• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں کافی عرصےسےپاکستانی سیاست میں خواتین کےکردارکودیکھ رہاہوں اورمیں نےاپنی رائےقائم کی ہےکہ ہمارےنظام نےخواتین کی اکثریت کوزندگی کےتمام شعبوں میں اقلیت میں بدل دیاہے۔ پاکستان کےسیاسی نظام کودیکھتےہوئےمجھےپاکستانی سیاست میں خواتین کے لیے بہت کم ہی برابری کے مواقع نظرآتے ہیں۔ پاکستانی سیاست کوکنٹرول کرنےوالی مردوں کی طاقت خواتین کواپنی خواہشات کےبغیرسیاست میں آگے آنے نہیں دیتی خاص طورپردرمیانے درجے کی سیاست میں۔ خواتین کیلئے ہمارے ملک کی سیاست میں بہت کم مواقع ہیں کیونکہ انھیں ان کی تعلیم اور کیریئر(اگرکبھی انھیں کیریئربنانے کاموقع دیا جاتا ہے)میں ہراساں کیےجانےاورعدم تحفظ کاخطرہ ہوتاہے۔ یہ خطرات ان کیلئےحوصلہ شکنی کاباعث بنتےہیں اورنتیجےمیں 80فیصد سےزائدقابل اور تعلیم یافتہ خواتین کی جلدی شادی کردی جاتی ہےیاگھرپربیٹھا لیاجاتاہے۔ وہ اپنی صلاحیتیں دکھانے میں اپنےآپ کوبےبس محسوس کرتی ہیں۔ ہمارےنام نہادرواجوں کےباعث ان کےمقاصدختم ہوجاتےہیں اوریہ رواج نہ صرف ٹیلنٹ کو مار دیتے ہیں بلکہ اعلیٰ مقاصد کوبھی ختم کردیتے ہیں۔ جو ان رواجوں کو توڑنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں یا مختلف وجوہات کی بناءپرگھرسےباہر قدم رکھنے پر مجبور ہوتی ہیں، بدقسمتی سے وہ کام کرنے کی جگہ پر مردوں کے معاشرے کے باعث شکاربن جاتی ہیں جہاں خواتین کو ہراساں کرنا اپنا حق سمجھا جاتا ہے اور خواتین کو ان کی مرضی کے مطابق کام کرنا پڑتا کیونکہ وہاں باس مردہو تا ہے۔ ہمارے ملک میں روزانہ ہزاروں خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہےلیکن ان میں سے چند ہی ان کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات کرپاتی ہیں۔ رواں سال کے آغاز میں ایک سروے میں ورک پلیس پر ہراساں ہونے والی 300 خواتین کو شامل کیاگیاتھا، ان میں سے 35فیصد نے کہا کہ انھیں ان کے باس یا ساتھیوں نے خاموش رہنے کاکہا۔ بہت سی خواتین نے نوکری چھوڑ دی اور صرف 17 فیصد شکایات لےکراپنی تنظیموں کی انٹرنل انکوائری کمیٹی میں گئیں اور59فیصد نے کہاکہ ان کی مینجمنٹ ہراسگی کو سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ اب ہم اپنی تمام کام کرنے والی کواتین پر ںظرڈالتے ہیں۔ پاکستان میں خواتین میں روزگار کی شرح دنیاکی نسبت کم ترین ہے یہ 4.5فیصد ہے۔ تقریباً65فیصد خواتین ڈاکٹرزکوپاکستان میں شادی کے بعدکام کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ 80فیصدبزنس گریجویٹ شادی کے بعد گھر بیٹھ جاتی ہیں اور کم 10فیصد سے بھی کم تعلیم یافتہ اور غیرتعلیم یافتہ خواتین کاروبار کرتی ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی وفاقی حکومت میں صرف 4.6فیصدملازمین خواتین ہیں۔ تاہم پبلک ایڈمنسٹریشن سیکٹرمیں تمام انٹری لیول آفیسرز میں تقریباً 28.5فیصد خواتین ہیں۔ 2017کیلئےسول سوپیر ئیر سروسز کے امتحانات 261امیدوار کوپوسٹنگ کیلئےنامزد کیاگیا،ان میں 17سکیل کیلئے106خواتین تھیں۔ ہمیں اپنے معاشرے میں خواتین کے کام کو براہِ راست اور غیربراہِ راست طورپر دیکھناہوگا۔ اسی طرح ہمیں اپنے سیاسی اداروں میں بھی خواتین کی تعداد کودیکھناہوگا اور غورکرناہوگا کہ کیوں خواتین کو سیاست سے دور رکھا جاتاہےسوائے ان نڈرخواتین کے جنھوں نے سیاست میں اپنی جگہ بنانے کی جرات کی۔ ہمار ے ملک کی سیاست میں خواتین کے پاس صرف 21فیصد پارلیمانی نشستیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کیلئے 5فیصد ٹیکٹس خواتین کیلئےمختص کرنا ضروری ہےلیکن وہ انھیں ایسی سیٹوں کیلئے نامزد کردیتے ہیں جہاں جیتنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ 2018کے عام انتخابت میں 107سیاسی جماعتوں میں سے 94نے الیکشن میں حصہ لیا۔ ان جماعتوں نے 5768 امید وار کھڑے کیے جن میں سے صرف 305خواتین امید وار تھیں، اس کامطلب ہےکہ ضروری قانون کے باوجود 44سیاسی جماعتوں نےکسی ایک خاتون کو بھی امیدو ارنا مزدنہیں کیا۔ قومی اسمبلی میں 272نشستوں میں سے صرف60خواتین کیلئے مختص ہیں اور سینٹ میں 104میں سے 18نشستیں خواتین کیلئے ہیں۔ اسی طرح صوبائی سطح پر پنجاب اسمبلی میں 297میں سے 66نشستیں خواتین کیلئے مخصوص ہیں، سندھ اسمبلی میں 130میں سے 29خواتین کیلئے مخصوص ہیں، بلوچستان اسمبلی میں 51عام نشستوں میں سے 11خواتین کیلئے مخصوص ہیں اور کے پی کے اسمبلی میں 99ریگولر نشستوں میں سے 22خواتین کیلئے مخصوص ہیں۔ خواتین کومضبوط بنانااور برابری کے حقوق یقینی بنانا غالباًیہ ہی سب سے اچھاکام ہے جو کوئی بھی ملک ترقی کرنے کیلئے کرسکتاہے۔ اسے ذرا مزید بڑاکرنے کیلئے، ایک معاشرہ جو زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا وہ ایک ایسے شخص کی مانند ہے جو میراتھن میں دوڑ رہاہولیکن اپنی ایک ٹانگ ہی استعمال کررہاہو۔ خواتین پرآدھامعاشرہ مبنی ہے،اور یہ خود بخود واضح ہونا چاہیئےکہ معاشرہ ترقی کرے گا اور تیز ہوگا اگرسب اکٹھےکام کریں گےبجائےاس کےکہ آدھی آبادی کچن میں ہی رہ جائے۔ تجربہ ، کیس سٹڈی اور سرویز نے ہمیشہ ثابت کیاہے کہ وہ ملک جلد ترقی کرتے ہیں جہاں خواتین تعلیم یافتہ ہوں اور ان کے ساتھ مردوں کی طرح برابری کاسلوک ہو۔ خواتین کی معاشی مضبوطی ہمارے ملک کی معیشت کیلئے اہم ہے اور اس سے پاکستان کا جی ڈی پی 30فیصد تک بڑھ سکتاہے۔ ذیل میں خواتین کی مضبوطی کیلئے کچھ نکات دیے جارہے ہیں۔ 1-ورک پلیس پرانھیں مکمل تحفظ دیاجائےاور کام کرنے کیلئے جگہ کومحفوظ بنایاجائے۔ 2-جینڈراکویلٹی ورک پلیس اور ایسے ایونٹس کاانعقاد ہونا چاہئیےجن میں خواتین حصہ لے سکیں۔ یہ بدقسمتی ہےکہ ہمارےملک کی اکثریت خواتین پرمبنی ہےلیکن اس ’’اکثریت‘‘ کواقلیت بنادیاگیاہے۔ 3- حکومت کو خواتین کی ہراسگی کے مسائل سے نمٹنا چاہیئےاور انھیں وقت پر حل کرناچاہیئئےتاکہ وہ آرام سے کام کرسکیں۔ 4- کار وبار کرنےوالی خواتین کے ساتھ پارٹنرشپ کرکےانھیں فروغ دیناچاہیئے۔-5ان کی تعلیم کی اہمیت، ان کی صحت کےمسائل حل کرکے، ان کیلئےنوکری کےمواقع پیدا کرنےاوران کےحقوق کاتحفظ کرکےپاکستان کی کمزور ہوتی معیشت کوبدلا جاسکتاہے۔ 5-نئی حکومت کو ورک پلیس پرخواتین کےتحفظ اور حقوق سے متعلق قوانین بنانے چاہیئےتاکہ وہ بغیرکسی دبائو کے کام کرسکیں۔ ہماری ویمن فورس کی خدمات قومی ترقی کیلئےصحیح طرح سےحاصل نہیں کی جارہیں اور مردوں کے معاشرے نےخواتین کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیاہے۔ ہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین