• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم عام طور پر اور خاص طور پر بھول جاتے ہیں۔ یہ ہمارا قومی خاصہ ہے۔ اس لیے آپ کو قطعی یاد نہیں ہوگا کہ آپ نے مجھے اینکر کے روپ میں کب اور کس چینل سے دیکھا تھا۔ آپ کو یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ میں کتنے لیڈروں کے لیے جلسے جلوسوں میں چلا چلاکر نعر ے لگاتا تھا،’’قدم بڑھائو لیڈر صاحب ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔ آپ کو یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ میں تن تنہا سینکڑوں ووٹ بیلٹ بکس میں ڈال سکتا تھا۔ بلکہ جتنے ووٹ میں چاہتا تھا امیدوار کے حق میں ڈال سکتا تھا۔ میں الیکشن کا پانسہ پلٹ سکتا تھا۔ آپکو یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ میں کبھی کس قبضہ مافیاکے لیے کام کرتا تھا اور سرکاری اراضی پر قبضہ کرلیتا تھا۔ میں سرکاری املاک ہتھیانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ آپ کو یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ میں کب اور کیسے بیروزگاروں کو اندرون ِ ملک اور بیرون ِ ملک ملازمت کے جھانسے دیکر اُن کو جمع پونجی سے محروم کردیتا تھا۔ آپ کو یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ اپنی سیاسی زندگی میں میں نے کتنی پارٹیاں بدلی تھیں اور آخر میں ، میں نے اپنی سیاسی پارٹی بنائی تھی جس کا میں واحد مبصر تھا۔ آپ کو یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ میں نے کس کس بینک سے کروڑوں اور اربوں قرضہ لیا تھا اور اقتدار میں آنے کے بعد وہ قرض ہنسی خوشی معاف کروادیا کرتا تھا۔ میں جانتا ہوں آپ کو کچھ بھی یاد نہیں ہے۔بھول جانا ہمارا قومی خاصہ ہے۔ اس لیے آپ کو قطعی یاد نہیں ہوگا کہ میں کرائے کے قاتل پالتا تھا اور با اثر لوگوں سے سُپاری لیتا تھا اور ان کے حریفوں کو ٹھکانے لگوادیتا تھا۔ ایک کبڑے سیاستدان کے لیے میں نے درجنوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتروادیا تھا۔

میرے کہنے کا مطلب ہے کہ میرے پاس خدا کی دین ہے۔ میں جو کام چاہوں کرسکتا ہوں۔ میں آپ کا اردلی بن سکتا ہوں۔ میں آپ کا خانسامہ بن سکتا ہوں۔ میں آپ کا نوکر بن سکتا ہوں۔ میں آپ کا ڈرائیور بن سکتا ہوں۔ اگر آپ سے یا آپ کے بیٹے سے ایکسیڈنٹ ہوجائے اور کوئی بندہ گاڑی کے نیچے آکر مرجائے، تو میں آپ پر اور آپ کے بیٹے پر آنچ آنے نہیں دوں گا۔ میں الزام اپنے سر لے لوں گا۔ پولیس کو بیان دیتے ہوئے اعتراف کروں گا کہ گاڑی میں چلا رہا تھا۔ ایکسیڈنٹ میں نے کیا ہے۔ سزا مجھے ملنی چاہیے۔ میرے صاحب یا ان کے ہونہار بیٹے کو نہیں۔ آپ مجھ سے پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اگر میرے پاس خدا کی دی ہوئی غیبی دین ہے تو پھر میں ملک کا صدر یا وزیر اعظم کیوں نہیں بن جاتا۔ کچھ اسباب ہیں جن کی وجہ سے میں ملک کا صدریا وزیر اعظم بننا نہیں چاہتا۔ میں صدر اس لیے بننا نہیں چاہتا کہ صدر بننے کے بعدپریزیڈنٹ ہائوس یعنی ایوان صدر میں رہنا پڑتا ہے۔ میں ایوان صدر میں کسی قیمت پر رہنا نہیں چاہتا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایوان ِ صدر آسیب زدہ ہے۔ امائوس کی راتوں میں کالے لباس میں ملبوس ایک عورت کی روح کو ایوان صدر کی راہ داریوں، کوریڈوروں، برآمدوں، سیڑھیوں اور خالی پڑے ہوئے کمروں میں بھٹکتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ اس کے ہاتھ میں موم بتی ہوتی ہے۔ اس کے چہرے پر اسکے گھنے بال پڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لیے اسکا چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ ایوان صدر کے پیچ و خم میں وہ جہاں جہاں سے گزرتی ہے، اس کی سرگوشی گونجتی رہتی ہے، جب میں صدر بن گیا تب وہ بھٹکتی ہوئی آتما سے خوف زدہ رہتا تھا۔ پوری رات بیڈ روم بدلتے رہتا تھا۔ ایک رات میں دس بارہ بیڈروم بدلتا تھا۔ بھٹکتی ہوئی آتما سے صدر کو محفوظ رکھنے کے لیے روزانہ دو کالے بکروں کا بلیدان دیا جاتا تھا۔ یعنی دو کالے بکرے روزانہ ذبح کیے جاتے تھے۔ آٹھ دس کالی مرغیاں بھی کاٹی جاتی تھیں اور ان کا خون ایوان ِ صدر کے اطراف چھڑکا جاتا تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ میں بھٹکتی ہوئی آتما سے کیوں اس قدر خوفزدہ تھا۔ بہر حال، میں آسیب زدہ ایوانِ صدر میں نہیں رہ سکتا۔ اس لیے میں صدر نہیں بننا چاہتا۔وزیر اعظم میں اس لیے بننا چاہتاکہ بیرون ِ ملک بینکوں میں رکھنےکیلئے میرے پاس پھوٹی کوڑی نہیں ہے۔ وزیر اعظم بننے کے لیے آپ کا دولتمند ہونا ضروری ہے۔ میں دولتمند نہیں ہوں۔ میں ضرورتمند ہوں۔ ایک ضرورتمند ملک کا وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔مگر اینکر پرسن بننا میرے بس کی بات تھی۔ میں دبنگ قسم کا اینکر بن گیا تھا۔ میں مہمانوں کی بولتی بند کردیتا تھا ۔ صرف خود بولتا رہتا تھا۔ کیا سیاستدان، کیا افسران سب کو چپ کرادیتا تھا۔ اینکر بننے کے بعد علوم کے دروازے مجھ پر کھل گئے تھے۔ بڑے بڑے انجینئر،ڈاکٹر، سائنسدان میری بحث سے بوکھلا جاتے تھے۔ میرے سامنے بے بس ہوجاتے تھے۔ بڑے ادیبوں، دانشوروں اور پروفیسروں کی میںمت ماردیتا تھا ۔ اُن سب کو آڑے ہاتھوں لیتا تھا۔ انہیں ذلیل کرتا تھا۔ میری وجہ شہرت تھا میرا ہر دلعزیز پروگرام، آدھی رات، داماد نامدار کے ساتھ ۔ میرے پروگرام کے شرکاء ہوتے تھے نامور سسر اور نامور ساسیں۔ وہ زیادہ تر اسمبلیوں کے ممبر، فلاحی اداروں کے سربراہ، سماج شیوک یعنی سماج کی خدمت کرنے والے کاروباری حضرات ہوتے تھے۔ میں کسی سسر، کسی ساس کو بولنے نہیں دیتا تھا۔ اگر وہ بولتے تو پھر میں بھی ان کی آواز سے اونچی آواز میں بولنا شروع کردیتا تھا۔ ان کی بات سامعین اور ناظرین کو سننے نہیں دیتا تھا۔ کچھ ساسیں بولنے کے لیے بضد ہوتی تھیں۔ میں ان کو ایک جملہ بول کر ہمیشہ کے لیے چپ کردیتا تھا۔ میں کہتا تھا۔ ’’جانتی ہیںآپ کا پرابلم کیا ہے؟ آپ کا پرابلم یہ ہے کہ آپ اپنی بہو سے کم عمر اور زیادہ خوبصورت نظر آنے کی کوشش کرتی ہیں‘‘۔اینکر بننے کے بعد میں نے اور کیسے کیسے گل کھلائے تھے؟ میرے مخبر کون ہوتے تھے؟ میرے کھوجی کون ہوتے تھے؟اندر کی باتیں معلوم کرنے کے لیے میرے وسائل کیا تھے؟ میرے ذرائع کیا تھے؟ مجھے ملنے والے لفافوں میں کیا ہوتا تھا؟یہ تمام باتیں میں آپ کو تفصیلاً پھر کبھی سنائوں گا۔ آج بس اس بات پر اکتفا کرلیں کہ آج کے اینکر پرسن میری کاپی کرتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین