیوں کے خساروں میں گھپ جاتا ہے۔ اور اس کے بدلے گھر والوں کے لئے مقامی روپے میں ادائیگی کی جاتی ہے۔ ادائیگی کے لئے مال کے بغیر نوٹ چھاپنے پڑتے ہیں جس سے افراط زر ، روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی کو جنم ملتا ہے ،جہاں روزگار ، پیداوار اور کاروبار پیدا نہ ہورہے ہوں تو ٹیکس مہنگائی یعنی قیمتوں کو بڑھانے سے وصول کئے جاتے ہیں (سیلزٹیکس اور یوٹیلیٹی نرخ) جن سے نہ صرف عوم کی قوت خرید کمزور ہوتی ہےبلکہ بجلی، تیل جیسی پیداوار کے لئے ان پٹ بھی مہنگی ہو کر پیداوار اور برآمدات کو ناکارہ بنادیتی ہے۔ قومی معیشت نمو کے مسلمہ بنیادی اصولوں سے محروم ہو تو بجٹ کے سب دعوے دھوکہ ثابت ہوتے ہیں ان سب مسائل پر موجودہ حکومت کو غور کرکے فیصلے کرنے ہوں گے۔

تازہ ترین