تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی ملک کے تیرہویں صدر منتخب ہو گئے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور اعتزاز احسن کو انتخابی شکست ہوئی۔ پارلیمنٹ میں 432میں سے 424ووٹ کاسٹ ہوئے۔ جن میں سے 353کی واضح اکثریت ڈاکٹر عارف علوی صاحب نے حاصل کی۔
ملک کے تیرہویں منتخب صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے انتخاب کے فوراً بعد اپنے خطاب میں کہا ’’صرف پی ٹی آئی کا نہیں پورے ملک کا صدر ہوں، آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے قوم کی خدمت کروں گا۔ اللہ میری مدد کرے۔ بے جا پروٹوکول کم کروں گا‘‘۔ خدا کرے ایسا ہی ہو اور صدر کا عہدہ بے جا اخراجات کا سبب نہ بنایا جائے اور اٹھارویں ترمیم کے بعد صدر کے پاس جو اختیارات رہ گئے ہیں انہیں آئین کے ہی دائرے میں استعمال کیا جائے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ ایک ہی وقت میں دلچسپ بھی ہے اور افسوس ناک بھی، مثلاً یہاں پہ صدر غلام اسحاق خان مرحوم اور صدر فاروق لغاری مرحوم جیسی شخصیات منتخب حکومتوں کو برطرف کر کے گھر بھیجتی رہی ہیں اور ایسے صدر بھی رہے جو ملک و قوم کو صحیح جمہوری منزل پر پہنچانے کے لئے اپنے موجود آئینی اختیارات سے دستبردار ہو گئے اور انہیں پارلیمنٹ کے حوالے کر دیا جیسا کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی مثال دی جا سکتی ہے۔ آیئے ان کی شخصیت اور پیپلز پارٹی پر ذرا تفصیل سے بات کرتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سرکردہ شخصیت اور سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے رفیق حیات، زندگی کے پہلے ہارٹ اٹیک سے زندگی پانے کے بعد دبئی میں صحت یابی کی جانب گامزن تھے۔ ہارٹ اٹیک ان دنوں جس کے نتیجے میں معالجوں نے انہیں بارہ ہفتے مکمل آرام کا مشورہ دیا تھا۔ اسی آصف علی زرداری کے بارے میں، میں نے پاکستانی سیاست، میڈیا اور ان کی ذاتی شخصیت کے حوالے سے حسب روایت بات کرنی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ سے وہی ہے، جس کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور بیگم نصرت بھٹو کے پاس رہی۔ جسے بھٹو صاحب کی وفات اور بیگم صاحبہ کی علالت کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے سنبھالا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے اس تاریخی تسلسل کے تناظر میں کوثر نیازی مرحوم، غلام مصطفیٰ کھر، محمد حنیف رامے، غلام مصطفیٰ جتوئی، ڈاکٹر غلام حسین، عبدالحفیظ پیرزادہ، ممتاز علی بھٹو وغیرہ اپنے اپنے وقت اور اپنے اپنے انداز میں جو بھی کہتے رہے یا کچھ لوگ آج بھی کہہ رہے ہیں وہ عوام کی عدالت میں مسترد ہو چکا۔ ثبوت کے طور پر پاکستانی عوام نے جب بھی موقع ملا، بیلٹ بکس میں مندرج اپنی رائے کے ذریعے اپنے اس اجتماعی فیصلے اور متفقہ دانش کا اظہار کیا۔ باضابطہ جماعتوں کے بارے میں اسی واقعہ کی شہادت ملتی ہے۔ جماعت اسلامی وہی ہے، جس کی قیادت سید ابوالاعلیٰ مودودی نے سنبھالی، جسے ان کے بعد میاں طفیل محمد نے اور ان کے بعد دوسرے منتخب حضرات نے جاری رکھا ہوا ہے۔ اب اس معاملے میں جماعت کے حد درجہ واجب الاحترام بزرگ، صاحب کردار و تقویٰ، مولانا امین احسن اصلاحی، نعیم صدیقی (باری تعالیٰ ان کے لئے اپنا درِ رحمت ہمیشہ وا رکھے) یا ڈاکٹر اسراراحمد سمیت جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے والے اصحاب جو بھی کہیں، جماعت سے متاثر یا اس کے حامی عوام کی اکثریت نے ان کے قول سے ہمیشہ اعراض اور جدائی کا راستہ اپنایا۔ اسی اصول کا اطلاق پاکستان مسلم لیگ پر ہو گا کہ قومی سطح پر مسلم لیگ کی قومی شناخت کا عوامی تصدیق نامہ میاں محمد نواز شریف کے پاس ہے، جن کی اجازت سے میاں شہباز شریف ان کے تصدیق نامے کے تحت پاکستان مسلم لیگ کے قیادتی فرائض ادا کر رہے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قومی جماعتوں کے سلسلے میں مقبول عام پیغام ہی طے شدہ جماعتی سچ ہوتا ہے، لہٰذا پیپلز پارٹی کے بارے میں متذکرہ حضرات یا کل کے رائو سکندر اقبال، فیصل صالح حیات، آفتاب شیر پائو یا سردار فاروق لغاری، جس بھی اعلان کا سہارا لیتے رہے پاکستانی عوام کے نزدیک وہ پاکستان پیپلز پارٹی سے باہر، ایک سوالیہ نشان ہی رہے۔ صدارتی انتخاب میں اعتزاز صاحب کی شکست کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی کا سیاسی وجود فیصلہ کن حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے اور لگتا یوں ہے کہ مستقبل میں آصف زرداری کا وژن اور بلاول کی جواں عمر قیادت پیپلز پارٹی کو 70کے عشرے میں واپس لے جا سکتی ہے اور صدارتی انتخاب میں حصہ اسی پروگرام کے تحت تھا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)