• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شمیم الدین غوری

ماحولیاتی آلودگی ایک عالمی مسئلہ ہے۔پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی اور ابتری میں جنگلات کی کٹائی یا کمی،آبی آلودگی، فضائی آلودگی،شور،موسموں کی خطرے کی حد تک تبدیلی،زمین کا کٹاؤ، کیڑے مار ادویات کا بے دریغ استعمال اور آبی حیات کی تباہی شامل ہے۔صنعتی دور کی ابتدا تک جب صاف ہوا، صاف پانی ، شہروں اوردیہات میں صاف ماحول تھا ،جنگلات مناسب حد تک موجود تھے آلودگی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ جنگلات کی کٹائی ہوئی ،کارخانے لگے،چمنیاں دھواں اُگلنے لگیں،گاڑیوں کی تعداد بڑھی،کاربن کا اخراج سائلنسروں سے بڑھا تو مسائل میں اضافہ ہو نا شروع ہو گیا۔کسی بھی شہر یا ملک میں اس کے پچیس فی صدرقبے پر جنگلات ہونے چاہئیں۔یہاں جنگل کے جنگل کٹائی کر کے صاف کیے جا رہے ہیں۔پاکستان میں تین تا چار فی صد علاقے میں جنگلات ہیں۔ وہ بھی زیادہ ترشمالی علاقہ جات میں ہیں۔ ایشیاء میں جنگلات بیس فی صد زمین پر ہیں جب کہ دنیا بھرمیں انتیس فی صدہیں۔ پاکستان فاریسٹ انسٹیٹیوٹ کے مطابق 90 کی دہائی میں ملک میں 35 لاکھ 90 ہزار ہیکٹر پر جنگلات واقع تھے جو دو ہزار کی دہائی میں کم ہو کر 33 لاکھ 20 ہزار ہیکٹر تک رہ گئے ۔ کسی بھی ملک کے جنگلات دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ ماحول کو صاف رکھتے ہیں ،فضاءمیں آکسیجن کثیر مقدار میں خارج کرتے ہیں اور زمین کا کٹائو روکتے ہیں لیکن پاکستان میں ان کی کٹائی قانونی اور غیر قانونی طور پر کی جاری ہے۔ جنگلات میں مقیم باشندوں اور محکمۂ جنگلات کے درمیان معاہدے موجود ہیں لیکن جب تک یہاں کے لوگوں کو کوئی مناسب روزگار نہیں ملے گا یہ سلسلہ اسی طر ح جاری رہے گا۔

پاکستان میں فضائی آلودگی ایک بڑا پریشان کن مسئلہ ہے،اس سے نزلہ، زکام ،کھانسی ،گلے ، پھیپھڑوں اورآنکھوں کی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔کارخانوں اور گاڑیوں کا دھواں فضا کو آلودہ کر رہا ہے۔ ٹو سٹروک انجن کے رکشےاور گاڑیاں پابندی کے باوجود سڑکوں پر آئل کا دھواں چھوڑ رہے ہیں۔اکثر ممالک نے گاڑیوں کے مضر ماحول دھویں سے بچنے کے لئے بائیو ایندھن کا استعمال شروع کردیا ہے۔ہمارے ہاں بھی ایساکرنے کی اشد ضرورت ہے،کیوں کہ بائیو ایندھن کا دھواں ماحول دوست ہوتا ہے۔اگرچہ یہ پاکستان میں بھی ہے،اس کے باوجود صنعتی دھواں بھر پورفضا کو آلودہ کر رہا ہے۔ کارخانوں میں دھوئیں کو کنٹرول کرنے کے بھی قوانین ہیں کہ کون سا ایندھن استعمال کرنا چاہیے اور کون سا نہیں۔اورکس ایندھن کو جلانے کےلئے چمنی میں کس قسم کا چولہا استعمال ہونا چاہیے ۔ علاوہ ازیں سیمنٹ کمپنیاں فضائی آلودگی پھیلانے میں میں سب سے آگے ہیں۔ شہروں میں کوڑا اُٹھانے کی بجائے اس کو جلانا ایک عام مشاہدہ ہے۔ہر گلی کے نکڑپر اور کوڑے دانوں میں کوڑے کو جلا دیاجاتا ہے، جس میں پلاسٹک اور ربڑ بھی شامل ہوتے ہیں،اس سے شہرکی فضا میں زہریلا مواد شامل ہو تا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کی فضاء میں نائٹروجن کی مقدار 399 مائیکروگرام فی مکعب فیٹ ہے،جو بہت زیادہ ہے ۔معلق ذرات کی مقداربھی تین گنا زیادہ ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں کی مقدا رفضا میں 0081 مائیکروگرام فی اسکوائر میٹر کی خطرناک حد تک بڑھی ہوتی ہے۔ کراچی انوائرنمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق پاکستان کے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے معیار سے چار گنا زیادہ ہے۔ اس سے پاکستان میں ہر سال تقریباََ 22ہزار قیمتی جانیں جان سے جاتی ہیں۔اگر فضاء میں اسی طرح کاربن کی شرح میں اضافہ ہوتا رہا تو مستقبل میںبارشوں کی کمی کا سانا کرنا پڑے گا۔پودوں اور درختوں کی نشو ونما پر بھی اثرات رونما ہورہےہیں۔

شہروں کا کوڑا کرکٹ توبھی آلودگی پھیلانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ہر گلی میدان عمارت ،خاص طور پر سرکاری عمارتوں کی دیواروں کے نیچے جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر، بدبو دار گیسیں،جراثیم اور حشرات الارض پیدا کرنے کا سبب ہیں۔دنیا بھر میں کوڑاکرکٹ کو اکٹھا کرنے کی سائنسی تیکنیک استعمال کی جاتی ہیں۔ری سائیکل والے کوڑے دان الگ ہوتے ہیں اور آرگینک یا حیاتیاتی کچرہ دان الگ ۔ان کو وقت پر خالی کر کے کوڑے کو استعمال میں لایا جاتاہے۔حیاتیاتی کچرے سے کھاد تیار کی جاتی ہے اور ری سائیکل والا کچرا فیکٹریوں میں خام مال کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔جلانے والے کوڑے سے توانائی حاصل کی جاتی ہے۔ چین میں چھوٹے چھوٹے کچرہ دان فٹ پاتھوں پر لگے ہوتےہیں، جن کی مستقل صفائی ہوتی رہتی ہے۔ کچرا گاڑی ہر گھنٹے کے بعد آتی ہے اور انہیں خالی کرد یتی ہے۔اس سےنہ بدبو ، نہ گندگی اور نہ ہی سڑاند ہوتی ہے ۔

لیکن پاکستان میںایساکوئی نظام نہیں ہے،یہاں تو جب تک کچرا پورے علاقے کو سڑا نہ دے تب تک گاڑی اسے اُٹھا نے نہیں آتی ۔آخر میں لو گ تنگ آکر اسے آگ لگا دیتے ہیں ،جس سے اور زیادہ آلودگی پھیلتی ہے ۔اس کچرے میں پلاسٹک کے وہ شاپنگ بیگز بھی شامل ہوتے ہیں جن سے انتہائی خطر ناک قسم کا دھواں خارج ہو تا ہے ۔

ماحولیاتی آلودگی خاص طور پر کاربن سے بھر پور گاڑیوں کا دھواں دماغی اور جسمانی کارکردگی میں تیس سے پچاس فی صد تک کمی کا باعث ہوتا ہے،جس سے ذہنی دباؤ اور دیگر بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ شہروں کا کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے لئے سائنسیاقدامات کرنےکی شدید ضرورت ہے۔

آبی آلودگی پاکستان میں زمینوں سمندروں،فصلوں ،انسانوں اور حیوانات خاص طور پر آبی حیات کو موت کی جانب لےجا رہی ہے۔ہزاروں ٹن کچرا سیورج کی صورت میں سمندر میں جا رہا ہے۔دریاؤں،جھیلوں اور دیگر آبی ذخائر میں سیورج کا پانی ڈالا ،جب کہ صنعتی پانی کا اخراج پینے کے ذخائر میں کیا جا رہا ہے۔منچھر جھیل میں صنعتی فضلے کاپانی اس قدر زیادہ مقدار میں چھوڑا جا رہا ہے کہ جھیل ہی تباہ ہو گئی ہے اور حیدرآباد کے شہریوں کو آلودہ پانی سپلائی ہو رہا ہے۔ پاکستان میں صرف 12 فی صدلوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی میسر ہے۔ بیشتر دیہات میں نہروں،گڑھوں،تالابوں اور کھارے کنوؤں کا پانی میسر ہے، کہیں کہیں تو پیدل یا مویشیوں کےپیٹھ پر یہ آلودہ پانی دس، دس کلومیٹردور سے لایا جاتا ہے ۔ایک ہی جگہ سے انسان اور جانور پانی پی رہے ہوتے ہیں۔شہری لوگ اس پانی سے پیر دھونا بھی پسند نہیں کریں گے۔ اس آلودہ پانی سے ہیپا ٹائیٹس،،گیسٹرو اور دیگر بیماریاں ہو رہی ہیں ۔

