• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم نجیب رزاق کوکرپشن میں ملوث ہونے کی وجہ سے ووٹ کے ذریعے ہٹا دیا گیا ،فی الحال عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کر رہا ہے اس نے بین الاقوامی معاہدات میں کمیشن بھی کھائے اور ملک کو نقصان بھی پہنچایا۔ اسی لئے جمہوری طریقے سے مہاتیر محمد کو 92سال کی عمر میں عوام نے منتخب کیا، تاکہ وہ کرپشن میں ملوث وزیر اعظم کو عدالت کے سامنے پیش کریں۔ مہاتیر محمد جدید ملائیشیا کے بانی ہیں۔ وہ ملائیشیا ،کو ترقی کی اعلیٰ نہج پرپہنچا کر سیاست سے دست بردار ہو گئے تھے۔ انہوں نے چین سے ہونے والے 20ارب کے معاہدات پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ، انفرا اسٹرکچر کے تمام بڑے پروجیکٹس کے معاہدے جو چین سے طے پائے ہیں وہ بہت مہنگے ہیں، جس سے ملائیشیا کا معاشی انہدام ہو سکتا ہے،کیونکہ سابق وزیر اعظم نہ صرف کرپشن میں ملوث ہیں بلکہ انہوں نے ملائیشیا ،کو قرضوں میں ڈبو دیا ہے۔چنانچہ مہاتیر محمد نے منتخب ہونے کے بعد پہلی فرصت میں چینی صدر شی ضیائو پنگ کو ملائیشیا آنے کی دعوت دی،تاکہ وہ ون بیلٹ ون روڈ کے معاہدوں کو ’’ری وزٹ‘‘ کریں اور دیکھیں کہ، یہ معاہدات ملائیشیا کے لئے کس قدر نقصان دہ ہیں جو آنکھیں بند کر کے سابق حکومت نے دستخط کر دیئے تھے۔ ایسے منصوبے جن کے بارے میں ،یہ کہا جا رہا تھا کہ ان کی تکمیل کے بعد ملائیشیا کا مستقبل مزید درخشاں ہو گا۔ ملائیشیا کے دورے کے دوران ایک عشایئے میں چینی صدر نے کہا ان معاہدات سے مشترکہ سیاسی بھروسے میں اضافہ ہو گا تاہم مہاتیر محمد نے کہا ’’مجھے یقین ہے کہ چین خود بھی ملائیشیا کو دیوالیہ ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ یہ بھی یقین ہے کہ چین معاہدات کی لاگت اور معاوضے دونوں کا موازنہ کرے گا اور ان کی منسوخی کی درخواست پر ہمارا ساتھ دے گا ‘‘ بعد ازاں معاہدات پر غور و فکر کیا گیا اور چین نے تسلیم کیا کہ یہ معاہدات ملائیشیا کے لئے فائدہ مند نہیں ہیں ، یوں یہ معاہدے منسوخ ہو گئے۔

پاکستان کی سابقہ دونوں حکومتوں نے چین پاکستان معاشی راہداری کے منصوبے پر دستخط کئے ،جن پر پاکستان کے ماہرین کے خدشات ہیں جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ تجزیئے میں ان خدشات پر بھی بات ہو گی۔ان پروجیکٹس میں ایک ملائیشیا کے مشرقی ساحل پر ریل لنک کہلاتا تھا جو جنوبی چین کے سمندر سے ملائیشیا کے مغربی سمندر کے کناروں تک تھا، جو بظاہر ٹریڈ لنک کے حوالے سے بہت اہم تھا۔ دوسرا پروجیکٹ نیچرل گیس پائپ لائن کا تھا جو ملائیشیا جزیرے بورنیو میں لگانا تھا ۔مہاتیر محمد نے منصوبے کی تفصیلات پر روشنی ڈالی جس میں معاوضہ پر بات ہوئی ،باالفاظ دیگر اس سے ملائیشیا کو کتنا فائدہ ہو گا اس کی تخمینہ کاری بھی پیش کی، جسے بڑی دل جمعی اور غور فکر کے ساتھ ورک آئوٹ ‘‘ کیا گیا۔ معاہدوں کی شفافیت پر تجزیہ کرنے کے بعد چینی ترجمان نے ایک پریس کانفرنس کی، جس میںکہا کہ ’’ صدر شی اس دورے میں ہونے والی گفتگو سے بہت مطمئن ہیں ،کیونکہ چین ہمیشہ تجارت اور معیشت میں سرمایہ کاری اور دو طرفہ تعلقات میں اس اصول پر کار بند رہتا ہےکہ ملکوں کے درمیان معاہدوں کے نتیجے میں باہمی فائدہ ہو۔یقیناً مختلف ملکوں کے درمیان تعاون میں کچھ نہ کچھ مسائل ضرور ہوتے ہیں، جن پر گفت و شنید ہونا بہت ضروری ہوتے ہیں اور یہ زیرک اور ذاتی مفادات سے ہٹ کر ملک سے محبت کرنے والے حکمران ہی کرسکتے ہیں۔ مختلف اوقات میں ان میں مختلف نفطہ نظر اجاگر بھی ہوتے ہیں، جن میں خدشات بھی پائے جاتے ہیں، جن کو دور کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ صرف دستخط کر کے ملک کو کسی کے حوالے کر دینا احمقانہ رویہ ہوتا ہے۔ چین اور ملائیشیا کے حکمرانوں نے ایسا ہی کیا اور یہ اضافہ بھی کیا کہ دونوں ممالک مل کرکام کر تے رہیں گے۔ ‘‘

ہائیڈ برگ یونیورسٹی میں چین پر مطالعہ کرنے والی مارینہ رڈیاک نے کہا کہ ’’مہاتیر محمد کے فیصلے نے وٹ بیلٹ ون روڈ پر ایک گہرا سوالیہ نشان ثابت کر دیا ہے،کیونکہ چین نئی دنیا میں ضروری حصہ ڈالنا چاہتا ہے ۔وہ ایک ذمہ دار گلوبل کھلاڑی کی حیثیت سے عالمی سطح پر خوشحالی کا خواہاں ہے۔ مذکورہ معاہدوں میں جنہیں پوشیدہ رکھا گیا یا چھپایا گیا ہے، اس نے چین کی ڈپلومیسی کو نا،کامی سے دوچار کر دیا ہے ‘‘جیسا کہ سب کو علم ہے کہ، چین اس خطے میں مغرب کے مقابلے میں زیادہ بہتر کام کرنا چاہتا ہے اور ساتھ ساتھ چینی کمپنیوں کو عالمی سطح پر متعارف بھی کرانا چاہتا ہے۔

بعض ممالک چین کے پروجیکٹس کے معیاری ہونے پر بھی خدشات کا اظہار کرتے ہیں اس کا ذکر بھی مذکورہ چین کے ’’فارن ایڈ‘‘ پر کام کرنے والی خاتون نے کیا ہے، لکھنے والوں پر تحفظات کا شک کیا جا سکتا ہےکہ بڑے لکھنے والوں کو بین الاقوامی سطح پر طاقت ور ممالک عالمی مقابلے کی دوڑ میں کسی ملک کو گرانے کے لئے رقم بھی فراہم کرتے ہیں کہ وہ ابہام پیدا کریں،اس کی مثال یہ بھی دی جا سکتی ہے کہ عالمی بینک نے کہا کہ ’’ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبوں کے بہت فائدے بھی ہیں اور یہ خطرناک بھی ہیں ‘‘ ظاہر ہےایسے الفاظ لکھنےسےجن بڑے ملکوں کو نقصان ہو رہا ہے وہ سبو تاژ بھی کریں گے ،جن کی نمائندگی عالمی بنک کر رہا ہے، اسی لئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو عالمی تجارتی تنظیم کے موجد ہیں، (امریکا) اور اب دھمکی دے رہا ہے کہ وہ عالمی تجارتی تنظیم سے نجات چاہتا ہے ،حالانکہ اس تنظیم نے لاتعداد ترقی پذیر ملکوں کو نقصان پہنچایا ،اب چین کی وجہ سے امریکا کو نقصان پہنچ رہا ہے، جس کے نتیجے میں اس نے سرد تجارتی جنگ چین سے چھیڑ دی ہے۔ عالمی بنک نے کچھ عرصہ قبل ایک بلاگ بھی پوسٹ کیا تھا، جس میں تحریر کیا گیا ‘‘BRIکے تحت جو انفرا اسٹرکچر تعمیر کیا جا رہا ہے یہ ان ملکوں کے لئے بہت فائدہ مند ہے جو ممالک عالمی معیشت کے ہم قدم چلنے میں دشواری محسوس کر رہے ہیں۔ ‘‘

لیکن ایک اور تجزیہ نگار نے قابل غور تجزیہ کیا ہے، جس پر پاکستان کی حکومت کو بھی غور کرنا چاہئے۔ مائیکل روٹا اپنے ایک تجزیے میں لکھتے ہیں ’’BRIکے تحت جن پروجیکٹس کے لئے مالیاتی (فانسنگ ) ضرورت ہے وہ قرضوں میں اضافہ کر رہے ہیں، جن کو ترقی پذیر ممالک واپس کرنے میں دشواری محسوس کر رہے ہیں‘‘ اس کی مثال پاکستان کی ہی دے سکتے ہیں،ون بیلٹ ون روڈ یا پاک چین معاشی راہداری کے لئے اب تک 51ارب ڈالر کا قرض پاکستان کے نام پر چین نے کھاتے میں لکھ دیا ہے۔ پاکستان کے خزانے میں ایک ڈالر بھی نہیں آیا۔ امریکی سامراج ہو یا آئی ایم ایف، وہ جو قرض دیتے ہیں وہ اپنے کھاتوں میں لکھ دیتے ہیں، اب جو خرچ بھی پاکستان کرے گا ،یہ کھاتے میں کریڈٹ ہوتے رہیں گے، پھر سامراجی ممالک کہتے ہیں، ان قرضوں کے عوض جو کچھ خریدنا ہے وہ ہم سے ہی خریدو ، چین نے بھی ایسا ہی کیا ۔51ارب ڈالر کا قرض پاکستان کے کھاتے میں لکھ دیا گیا اور چین سے ہر چیز آ رہی ہے اور وہ اخراجات میں لکھا جا رہا ہے۔ گلگت سے گوادر تک شاہراہ بنائی جس میںمزدو بھی چین کے تمام خام مال بھی چین کا، سرزمین ہماری ہے اور 51ارب ڈالر میں چین مزدورں سمیت جو کچھ لگا رہا ہے وہ اپنے ملک ہی سے خرید رہا ہے ،حالانکہ پاکستان کا سریا اور سیمنٹ بہت بہتر ہے اور اگر لاہور میں چھجا بنا کر اس پر 15کلومیٹر کی اورنج لائن نہ بنائی جاتی اور وہ 250ارب روپے اسٹیل مل پر لگائے جاتے اور چین سے کہا جاتا کہ سریا، سیمنٹ اور فولاد کی دیگر اشیاء پاکستان سے خریدے تو پاکستان اچھا خاصا زرمبادلہ حاصل کر رہا ہوتا اور قرضے نہ لینے پڑتے۔ یہ صرف ایک مثال ہے چین پاکستان میں نو اکنامک زون بنا رہا ہے۔ چین کے قیدی مزدور وہاں کام کر رہے ہیں ،پاکستان کے انسانی وسائل کو نہ تو ’’اسکل فل ‘‘ بنایا جا رہا ہے اور نہ ہی یہ معاہدوں کو اوپن کر کے بتایا جا رہا ہے کہ، کیا چین ٹیکنالوجی بھی منتقل کر رہا ہے اگر کر رہا ہے تو کتنے عرصے بعد ایسا کرے گا۔ گودار کی ساری ہینڈلنگ چین ہی کر رہا ہے، پاکستان کا اس میں حصہ صرف9فیصد ہے۔ ایک ایسا وقت بھیآیا تھاکہ جب جاپان، پاکستان کو جاپان جیسی زیر زمین ریل روڈ کی پٹری بچھا کر دے رہا تھا اور 20سال کے بعد تمام ٹیکنالوجی بھی پاکستان کے حوالے کر رہا تھا، غالبًا اس میں کھانچے نہیں تھےیوں،یہ پروگرام آگے نہیں بڑھ سکا۔ اسی لئے مائیکل روٹا لکھتا ہے کہ ’’جن ملکوں کی گورننس خراب ہے،وہاں چین کے منصوبے لگائے جارہے ہیں۔نجیب رزاق نے باہمی معاہدے تو کرلئے لیکن ملائیشیا کو قرضوں میں ڈبو دیا اور مہاتیر محمد نے یہ معاہدے منسوخ کردیئے۔ پاکستان بھی بہت سا خام مال پاکستان سے خریدنے پر زور دے اور انسانی وسائل کو اسکل فل بنانے کا چین سے مطالبہ کرے۔ چین کا یہ رویہ ہے کہ وہ مقامی لیبر نہیں رکھتا کیونکہ ا نہیں اچھی اجرت ادا کرنی پڑتی ہے اور پاکستان نے بھی یہ نہیں کہا کہ وہ اپنے محنت کشوں کو چین میں تربیت کے لئے بھیجے گا ۔پاکستان کی درآمد اور برآمد کے لئے تو کراچی پورٹ اور قاسم پورٹ بہت ہے ،ان معاہدوں میں بظاہر تو ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اور ارد گرد کے ممالک سے دشمنی بھی مول لی ہے۔ اس سب کا معاوضہ لیا جانا چاہئےبلکہ اس کے برعکس 51 ارب ڈالر سے بھی زائد پاکستان کو چینی قرضوں میں ڈبویا جارہا ہے۔ مغرب کے91ارب ڈالر کے قرضے الگ ہیں، تو پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں اسے گیم چینجر کیوں کہتے ہیں؟ پاکستان کو فائدہ ہوگا جب اس کا خام مال خاص طور پر سیمنٹ ، سریا استعمال ہوگا جو مشینری امپورٹ پاکستان کررہا ہے اس کا زرمبادلہ چین دے، پاکستان کیوں دے رہا ہے اس کی وجہ سے بھی توازن ادائیگیوں اور کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ بڑھ رہا ہے، چھجے پر جو اورنج لائن چلائی جارہی ہیں ا س پر اور اس کے ٹکٹوں پر ہرسال زر تلافی کا نقصان کون بھرے گا اس کا فیصلہ بھی ہونا چاہئے۔ ملتان میٹرو جو چین نے بھی تسلیم کیا ہے اس کا آڈٹ ہونا چاہئے اور ذاتی مفاد مقدم رکھنے والوں کو ایسی سزائیں دی جائیں جو چین میں کرپشن میں پکڑے جانے والوں کو دی جارہی ہیں۔ چین سے یہ بھی پوچھا جائے کہ اس نےکوئلے کے 102پروجیکٹس چین میں کیوں بند کردیئے ہیں اور ان سے نتھی کمپنیاں پاکستان میں کوئلے کے پلانٹ کیوں لگا رہی ہیں۔ مہاتیر محمد نے نیویارک ٹائمنر کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کیوں کہا ’’ ان کے پاس ثبوت ہے کہ مشرقی ساحلی ریل لنک مقامی کمپنی 13.4 ارب ڈالر میں بناسکتی ہے۔ اس کے بجائے سابق وزیراعظم نجیب رزا ق نے 20ارب ڈالر کا معاہدہ کرلیا تھا۔‘‘ ظاہر ہے کھانچا بھی ہوگا کیونکہ کرپشن کی تفتیش ہورہی ہے۔ گیس پروجیکٹ کے بارے میں مہاتیر محمد نے کہا کہ مقامی طور پر 2 ارب ڈالر پائپ لائن بچھائی جاسکتی ہے جو 2.5 ارب ڈالر میں بنانے کا معاہدہ کیا گیا۔ 

