• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی سینیٹر جان میکین کی موت سے پاکستان ایک اچھے دوست سے محروم ہوگیاہے آنجہانی جان میکین کی زندگی کے 81 سال گزار کر اس دنیا سے 25 اگست کو رخصت ہوگئے ہیں۔ جان پاکستان کے ان خیر خواہوں میں شمار ہوتے تھے جنہوںنے ہمیشہ پاکستانی مئوقف کی حمایت کی گذشتہ سال پاکستان کے دورہ کے دوران بھی جان میکین نے پاکستانی مئوقف کی کھل کر حمایت کی اور یہ بھی کہاکہ اس خطے میں پاکستان ایک اہم ملک ہے اور اس کے کردار اور اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔امریکہ کے پاکستان کے ساتھ اچھے اور دوستانہ مراسم بہت اہم ہیں لیکن اب اس دوست سے محروم ہوچکے ہیں ہم سفارتی طور پر ہمیشہ کمزوررہے ہیں۔اگر خوش قسمتی سے ایک آدھا دوست تھا وہ بھی نہ رہا۔ ہم نے سفارت کاری میں یا صرف ذاتی دوستیاں پالی ہیں یا خود کو بالکل قدموں میں گرالیا۔ ہم نے درست انداز میں اپنا مئوقف بیان کرنے کی کوشش نہیں کی۔ درست انداز میں موقف پیش کرنے یا لابنگ کو بہتر بنانے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اکڑ کے بیٹھ جائیں یا قدموں میں گر جائیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے مفاد میں پہلے ایک پالیسی ترتیب دی جائے جس میں تمام ملکی اداروں کے ساتھ مشاورت کرکے سب کو ایک پیج پر لایاجائے اور پھر اس کے مطابق حکمت عملی بنائی جائے۔ اس کے لیے دوسرا اہم قدم یہ ہے کہ وزارت خارجہ کے وزیر سے لے کر عملے تک کو موثر بنایاجائے اور خاص طور پرہمارا سفارتی عملہ جو اوورسیز پاکستانیوں کے کام کر نے کو اپنی تو ہین سمجھتا ہے اورنہ پاکستان کے مئوقف کو اچھے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کی کوشش تو صرف اچھاا سٹیشن حا صل کرنا اور پھر سفارت کاری کی بہاروں کو انجوائے کرنا ہوتا ہے ۔اگر بہت کام دکھانا ہو تو چودہ اگست کو پرچم کشائی میں شیروانی پہن کر کھڑے ہونے کو ملک کی نمائندگی تصور کیاجاتا ہے حالانکہ سفارت کاری اس سے کہیں ز یادہ کام کی متقاضی ہوتی ہے۔ امریکہ نے تیس کروڑ ڈالرز کی امداد کو منسوخ کرنے نہ صرف ہماری لازوال قربانیوں کوایک فیصلے سے روند ڈالا ہے بلکہ ہماری کمزور سفارت کاری جو کئی دہائیوں سے چلی آرہی ہے کا پردہ بھی چاک کردیا ہے۔ امریکہ ہم سے اپنے مجرم تک دبائو ڈال کر لے جاتا ہے، بلیک واٹر کے ان اہلکاروں کو سفارت کار قرار دے کر جن کے ہاتھ ہمارے بے گناہ اور معصوم شہریوں کے خو ن سے رنگے ہوتے ہیں چھڑا کر لے جاتا ہے۔لیکن جب ہم کوئی درخواست کریں تو امریکہ بہادر خود کو اپنے قوانین کے پردوں کے پیچھے چھپالیتا ہے۔ لیکن اگر اب واقعی بدلا ہوا پاکستان ہے تو ہمیں اکڑ دکھا کر یا قدموںمیں گر کراپنی خارجہ پالیسی نہیں ترتیب دینی بلکہ حقیقت پر مبنی پالیسی بنا کر اسے بھرپور طریقہ سے دنیا کو باورکرانا ہوگا۔ زبانی70 ہزار جانیں قربان کرنے کی داستان نہیں سنانی بلکہ اسکول کے معصوم بچوں سے لے کر مساجد میں نمازیں ادا کرنے والے بزرگوں کی خون سے لتھڑی لاشوں کو نہ صرف ان ملکوں کی قیادت بلکہ وہاں کے عوام کو بھی دکھانی ہیں۔ ہمیں بتاناہے کہ کس طرح سے بھارت اپنے جاسوس پاکستان بھیج کر ہماری پرامن مارکیٹوں کوہمارے بازاروں کو، ہمارے اداروں کو،ہمارے ہسپتالوں کو جہاں جنگ کے دنوں میں بھی نقصان پہنچانے سے درگزر کیاجاتا ہے کو بموں کا نشانہ بنا کر سیاہ اور جلے ہوئے زمین کے ٹکڑوں میں بدل دیاگیا ہے۔ ہماری عدالتوں ،ہمارے وکلاء کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔جہاں آج بھی کالے دھوئیں سے نہ صرف دیواریںبلکہ بارود کی بو بھی پھیلی ہوئی ہے۔ ہمارے ارد گرد بدنا م زمانہ دہشت گرد تنظیموں کو لا کھڑا کیا گیا ہے جو دنیا بھر میں مختلف ناموں سے کشت وخون کی ہولی کھیل چکی ہیں اب پاکستان کو اپنے نشانے پر رکھے ہوئے ہیں اوراس پر ظلم یہ کہ ہمارا وہ حق جو سپورٹ کولیشن فنڈ کی صورت میں تھا اس کو روک کر ہمیں بند گلی میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر ہمارا یوں سانس بند کرنے کی کوشش کی گئی تو کیا ہم اس جنگ کو جاری رکھ سکیںگے جو ہم نے برسوں لڑی ہے اور کیا ہمارا خون بہت ہی سستا اور ہمارے اثاثے بے مول ہیں؟

twitter:@am_nawazish

تازہ ترین