اسلام آباد (طارق بٹ) سیاسی طور پر نسبتا خاموش اور غیر فعال بیگم کلثوم نواز نے اپنی سیاست کا آغاز اس وقت کیا تھا جب نواز شریف کی دوسری حکومت کو پرویز مشرف نے 12اکتوبر 1999کو برطرف کردیا تھا۔ مارشل لا کے نفاذ سے لے کر دسمبر 2000میں شریف خاندان کی جدہ جلاوطنی تک انہوں نے سیاسی محاذ پر سخت جدوجہد کر کے مسلم لیگ ن کو زندہ اور متحرک رکھا۔ اس دوران انہوں نے ہر روز متعدد بار سیاسی گفتگو کی۔ وہ اپنے خاندان کی واحد خاتون رکن تھیں جنہوں نے اپنے شوہر، بچوں اور دیگر متعلقہ افراد کی رہائی کیلئے مہم چلائی۔نواز شریف، شہباز شریف اور حسین کو بالکل الگ تھلگ قید کیا گیا تھا۔ مشرف کے دور حکومت شروع ہونے کے بعد بیگم کلثوم نواز سیاسی میدان میں واحد قوت تھیں جو سخت مزاحمت کررہی تھیں۔ دیگر سیاسی کھلاڑیوں نے محفوظ راستہ چنا ہوا تھا۔ بیگم کلثوم نواز نے ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کیا اور فوجی حکومت کے خلاف مہم چلائی۔ اسی دوران ایک وقت ایسا آگیا جب مشرف سمجھ گیا کہ وہ اس وقت تک چین سے حکومت نہیں کرسکتا جب تک بیگم کلثوم نوازپاکستان میں ہیں۔ ان واقعات سے پہلے وہ صرف ایک خاتون خانہ تھیں اور کبھی بھی سیاست میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔ یہ ان کی پہلی سیاسی سرگرمی تھی۔ ان کی سیاسی جدوجہد کے دوران ایک مشہور واقعہ پیش آیا جب حکام نے انہیں لاہور میں اس وقت گاڑی میں بندکردیا جب وہ حکومت مخالف ریلی کی قیادت کی تیاری کرہی تھیں۔ انہیں اپنی گاڑی میں کئی گھنٹوں تک رہنے پر مجبورکردیا گیا۔ اپنی سیاسی مصروفیات کے علاوہ بیگم کلثوم نواز اٹک جیل بھی جاتی رہیں جہاں نواز شریف قید تھے اور ان پر مختلف مقدمات چلائے جارہے تھے۔ شریف خاندان کی جلاوطنی کے بعد بیگم کلثوم نواز نے دوبارہ ویسی ہی مکمل خاموشی اختیار کرلی جیسا کہ وہ 1985میں نواز شریف کے وزیر اعلی پنجاب اور بعد ازاں 1990، 1997 اور 2013میں وزیر اعظم بننے کے موقع پر اختیار کئے ہوئے تھیں۔ انہوں یہ منفر اعزاز حاصل ہے کہ وہ تین مرتبہ پاکستان کی خاتون اول رہیں۔ نہ صرف یہ کہ اپنے خاندان کے ساتھ جلا وطنی کے دوران انہوں نے سیاست پر کوئی بات نہیں کی، بلکہ سیاست سے دور رہنے کی اپنی پرانی پالیسی اپنائی۔ وہ ایک بہادر، پروقار اور انتہائی سلیقہ مند خاتون تھیں۔ شریف خاندان کے بعض مخالفین نے کھلم کھلا بیگم کلثوم نوازکی بیماری کا مذاق اڑایا اور شبہ ظاہر کیا کہ وہ دراصل بیمار نہیں بلکہ یہ ڈرامہ عوامی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے رچایا جارہا ہے۔ تاہم پاکستان سے روانگی کے بعد سے ہی وہ لندن کے ایک کلینک میں شدید علات کے باعث داخل تھیں۔ بیگم کلثوم نواز کو اگست میں اس وقت اچانک لندن لے جایا گیا تھا جبکہ انہوں نے صحت سے متعلق شکایت کی تھی۔ بعد ازاں ان میں حلق کے کینسر کی تشخیص کی گئی۔ کچھ دنوں بعد انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا جہاں سے وہ واپس نہ آسکیں۔ بیگم کلثوم نواز کی غیر موجودگی میں قومی اسمبلی کی نشست کیلئے ان کےکاغذات نامزدگی ن لیگی رہنماوں نے جمع کرائے تھے۔ یہ نشست پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے حکم پر نااہلی کے باعث خالی ہوئی تھی۔ مریم نواز نے شدید مشکل حالات میں ان کی کامیاب انتخابی مہم چلائی تھی۔ تاہم اپنی بیماری کے باعث بیگم کلثوم نواز پاکستان واپس نہ آسکیں اور قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہونے کے باوجود حلف نہ اٹھا سکیں۔ ان کے انتقال نے بلاشبہ نواز شریف کو شدید دھچکا پہنچایا ہے جو اس امر پر شدید رنجیدہ تھے کہ لندن قیام کے دوران وہ بیگم کلثوم نواز سے ان کی بے ہوشی کےباعث بات نہ کرسکے اور احتساب عدالت سے لندن اپارٹمنٹس کیس میں سزا سنائے جانے کی وجہ سے گرفتاری پیش کرنے کیلئے پاکستان آنا پڑا۔ نواز شریف نے جی طویل ترن مدت بیگم کلثوم نواز کے ساتھ گذاری وہ 14جون سے 13جولائی تک کا عرصہ تھا۔ اسی عرصے میں پاکستان میں عدم کے دوران نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو سزا سنائی گئی تھی۔ سیاسی مجبوریوں کے باعث نواز شریف اور مریم نواز کو پاکستان واپسی کیلئے اڑان بھرنی پڑی جہاں لاہور ائرپورٹ پر جہاز سے نکلتے ہی انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ یہ سانحہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب نواز شریف اپنی سیاسی دور کے مشکل ترین دور سے گذر رہے ہیں۔ وہ، انکی بیٹی اور داماد قید میں ہیں جبکہ نواز شریف کو زندگی بھر کسی بھی سرکاری عہدہ رکھنے کیلئے نا اہل قراردیا جاچکا ہے۔ اکتوبر 2004میں شریف برادران کی جلاوطنی کے دوران ان کے والد میاں محمد شریف کا انتقال ہواتھا۔ نواز شریف اور شہباز شریف اپنے والد کے جنازے میں شرکت کیلئے پاکستان آنا چاہتے تھے تاہم انہیں اس مقصد کیلئے آنے کی اجازت نہ ملی۔ مشرف نے شریف برادران کو بتایا تھا کہ پاکستان آنے کی اجازت صرف اس صورت میں دی جائے گی جب وہ سیاست چھوڑ دیں۔ شریف برادران نے یہ پیشکش رد کردی تھی۔