پاکستان کے اکثر و بیشتر شہروں میں پینے کے پانی کی پائپ لائن سیورج کے نالوں سے گزرتی ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے سیورج کا پانی ان میں شامل ہوجاتا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ وہ پانی جو آج کل بہت عام ہے ،جسے منرل واٹر کا نام دیا جاتا ہے، وہ بھی جراثیم سے پاک نہیں ہوتا۔ گھر گھر میں نلکے کا پانی پلاسٹک کی بوتلوں میں پیک کر کے منرل واٹر کے نام پربیماریاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ جب بھی بازار سے سیمپل اٹھائے جاتے ہیں تو ان سے زیادہ تر ناقص اور جراثیم زدہ ہوتےہیں۔ آبی آلودگی کی تباہ کاریوں سےپچھلی دو دہائیوں میں اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔بحری جہازوں اور آبدوزوں کی عمر جو تیس سال ہوتی ہے ، وہ آلودہ پانی کی وجہ سے کم ہو کر 20 سال رہ گئی ہے۔صنعتوں سے نکلنے والے پانی میں ایسے اجزاء ہوتےہیں جو سمندر میں جاکر لوہے کو زنگ لگا کراُسے کاٹ کر برباد کر دیتے ہیں،بغیر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے صنعتوں سے نکلنے والا اور سیورج کا پانی لیاری اور ملیر ندی کے ذریعے سیدھا سمندر میں جا رہا ہے۔کلفٹن اور ڈی ایچ اے کا پانی بھی ساحل کلفٹن میں کسی پلانٹ سے گزرے بغیر سمندر میں ڈالا جا رہاہے۔اس سے ہمارا یہ واحد سمندری ساحل انسانی فضلے سے لبریز بدبو دار اور بیماریوں کا گڑھ بن گیا ہے۔ ایسے نامعلوم کیڑوں نے یہاں کی ریت میں بسیرا کر لیا ہےجو پیروں میں کاٹ کر زخم ، خارش اور جلدی بیماریاں پیدا کر رہے ہیں۔ہمارے ساحل جو تیمر کے جنگلات سے بھرے تھے جن میں مچھلی اور جھینگوں کی نرسریاں تھیں، ان میں اب سیورج کا پانی اور حد نظر تک پلاسٹک کی تھیلیاں نظر آتی ہیں ۔ اسی لیاری اور ملیر ندی میں مچھلی اور جھینگوں کا شکارتک ہوتا تھا،اب یہ سیورج کے نالے بن گئےہیں۔

فطرت سے دوری کی بناء پر ہم نے قدرتی کھاد کی جگہ مصنوعی کھاد کا استعمال شروع کر دیا، جس سے زمینیں آلودہ ہو گئیں،اب ان میں قدرتی زرخیزی کے بجائے مصنوعی زرخیزی سے فصلیں پیدا کی جاتی ہیں۔فصلوں پر اندھا دھندکیڑے مار ادویات کےا سپرے کرنے سے ان میں پائے جانے والے کیچوے اور دیگر فائدے مند زرخیزی پیدا کرنے والے حشرات الارض بھی ختم ہو گئے۔پولن کو منتقل کرنے والے بھنورے اور جگنو اب دیکھنے کو نہیں ملتے۔ شہد کی مکھیاں معدوم ہوتی جارہی ہیں ،جس سے فصلوں کی صحت مند پولینیشن ہونا کم ہو گئی ہے۔ اندھا دھند شکار نے تیتر، جن کی موجودگی میں کسی کیڑے مار دوا کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، ختم ہو گئے۔فصلوں کی باقیات جلانے سے رہے سہے کیچوے بھی ختم ہو تے جارہے ہیں۔ جنگلات ختم ہونے سے ہوا اور پانی کے ذریعے زمین کا کٹاؤ شروع ہو گیا۔ زمین کی اوپری سطح جو صدیوں سے زرخیزی اور نامیاتی اجزا کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھی اب وہ کٹاؤ کی وجہ سے بنجر ہو رہی ہے۔ سمندر میں پانی کی مقدار کم ہوجانے سے لاکھوں ایکرڑزمین سمندر برد ہو گئی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی مسائل پاکستان کو 1365 ارب روپے سالانہ کا نقصان پہنچا رہے ہیں جو پاکستان کے تعلیمی بجٹ سے زیادہ ہے۔ قیام پاکستان کے پچاس سال بعد ماحولیاتی آلودگی کا احساس ہوا اور اس کے لئے پاکستان اینوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997 ء میں پاس ہوا۔لیکن ہواکیاماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ دھوئیں سے آلودہ فضاء کے باعث پچھلے چند برسوں میں ناک، حلق، گلے، اور سینے کے امراض میں 60 فی صد تک اضافے سے فضاء میں آکسیجن کی کمی ہوئی ہے۔ درختوں کی آکسیجن خارج کرنے کی استعداد میں کمی ہوئی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے پاکستان کا موسم تبدیل ہورہا ہے۔منفی موسمی تبدیلیوں سے خشک سالی،سیلاب،انسانی زندگیوں کا ضیاع، زمین کی تباہی اورزرعی سرگرمیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔پاکستان اگرچہ نقصان دہ گرین گیسوں کو تو فضا میں شامل نہیں کر رہا ،اس لیے کہ انڈسٹری اس قابل ہی نہیں ہے۔لیکن عالمی اثرات اور اوزون کی سطح کے نقصانات کی وجہ سے قدرتی تباہ کار یوںکا شکار ہو رہا ہے۔ اب خشک سالی یا بے وقت کی بارشیں زراعت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہم ماحولیاتی آلودگی کو کم کریں ،جنگلات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کے رقبے میں اضافہ کریں ۔سمندر میں بغیر ٹریٹمنٹ کے سیوریج کا پانی نہ چھوڑیں، کیمیائی کھاد اور کیڑے مار ادویہ کا استعمال کم سے کم کریں۔گاڑیوں میں ایندھن کی تبدیلی کی جانب توجہ دیں۔

تازہ ترین