• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینٹرل جیل راولپنڈی جسے اڈیالہ جیل بھی کہا جاتا ہے، 1970ء اور 1980ء کے درمیان جنرل ضیاء الحق کے دور میں قائم کی گئی تاہم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد اس جیل کو منہدم کرکے پارک میں تبدیل کردیا گیا اور بعد ازاں اڈیالہ جیل کا قیام عمل میں آیا۔ راولپنڈی کے علاقے اڈیالہ کے مقام پر انتہائی حساس نوعیت کی اس جیل کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، ممتاز قادری اور سیف الرحمن جیسی شخصیات قید رہیں جبکہ کرنسی اسمگلنگ میں ملوث ماڈل ایان علی کو بھی اسی جیل میں قید رکھا گیا۔ گزشتہ دو ماہ سے یہ جیل ایک بار پھر خبروں اور لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے جہاں آج کل تین بار منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف، اُن کی صاحبزادی مریم نواز اور اُن کے داماد کیپٹن صفدر اسیر ہیں۔

میں مراکش سے جیسے ہی وطن واپس لوٹا تو مجھے پیغام ملا کہ نواز شریف سے ملاقات کرنے والوں کی لسٹ میں میرا نام بھی شامل ہے۔ اس طرح اگلے روز علی الصبح کی فلائٹ سے اسلام آباد اور پھر ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد اڈیالہ جیل پہنچا۔ اڈیالہ جیل کے گیٹ نمبر 5 پر متعین جیل اہلکار نے شناختی کارڈ کی تصدیق اور جامہ تلاشی کے بعد مجھے اندر جانے کی اجازت دی۔ کڑکڑاتی دھوپ میں 500 میٹر چلنے کے بعد ایک اور جگہ جامہ تلاشی لی گئی اور موبائل رکھوالئے گئے حالانکہ جیل میں نصب جیمر کے باعث فونز کام نہیں کررہے تھے۔ شناختی کارڈ کے اندراج اور ایک پرچی پر نام تحریر ہونے کے بعد ایک چھوٹے کمرے میں انتظار کیلئے کہا گیا جہاں سینیٹر پرویز رشید، عرفان صدیقی، خواجہ آصف، مشاہد اللہ، طارق فاطمی اور رانا مشہود سمیت کئی شناسا چہرے پسینے میں شرابور نظر آئے جو صبح سے نواز شریف سے ملاقات کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ ایک موقع پر جب برداشت حد سے باہر ہوگئی تو طارق فاطمی، پولیس اہلکار عمران پر یہ کہتے ہوئے برس پڑے کہ آپ نے کئی گھنٹوں سے ہمیں یہاں بٹھا رکھا ہے، آخر آپ کب ہماری ملاقات نواز شریف سے کروائیں گے؟ مگر پولیس اہلکار پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ بالآخر انتظار کے کٹھن لمحات ختم ہوئے اور پرچی پر درج نام اس طرح پکارے گئے جیسے عدالتوں میں پکارے جاتے ہیں۔ کچھ فاصلے پر ایک دوسری عمارت کے بڑے گیٹ پر لایا گیا اور ایک بار پھر جامہ تلاشی کے بعد ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں بٹھادیا گیا جو بڑے ایکشن سے چائے نوش کرنے میں مصروف تھا۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کو چائے پیتے دیکھ کر چائے کی طلب محسوس ہوئی مگر میں نے پانی مانگنے پر ہی اکتفا کیا لیکن جب جیل اہلکار پانی لے کر آیا تو اس کی رنگت دیکھ کر پینے کی ہمت نہ ہوئی۔ میں نے جیل اہلکار سے دریافت کیا کہ ’’کیا یہ منرل واٹر ہے؟‘‘ جس پر جیل اہلکار نے طنزیہ مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’یہ جیل ہے، یہاں منرل واٹر کا کوئی انتظام نہیں اور نواز شریف بھی یہی پانی پیتے ہیں۔‘‘ کچھ دیر میں جیل کے ایک اہلکار نے میری ہتھیلی پر سرخ رنگ کی وزیٹر اسٹمپ لگاتے ہوئے تاکید کی کہ ’’یہ اسٹمپ مٹنے نہ پائے کیونکہ یہی آپ کے وزیٹر ہونے کی نشانی ہے ، بصورت دیگر آپ کا جیل سے نکلنا ممکن نہ ہوسکے گا۔‘‘

