• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ایک دوست کو عجیب سا شوق ہو چلا ہے، جب بھی فارغ وقت ملتا ہے، مسلسل گردن جھکائے کھڑے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی بہت دیر تک کسی درخت کی ٹہنی پکڑے رہتے ہیں۔ اکثر و بیشتر بغیر کسی مقصد کے بازار میں کسی مجمع میں شامل ہو کر سانس روکنے کی مشق کرتے ہیں۔

آخر جب ہماری حیرت حد سے زیادہ ہو گئی، تو اُن سے پوچھ ہی لیا کہ یہ اتنی سخت مشقیں کیوں کر رہے ہو؟ کہنے لگے ’’یہ تو میں مستقل کرتا ہوں، کیونکہ مجھے روزانہ ویگن میں سفر کرنا ہوتا ہے۔ ویگن میں صرف وہی شخص سفر کر سکتا ہے جو ہر طرح ’’پروف‘‘ ہو… یعنی واٹر پروف، شاک پروف، ہوا پروف، لائٹ پروف اور پروف ہی پروف۔ اگر ویگن میں سفر کرنا ہو، تو گردن کاایکسل اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ اس کو خواہ کتنا ہی جھکایا جائے، ٹوٹ نہ پائے۔ گردن ہو تو ایسی ،کہ اگراس کے اوپر کچھ گردنیں مع سر کے لاد دی جائیں، تو بچاری اُف نہ کرے۔ اور ہاں بازو ہوں، تو ایسے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ ہلنے جلنے پر ضد نہ کریں۔‘‘یقیناََ ہمارے دوست کا بیان بالکل صحیح تھا، کیونکہ ایک دفعہ ہم نے بھی تجربہ کیا۔ ہم سواری کے انتظار میں کھڑے تھے، اچانک ایک ویگن ہمارے سامنے آکر رکی، دیکھا کچھ لوگ اندر حالت رکوع میں ہیں، کچھ ایسے بیٹھے تھے جیسے ابھی اترنے والے ہوں، کچھ چہرے کی شکنیں بار بار سیدھا کرنے کی کوشش کر رہے تھے، تاکہ کسی طور سفر سے لطف اندوز ہو سکیں۔ ہم نے اسٹاپ پر کھڑے ہی کھڑے یہ منظر دیکھااور ہمارے قدم پیچھے ہٹ گئے۔

ڈرائیور نے کنڈکٹر سے کہا ’’سواری باہر کھڑی ہے، اس کو بھی اندر لے آ۔‘‘ کنڈکٹر بولا ’’جگہ نہیں ہے۔‘‘ ڈرائیور بولا ’’اڑالے، سنگل پسلی ہے۔ اڑالے، سوا لاکھ جگہ ہے۔‘‘ یہ ہدایت پا کر کنڈکٹر نے ایک ہاتھ سے ویگن کا دروازہ پکڑا اور دوسرا ہاتھ کمر میں ڈال کر ہمیں اس طرح اٹھایا جیسے ریکٹ سے شٹل کاک اٹھا رہا ہو، یوں ہم بھی ان لوگوں کی صف میں شامل ہو گئے، جنھیں ویگن میں سفر کرنے پر فخر تھا۔ کہنے کو تو ہم ویگن میں سوار تھے لیکن سچ پوچھیے،ٍ تو وہ ہم پر سوار تھی، بہرحال خوش تھے کہ ہمارا شمار بھی ویگن کی سواریوں میں ہونے لگا۔ ہم نے اپنا ہاتھ نشست کے تکیے پر رکھنا چاہا، تو آواز آئی ’’ہائے ہائے۔‘‘

ہم حیران کہ یہ کیسی نشست ہے، جس میں سے انسانی آواز آ رہی ہے۔ لیکن وہ نشست نہیں بلکہ ایک مسافر کا کندھا تھا، بہرحال ہاتھ تو کہیں نہ کہیں رکھنا ہی تھا، اس لیے اٹھا کر دوسرے مسافر کے کندھے پر رکھ دیا، کبھی کبھی ہاتھ اٹھا کر اپنی گردن پر بھی رکھ لیتے، صرف یہ تصدیق کرنے کے لیے کہ وہ واقعی سر سے جڑی ہوئی ہے یا نیچے گر گئی، نیچے جھک کر بھی دیکھ سکتے تھے، لیکن اگر ایسا کرتے، تو کئی دوسرے مسافر بھی ہمارے ساتھ اڑ… اڑ… ر… دھم کر کے نیچے گر جاتے، اس لیے جذبۂ خدمتِ خلق کے تحت ہم نے ایسا کرنا مناسب نہ سمجھا۔ ویگن ابھی کچھ دور ہی بڑھی تھی کہ کنڈکٹر نے بڑی شد و مد سے کرائے کا مطالبہ کر دیا۔ ہم ایسی حالت میں نہیں تھے کہ اپنی جیب میں ہاتھ ڈال سکتے، کیونکہ بالکل مجسمہ بنے ہوئے تھے۔ یہ بہرحال ممکن بلکہ بہت صحیح اندیشہ تھا کہ ہم جیب میں پیسے نکالنے کے لیے ہاتھ ڈالیں، تو ہاتھ کسی دوسرے مسافر کی جیب میں پہنچ جائے، اس اندیشے کی وجہ سے ہم نے کنڈیکٹر سے مہلت چاہی کہ جب ہم اتریںگے، تو کرایہ دے دیں گے۔ کنڈیکٹر نے ہماری درخواست قبول کر لی، صرف یہی نہیں بلکہ ایک لمبی نشست پر بیٹھے کچھ لوگوںسے کہا ’’ساتھ ساتھ ہو جائو، ساتھ ساتھ ہو جائو۔‘‘جب وہ مسافر اپنی جگہ سے نہ کھسکنے کے برابرکھسک گئے، تو کنڈیکٹرنے ہماری طرف ہمدردی کی نگاہ سے دیکھااور کہا ’’بابو جی! آپ یہاں بیٹھ جائیے۔‘‘ ہم نے پوچھا ’’کہاں بیٹھ جائیں؟‘‘ کہنے لگے ’’یہاں ہی یہ ’’سیٹ ‘‘ہے۔‘‘ ہماری آنکھیںکوئی نشست تلاش نہ کر سکیں۔ کنڈیکٹر نے بہر طور ہمیںبہ نفس نفیس اس جگہ بٹھایا جس کو وہ ’’نشست‘‘ کہنے پر مصر تھے،ابھی کچھ ہی دیر اس نام نہاد’’ سیٹ ‘‘پر بیٹھے تھے کہ کنڈکٹر نے ہم سے کہا ’’بابو جی! آپ پچھلی سیٹ پر آجائیے۔‘‘

ہم کئی مسافروں کو پھلانگتے اور رگیدتے ہوئے پچھلی ’’سیٹ‘‘ پر پہنچ کربیٹھ بلکہ اڑ گئے۔ خوش تھے کہ چلو بیٹھنا تو نصیب ہو، ابھی صحیح طرح بیٹھ بھی نہ پائے تھے کہ کنڈیکٹر نے کہا ’’بابو جی، یہ کچھ نئی سواریاں ہیں، آپ ایسا کریں کہ اگلی ’’سیٹ‘‘ پر آجائیں۔‘‘ ہم بغیر چوںو چرا کیے اگلی نشست پر آئے اور تقریباً بیٹھ گئے، غرض ایک نشست سے دوسری پر دوسری سے تیسری، تیسری سے چوتھی پرہم مسلسل نشستیں بدلتے رہے۔ اس کام کے لیے ہمیں ویگن کے اندر اتنا چلنا پڑا کہ یقین جانیے، اگر اتنا پیدل چلتے تو نہ معلوم کب کے منزل مقصود تک پہنچ جاتے۔

(مصطفٰے جاوید)

تازہ ترین