• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے دورہ اسلام آباد سے اگرچہ پاک امریکی تعلقات میں تعطل کا خاتمہ ہوگیا ہے مگر جیسا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی صحافیوں سے گفتگو سے ظاہر ہے، اس دورے میں ہونیوالی ملاقاتوں سے غیرمعمولی توقعات وابستہ کرنا شاید پوری طرح درست نہ ہو۔ انسانوں کے باہمی تعلقات ہوں یا ملکوں کے دوطرفہ معاملات۔ ان میں سرد مہری سمیت کئی قسم کے وقفے اور مرحلے آتے رہتے ہیں۔ منطقی اعتبار سے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر تعطل توڑنا مقصود نہ ہوتا تو امریکی وزیر خارجہ ایسے وفد کے ہمراہ اسلام آباد نہ آتے جس میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل ڈنفورڈ اور افغانستان میں امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد جیسی شخصیات شامل ہیں۔ امریکی سفارت کاری پر نظر رکھنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے محل وقوع کی اہمیت کے علاوہ چین کے ون روڈ ون بیلٹ منصوبے سمیت مختلف حوالوں سے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور افغانستان میں قیام امن کے لئے روس کے متحرک ہونے کا بھی دخل ہے۔ اگرچہ امریکی وزیر خارجہ نے بھارت روانگی سے قبل نور خاں ائیربیس پر صحافیوں سے گفتگو میں یہ بھی کہا کہ دو طرفہ تعلقات کو اقتصادی اور تجارتی شعبوں سمیت تمام جہتوں پر استوار کرنے کے بارے میں بات چیت کی گئی مگر خلاصہ گفتگو مائیک پومپیو کا یہ بیان ہے کہ ’’فریقین نے امریکہ پاکستان تعلقات کو ازسرنو ترتیب دینے پر اتفاق کیا‘‘۔ یہ بریک تھرو پاکستان کا دورہ کرنے والے مہمانوں کی پرائم منسٹر سیکرٹریٹ اور دفتر خارجہ میں وزیر اعظم عمران خان ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار سے دو طویل ملاقاتوں کے بعد سامنے آیا۔ شاہ محمود قریشی کی پریس بریفنگ سے بھی ظاہر ہے کہ کئی برسوں کی سفارتی سرد مہری کا خاتمہ کرتے ہوئے دونوں ممالک نے تعلقات کی ازسرنو تجدید پر اتفاق کیا۔ خطے میں رونما ہونے والے واقعات اور افغانستان کی صورت حال کے تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دونوں ممالک کے نئے رابطوں کا خاص موضوع افغانستان رہا۔ پاکستان کا موقف ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں، یہ معاملہ سیاسی تصفیے سے ہی حل ہوگا جبکہ امریکہ یہ بات تسلیم کرتا نظر آرہا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔ واشنگٹن نے افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات کا عندیہ دیا ہے جس میں مبصرین کے خیال میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے کیونکہ امریکہ پہلے بھی قطر میں طالبان سے رابطے قائم کرتا رہا ہے مگر بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ واشنگٹن ماسکو کو افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کا کریڈٹ نہیں دینا چاہتا جبکہ پاکستان سے بار بار کئے گئے ’’ڈومور‘‘ کے مطالبے کا مقصد طویل عرصے تک افغانستان میں فوجی موجودگی کے باوجود اپنی ناکامی کا ذمہ دار اسلام آباد کو قرار دینا رہا ہے۔ یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جانی چاہئے کہ افغان طالبان امریکہ سے براہ راست مذاکرات سے تو انکاری نہیں مگر ان کا پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان سے کب واپس جائے گا۔ اگرچہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کیا نہ ہم ہر ڈیمانڈ پوری کرسکتے ہیں تاہم امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری کئے گئے بیان کے بموجب سیکرٹری آف اسٹیٹ پومپیو نے آگاہ کیا کہ خطے کے امن و استحکام کے لئے خطرہ بننے والے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف پاکستان کی طرف سے مستقل اور فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ بدھ کے روز اسلام آباد میں ہونے والی ملاقاتوں سے باہمی رابطوں کا جو نیا سلسلہ شروع ہوا،اسے آگے بڑھاتے ہوئے ایسا راستہ نکالنا ہوگا جس میں دونوں ملکوں کو درپیش مسائل کے باوجود آگے بڑھنے کی صورت ممکن ہو۔ واشنگٹن کی طرف سے پاکستان میں نئی سویلین حکومت کی آمد کا خیرمقدم کیا گیا ہے تو اسے پاکستانی جمہوریت کا احترام کرتے ہوئے باوقار اشتراک و تعاون کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔

تازہ ترین