مہاتیر محمد یہ بھی کہتے ہیں ’’ہم نہیںچاہتے کہ ایسا وقت آئے جائے جہاں کو لو نیولزم کا ازسرنو کسی نئے ورژن پر مباحثہ کریں۔‘‘اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کا ون بیلٹ ون لوڈ کے تحت منصوبےایشیا کے بہت سے ممالک میں مقبول ہیں۔ چین نے مختلف ملکوں میں انفرااسٹرکچر جدید بنانے میں 500 ارب ڈالر خرچ کئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ نئی ریل لائسنز اور جدید شپنگ میں پیسہ لگا رہا ہے۔ اس میں قابل غوربات معاہدات میں یہ دیکھنی ہوگی کہ چین کے ساتھ کام کرنے والے ممالک کو کیا فائدہ ہورہا ہے؟ کلوز بڈنگ نہیں ہونے چاہیے۔ جائنٹ وینچر ہونے چاہئیں ایسی لیز اور ڈیلز نہ ہوں جس کا یک طرفہ فائدہ ہو۔ چین ان تمام میگاپروجیکٹس پر مکمل رسائی رکھتا ہو ،بہت سے ممالک جو قرضوں پر معاہدے کررہے ہیں وہ اپنی فسکل صورتحال کو مدنظر رکھ کر معاہدے کررہے ہیں تاکہ وہ اپنی مجموعی معاشی صحت کو کسی لاعلاج بیماری میں مبتلا نہ کردیں۔ ہمیںعلم نہیں کہ پاکستان کےحکمران اس قدر لائق فائق ہیں کہ انہوں نے سپر طاقت کے ساتھ فہم و ادراک سے معاہدے کئے ہوں گے۔ یہ خوفناک بات ہے، اس لئے کہ اب تک معاہدے پوری طرح اوپن نہیں ہوئے ہیں۔ مذکورہ لکھاری خاتون جو چین کے ’’فارن ایڈ‘‘ پر مطالعہ کررہی ہے وہ ایک جگہ لکھتی ہیں ’’سری لنکا جہاں پر 2009ء میں سول وار کا خاتمہ ہوا تھا ۔ سری لنکا میں چین جو سرمایہ کاری کررہا ہے وہ قرضوں کے نام پر کر رکھا ہے اور آج سری لنکا حکومت جو ریونیوٹیکس کی صورت میں اکٹھا کررہی ہے اس کا 80 فیصد ان قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہورہاہے ،جو چین نے سرمایہ کاری کے نام پر دیئے ہیں، اب سری لنکا کے ہائی ویز خالی نظر آتے ہیں اور ہوائی اڈوں پر ایک ہی فلائٹ آرہی ہے، جن پر وجیکٹس پر ریڑن مشکوک ہے۔ اس کے نتائج پر لحاظ سے خطرناک ہوں گے‘‘۔

پاکستان کے بارے میں یہ افواہ بھی گردش کررہی ہے، جس کی تصدیق یا تردید ہونی چاہئے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے نام پر جو چین سے قرضے لکھوا رہا ہے ،ان پر سود کائبور+6فیصد ہے یعنی سود کی شرح 14.5فیصد ہے جو حد سے زیادہ ہے اگر ایسا ہے تو اس کے بارے، تمام پاکستانیوں کومباحثہ کرنا ہوگا اور نئ حکومت کو بھی مہاتیر محمد کی طرح اقدامات اٹھانے ہوں گے۔چین ہمارا برادر ملک ہے لیکن بزنس صرف بزنس ہوتی ہے یہ سرمایہ داری کا اصل روپ ہے۔

تازہ ترین