نواز شریف سے ملاقات کے کمرے تک جانے کیلئے راہداری سے گزرتے ہوئے کچھ قیدیوں پر نظر پڑی جو بیڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ایک بار پھر تلاشی لی گئی اور جیب میں لگا پین یہ کہہ کر لے لیا گیا کہ اسے لے جانے کی اجازت نہیں۔ کمرے میں ایک کرسی پر نواز شریف آسمانی رنگ کی شلوار قمیض اور ان کی برابر والی کرسی پر مریم نواز کالے رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس بیٹھی تھیں جبکہ انہوں نے سر پر کالے رنگ کا دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا۔ وہ دونوں انتہائی کمزور دکھائی دے رہے تھے مگر ان کے حوصلے بلند تھے۔نواز شریف نے کھڑے ہوکر مصافحہ کیا اور خیریت دریافت کی۔ میں نے نواز شریف کو بتایا کہ الیکشن میں ہمیں کراچی کے عوام اور بزنس کمیونٹی کا بھرپور تعاون حاصل رہا، گوکہ (ن) لیگ دھاندلی کے باعث کوئی نشست حاصل نہیں کرسکی لیکن اگر کئی نشستوں پر دوبارہ ووٹوں کی گنتی ہوئی تو (ن) لیگ کو یہ نشستیں حاصل ہوسکتی ہیں۔ میں نے بتایا کہ میں ایک روز قبل ہی مراکش سے وطن واپس لوٹا ہوں اور مراکش کے مشہور صوفی بزرگ مولے ادریس اور محمد بن سلیمان الجزولی کے مزار پر آپ اور شریف فیملی کیلئے خصوصی دعائیں کی ہیں، مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ بہت جلد آپ کی مشکلات دور ہوں گی۔ نواز شریف کے برابر میں بیٹھی مریم نواز بہت کمزور دکھائی دے رہی تھیں جنہوں نے اسپنچ چپل پہن رکھی تھی اور وہ متواتر درود شریف کا ورد کررہی تھیں۔ یہ اس مریم نواز سے بہت مختلف تھیں جنہیں ہم ٹی وی پر دیکھا کرتے تھے۔ میں نے جب ان کی خیریت دریافت کی تو انہوں نے مجھے تلقین کی کہ آپ نے ہمت نہیں ہارنی۔ یہ سن کر میری آنکھیں نم ہوگئیں کہ میں جن کی ہمت بندھانے آیا تھا، وہی مجھے ہمت نہ ہارنے کا حوصلہ دے رہے ہیں۔دوران ملاقات میں نے نواز شریف کو اپنے کالموں کا مجموعہ ’’آج کی دنیا‘‘ پیش کیا جس پر نواز شریف نے بتایا کہ وہ میرے کالمز باقاعدگی سے پڑھتے اور پسند کرتے ہیں۔

13 جولائی کو جب نواز شریف کو اڈیالہ جیل لایا گیا تو انہیں جیل میں سی کلاس دی گئی، بیرک میں کوئی چارپائی اور نہ ہی کوئی گدا تھا جبکہ بیرک کے باہر باتھ روم انتہائی گندا تھا۔ بیرک میں ایک بہت پرانا پنکھا نصب تھا جو گرم ہوا پھینک رہا تھا۔ میاں نواز شریف نے وضو کیا، قرآن مجید مانگا اور نماز پڑھنے کے بعد فرش پر لیٹ کر رات گزاری۔ وہ رات بھر پسینے میں شرابور رہے اور دوسرے دن جب شریف فیملی کے افراد ملاقات کیلئے آئے اور انہوں نے نواز شریف کی یہ حالت دیکھی تو یہ بات میڈیا پر لیک ہوئی تو نواز شریف کو بی کلاس میں منتقل کیا گیا جہاں اُنہیں ایک چارپائی کی سہولت حاصل تھی جبکہ کمرے سے منسلک ایک باتھ روم بھی تھا جو انتہائی بدبو دار تھا۔ نواز شریف کو کھانا جیل کا ملتا تھا مگر وہ جیل کا پانی نہیں پیتے تھے جس کے باعث انہیں گردے کا مرض لاحق ہوگیا اور ان کی طبیعت تشویشناک حد تک بگڑگئی اور ڈاکٹروں کے مطابق گردے کسی وقت بھی فیل ہوسکتے تھے، اسپیشلسٹ نے میاں نواز شریف کو اسپتال منتقل کرنے کا مشورہ دیا مگر جیل حکام نے ہدایت پر عمل کرنے سے انکار کردیا۔ الیکشن کے بعد میاں نواز شریف کی طبیعت مزید بگڑتی چلی گئی، یہاں تک اُنہیں ہارٹ اٹیک ہوا اور ڈاکٹرز نے انہیں اسپتال منتقل کرنے کی ہدایت کی مگر نواز شریف نے اسپتال شفٹ ہونے سے صاف انکار کردیا۔ بعد ازاں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے اصرار پر نواز شریف کو پمزاسپتال کے سی سی یو میں منتقل کیا گیا۔ کچھ روز بعد جب نواز شریف کی حالت بہتر ہوئی تو وہ اس بات پر بضد رہے کہ وہ اسپتال میں نہیں رہنا چاہتے اور انہیں جیل منتقل کیا جائے۔ اس طرح میاں نواز شریف کو دوبارہ جیل پہنچا دیا گیا۔

میں نے پارٹی کے سینئر لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ نواز شریف کا مریم نواز کے ساتھ پاکستان واپسی کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ایسے میں جب کلثوم نواز وینٹی لیٹر پر تھیں تو نواز شریف اور مریم نواز کے وطن واپس نہ آنے کا جائز جواز موجود تھا۔ لندن سے پاکستان روانگی سے قبل سینئر پارٹی رہنمائوں کا یہ مشورہ بھی تھا کہ اگر نواز شریف نے وطن واپس جانے کا فیصلہ کرلیا ہے تو مریم ان کے ساتھ نہ آئیں کیونکہ اس طرح وہ لندن میں بیٹھ کر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرسکتی ہیں مگر مریم نواز نے اپنے باپ کو اکیلا چھوڑنے سے انکار کردیا جو میرے نزدیک ایک جذباتی فیصلہ تھا کیونکہ باہر بیٹھ کر وہ اپنے اور اپنے والد کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز بلند کرسکتی تھیں۔ ہمارے سامنے آیت اللہ خمینی کی مثال موجود ہے جنہوں نے فرانس میں بیٹھ کر بڑی کامیابی سے ایران میں انقلابی مہم چلائی اور وہ اس وقت وطن واپس لوٹے جب شاہ محمد پہلوی کا طیارہ انہیں لے کر ملک سے پرواز کرچکا تھا۔ میرے نزدیک بہادری اور سمجھداری میں یہی فرق ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک باپ یہ جانتے بوجھتے کہ اسے اور اس کی بیٹی کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا جائے گا،اپنی بیٹی کا ہاتھ تھامے جیل چلاگیا۔ایسے ملک میں جہاں کسی باپ کو اگر اپنی بیٹی کو تھانے لے جانا مقصود ہوتا ہے تو وہ ایسا کرنے کی ہمت نہیں کرپاتا۔ پاکستانی معاشرے میں بیٹیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کو ایک برا فعل سمجھا جاتا ہے۔ پنجاب میں مریم نواز کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناروا سلوک کا بہت برا منایا جارہا ہے۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو الگ الگ کمروں میں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور وہ سیل میں ہی نماز ادا کرتے ہیں۔اُنہیں پورے ہفتے ایک دوسرے سے ملنے کی اجازت نہیں اور وہ صرف ملاقاتیوں کیلئے مختص جمعرات کے دن ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ مریم نواز کی 13 سالہ بیٹی ہر ملاقات میں ماں سے لپٹ کر رونے لگتی ہے کہ وہ اسے چھوڑ کر نہیں جائیں گی اور یہی حالت نواز شریف کی والدہ کی ہوتی ہے جن کی چیخیں جیل میں گونجتی ہیں کہ ’’مجھے بھی جیل میں بیٹے کے ساتھ رکھا جائے۔‘‘ مریم نواز کمزور ہوگئی ہیں اور پہچانی نہیں جاتیں جبکہ نواز شریف کا وزن کئی کلو گرچکاہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ نواز شریف اور ان کی فیملی کے ساتھ ظلم و زیادتی ہورہی ہے جو وہ Deserve نہیں کرتے۔حالیہ الیکشن میں مطلوبہ نتائج مل چکے، عمران خان وزیراعظم بن گئے، انہیں پنجاب کی حکومت بھی مل گئی، سینیٹ اور صدارتی انتخاب جیسے اہداف بھی حاصل ہوگئے، اب نواز شریف فیملی پر مزید ٹارچر نہیں ہونا چاہئے۔ زیادہ اچھا ہے کہ اس سلسلے کو اب بند کردیا جائے کیونکہ خدانخواستہ نواز شریف جنہیں کئی بیماریاں لاحق ہیں، کو اگر کچھ ہوگیا تو قوم انہیں اس حال میں پہنچانے والوں کو معاف نہیں کرے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین